شعور
جنگل نگر کے میٹنگ روم میں ہنگامی اجلاس جاری تھا۔ پرندوں کے بڑھتے شکار اور درختوں کے بے رحمانہ کٹاؤ کی وجہ سے پرندوں کے مسکن بری طرح متاثر ہو رہے تھے اور آج کا یہ اجلاس بھی اسی سلسلے میں طلب کیا گیا تھا۔
ابتدائی کارروائی کے بعد گلو کبوتر کو دعوت دی گئی جو گھنے جنگل میں سب سے بڑی عمر کا پرندہ تھا۔ سب پرندے اس کی عزت کرتے تھے۔ وہ جنگل کے چھوٹے بچوں کو روز کہانیاں بھی سناتا تھا۔ اجلاس کے ایجنڈے کے بعد گلو کبوتر نے بات شروع کی،
میرے ہم جنسو! یہ کہانی ہم پرندوں اور انسانوں کی ہے۔ آپ سب کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ہم اور انسان ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ انسان ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ جب شدید گرمی ہوتی تو وہ ہمارے لیے برتن میں پانی بھر کر رکھتے تھے۔ کچھ انسان تو اپنی کمائی سے دانے خرید کر راستوں یا گھروں کی چھتوں پر ڈالتے تھے اور ہم انسانوں سے بہت خوش تھے۔ مگر جب انسان ترقی کرنے لگا تو وہی انسان اشرف المخلوقات کے بجائے وحشی جانور بن گیا۔ اونچے مکانوں سے ہمارے گھونسلے گرانے لگا۔ درخت بھی کاٹنے لگا جس سے ہمارے بچے تڑپ تڑپ کر مرتے تھے۔ یہ دیکھ کر ہم سب پرندے ان سے دور اس جنگل میں آ کر رہنے گئے۔ مجھے تو ڈر تھا کہ کہیں انسان اس جنگل کے درخت بھی نہ کاٹنا شروع کر دیں۔ کچھ عرصہ تو سکون رہا لیکن اب وہی صورتحال یہاں بھی درپیش ہے جس کا ہمیں خدشہ تھا۔
کیا انسان اس جگہ کے اکیلے وارث ہیں جو ایسا کر رہے ہیں؟ ایک چھوٹے پرندے نے سوال کیا۔
گلو کبوتر نے جواب دیا: نہیں، یہ زمین تو اللہ تعالیٰ نے ہم سب مخلوقات کیلئے بنائی ہے، مگر انسان ہم سب پر قابض ہوتا جا رہا ہے۔ انسان ترقی کر کے یہ بھول گیا ہے کہ جتنا اس زمین پر اس کا حق ہے اتنا ہی ہمارا بھی ہے۔ بس دعا کرو کہ اس انسان کی سمجھ میں یہ بات آ جائے اور وہ اس زمین پر رہنے والی ہر مخلوق کا خیال کرے۔ خدا کرے کہ انسان ہمارے ساتھ پیار اور محبت سے رہنے لگے۔
گلو کبوتر نے اپنی بات ختم کی تو سب پرندے اس دعا کے ساتھ اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب چل دیے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو شعور اور سمجھ دے کہ وہ اس زمین پر امن سے رہیں اور ہر مخلوق کا احترام کریں۔