علیم ڈار:امپائرنگ کی دنیا میں بنے پاکستان کی پہچان
پاک سر زمین میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ اس کا واضح ثبوت علیم ڈار ہیں جنہوں نے امپائرنگ کے شعبے میں پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔عالمی ریکارڈ یافتہ پاکستانی امپائر علیم ڈار جنہیں دنیا کے سب سے زیادہ قابل احترام اور قابل تعریف کرکٹ امپائرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے 25-2024ء کے سیزن کے اختتام پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ان کا شاندار اور باوقار کریئر ایک چوتھائی صدی پر محیط ہے۔
6جون 1968ء کو جھنگ میں پیدا ہونے والے علیم ڈار نے بچپن میں ٹیسٹ کرکٹر بننے کے خواب دیکھے لیکن متعدد چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہنے کے باعث غلام سرور ڈار نامی پولیس آفیسر کا بیٹا علیم ڈار اپنے خوابوں کو حقیقت میں نہ بد ل سکا۔ قسمت نے یاوری کی اور وہ ٹیسٹ کرکٹر بننے کے بجائے کامیاب ٹیسٹ امپائر بن گیا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز کے طالب علم نے اپنی قدرتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ریلویز، الائیڈ بنک اور لاہور کی نمائندگی کرتے ہوئے 17فرسٹ کلاس میچز بھی کھیلے جبکہ نیشنل ڈومیسٹک کرکٹ ٹورنامنٹ ولز کپ کے 18ون ڈے میچز بھی کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
30 سال کی عمر میں کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کر کے امپائرنگ کے شعبے میں طبع آزمائی کرنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس وقت پاکستانی امپائرز کو اتنی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھااور ان کے آگے بڑھنے کے مواقع بھی محدود تھے۔ عالمی سطح پرشہرت کی تمنا لیے علیم ڈار نے امپائرنگ کے میدان میں قدم رکھا اور صرف دو سال کے قلیل عرصے میں بین الاقوامی سطح تک رسائی حاصل کرتے ہوئے16فروری 2000ء کو گوجرانوالہ میں پاکستان بمقابلہ سری لنکا میچ سپروائز کرنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ 2003 ء میں ورلڈ کپ کے فائنل کے اس ریزرو امپائر کو اسی سال ڈھاکہ میں انگلینڈ اوربنگلہ دیش کے درمیان کھیلے گئے میچ سے ٹیسٹ کریئر کے آغاز کا موقع بھی مل گیا۔ اگلے برس آئی سی سی ایلیٹ میں شامل ہونے والے پہلے پاکستانی امپائر علیم ڈار کو ایشز کی روایتی جنگ سے لے کر متعدد ٹورنامنٹس کے فائنل سپر وائز کرنے کا اعزازحاصل ہے۔ علیم ڈار اب تک 145 ٹیسٹ، 231 ون ڈے انٹرنیشنل، 72 ٹی 20انٹرنیشل، 5 ویمنزٹی 20 انٹرنیشنل، 181 فرسٹ کلاس میچز، اور 282 لسٹ اے میچز میں امپائرنگ کر چکے ہیں۔
علیم ڈار کو آئی سی سی ایوارڈ 2009ء میں بہترین امپائر منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد 2010ء اور 2011ء میں بھی علیم ڈار کو آئی سی سی کی جانب سے بہترین امپائر منتخب کیا گیا۔ بہترین امپائر کے ایوارڈ لینے کی ہیٹرک کرنا نہ صرف علیم ڈار بلکہ پورے پاکستان کیلئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
علیم ڈار کا ریٹائر ہونے کے اپنے فیصلے پر کہنا ہے کہ تقریباً 25 سال سے امپائرنگ میری زندگی رہی ہے اور میں نے اس نسل کے عظیم ترین کھلاڑیوں پر مشتمل چند انتہائی یادگار میچوں میں امپائرنگ کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔میں نے اپنے پورے کریئر میں کھیلوں کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کے چند بہترین میچ آفیشلز کے ساتھ کام کرنا اعزاز کی بات ہے، تاہم تمام عظیم سفر بالآخر اختتام کو پہنچتے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنے سماجی اور چیریٹی کاموں پر پوری توجہ مرکوز کروں۔انہوں نے کہا کہ میرا ہسپتال پروجیکٹ اور دیگر اقدامات میرے دل کے بہت قریب ہیں اورانہیں میری پوری لگن اور توجہ کی ضرورت ہے۔
علیم ڈار کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھیوں کی غیر متزلزل حمایت کے ساتھ امپائرنگ میں تقریباً وہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد جس کی میں نے خواہش کی تھی، میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ایک طرف ہوجانا اور ابھرتے ہوئے امپائرز کو ابھرنے اور چمکنے دینے کا یہ صحیح وقت ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ انہیں بھی کرکٹ کے عظیم کھیل پر اپنی شناخت بنانے اور فخر کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے ایسے ہی مواقع ملیں گے، میں اس سیزن میں امپائرنگ کرتا رہوں گا جو میرا آخری سیزن ہوگا۔علیم ڈار کا کہنا تھا کہ میچ آفیشلز کی اگلی نسل کی رہنمائی اور معاونت کیلئے پرعزم ہوں اور میں اس عظیم شعبے میں کریئر بنانے والوں کی رہنمائی کیلئے ہمیشہ دستیاب رہوں گا۔
شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے علیم ڈار 2003ء کے ورلڈ کپ کو اپنے لیے ٹرننگ پوائنٹ کہتے ہیں۔ اس وقت ان کا شمار جونیئر امپائرز میں ہوتا تھا۔اس وقت کے امپائرز منیجر کرس کیلی تھے جنہوں نے پہلی بریفنگ میں کہا تھا کہ آپ لوگ سینئر اورجونیئر کے فرق سے بالاتر ہو کر اچھی امپائرنگ کریں کیونکہ اگلے رائونڈ میں وہی امپائرز جائیں گے جنہوں نے پہلے رائونڈ میں اچھی امپائرنگ کی ہوگی۔ ابتدائی رائونڈ میں انہیں روایتی حریفوں آسٹریلیا اورانگلینڈ کا میچ سپروائز کرنے کاموقع ملا جہاں اچھی امپائرنگ کے صلے میں انہیں سپرسکس کے کچھ میچز بھی دیے گئے۔ اس ورلڈ کپ میں ان سے ایک بھی غلط فیصلہ نہیں ہوا تھا۔بقول علیم ڈار 2003 ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل سے لے کر آج تک انہیں آئی سی سی کی مکمل سپورٹ حاصل رہی ۔
اپنے یادگار میچز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسے کئی میچز ہیں جو یادگار کا درجہ رکھتے ہیں جن میں ایشنر سیریز کے مقابلے قابل ذکرہیں جو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوہانسبرگ میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کا میچ یادگار ہے جس میں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے 434 کا ریکارڈ ہدف عبور کیا۔ برائن لارا کے چار سو رنز کا عالمی ریکارڈ میری موجودگی میں بنا اور جب مرلی دھرن نے میرے اینڈ سے بائولنگ کرتے ہوئے ٹیسٹ وکٹوں کاریکارڈ بنایا تو میں میدان کے وسط میں موجود تھا۔