سوء ادب
ہمارے پرندے طوطا طوطا پہلے سبز رنگ کا ہُوا کرتا تھا لیکن اب مختلف رنگوں میں دستیاب ہونے سے اِس کا دماغ ہی خراب ہو گیاہے اور اِس کی عادتیں بھی خراب ہو چکی ہیں۔ مثلا اگر اِس سے پوچھا جائے ،میاں مٹھو ، چُوری کھانی ہے ؟تو بیشک اِس کا پیٹ پہلے ہی ناکوں ناک بھر ا ہُوا ہو وہ ضرور کہے گا کہ ہاں کھانی ہے۔
احسان فراموش اور بے وفا قسم کے شخص کو طوطا چشم کہتے ہیں کیونکہ یہ آنکھیں پھیرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ یہ باتیں کرتا نہیں بات کو بار بار دُھراتا اور رٹتا ہے۔ اِسی لیے اسے رٹّو کہا جاتا ہے جبکہ رٹا لگانے والے طالب علموں نے بھی رٹا لگانا اسی سے سیکھا ہے۔
بعض لوگوں کی ناک طوطے جیسی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک فریب کاری ہے کیونکہ یہ مشابہت طوطے کی ناک سے نہیں بلکہ اُس کی چونچ سے ہوتی ہے کیونکہ طوطے کی ناک تو ویسے بھی ایک طرح سے ناموجود ہی ہوتی ہے۔
اِس کے علاوہ میاں مٹھو اور طوطیا من موہتیا کہہ کہہ کر بھی اِس کا دماغ مزید خراب کر دیا جاتا ہے۔ جو طوطے باتیں کرتے ہیں وہ باتیں کم کرتے ہیں اور گالیاں زیادہ بکتے ہیں۔ اِس لیے اسے باتیں کرنے کی ٹریننگ دینا سراسر گھاٹے کا سود ا ہے ۔ کر دار کے لحاظ سے بھی اِس کی صورتحال قابلِ رشک نہیں ہوتی مثلا ایک طوطے کے بارے میں بتایاجا تا ہے کہ وہ بدنامی کی حد تک عیاش طبع اور جنس زدہ واقع ہُوا تھا ،حتیٰ کہ کسی پرندے کی مادہ بھی اُس کی ہوس ناکیوں سے محفوظ نہیں تھی۔ ایک بار وہ گھر سے غائب ہو گیا اور کافی دیر تک واپس نہ آیا۔اُس کے گھر والے اُسے ڈھونڈنے نکلے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ایک جگہ نیم مردہ سا پڑا ہے اور ایک چیل اُ س کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ جب اُسے کہا گیا کہ یہاں کیا کر رہے ہو ،گھر چلوتو اشارے سے اُنہیں چپ کراتے ہوئے کہا ،’’شو ر نہ مچائو اور اِدھر اُدھر ہو جائو ،میں چیل پھنسا رہاہوں ‘‘۔
یہ جبلّی طور پر احسان فراموش ہوتا ہے حتیٰ کہ اپنے مالک سے بھی آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص ہوائی جہاز میں سفر کر رہا تھا جس نے ہاتھ پر اپنا طوطا بٹھا رکھا تھا، ایک خوبصورت ائیر ہوسٹس اُس کے پاس سے گزری تو اُس نے اپنا پر پھیلا کر اُسے بازو سے چُھوا،جس پر ائیر ہوسٹیس مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔ جب وہ واپس مڑی تو طوطے کے مالک نے بھی اُس کے بازو پر چھیڑا جس نے اپنے کپتان سے شکایت کردی کہ ایک مسافر اور اُس کا طوطا بہت بدتمیز ہیں اور دونوں نے مجھے چھیڑا ہے۔ اِس پر کپتان نے حکم دیا کہ دونوں کو جہاز سے باہر پھینک دیا جائے۔ جب سٹاف کے کچھ ارکان اُنہیں باہر پھینکنے کیلئے دروازہ کھولنے لگے تو طوطے نے اپنے مالک سے کہا ’’تمہیں اُڑنا آتا ہے ؟‘‘اُس کے جوا ب میں مالک نے کہا : ’’نہیں ‘‘۔جس پر طوطا بولا : ’’توپھر پنگا کیوں لیا تھا ؟‘‘
’’گلِ معانی ‘‘
یہ اکبر معصوم کے کُلیا ت ہیں جو ایک ایسا شاعر ہے۔ میں جسے نہ صرف دل و جان سے پسند کر تا ہوں بلکہ اِس پر رشک بھی کرتا ہوں کہ اِس نے سانگھڑ جیسی جگہ پر بیٹھ کر جدید اُردو غزل میں ایک ایسی دنیا آباد کر رکھی ہے جو بڑے بڑوں کے بس میں نہیں تھی۔ جدید غزل جو ایک پِٹی ہوئی صنفِ سخن ہے اور کوئی بھی دانش مند آدمی اِس میں ہاتھ ڈالنا پسند نہیں کرتا ،اکبر معصوم نے ایک طرح سے ایک نا ممکن کام ہی کو ممکن کر دکھایا ہے ۔
اِس کتاب کو دو اور تازہ کار شعراانعام ندیم اور کاشف حُسین غائر نے مرتب کیا ہے اور جسے رنگِ ادب پبلیکیشنز کراچی نے شائع کیا ہے۔ جس کا پسِ سرورق ممتازبھارتی شاعر اور نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی نے لکھا ہے۔ جن کے مطابق ’’اِس شاعری کے کینوس پر پھیلے ہوئے دُھندلے ر نگوں ،اظہار وبیان کی آہستہ روی اور سادگی سے پیدا ہونے والے مدھم راگوں سے مرتب ہونے والی کیفیت میں کشش بہت ہے۔متاثر کرنے اور پڑھنے والے کے احساسات پر چھا جانے کی طاقت بہت ہے۔ اسی لیے مجموعی طور پر وہ صرف ایک مانوس اور جانے پہچانے تجربوں سے بھری ہوئی دنیاہی کے شاعر نہیں ہیں۔وہ ہمیں ایک جہانِ نامعلوم کا راستہ بھی دکھاتے ہیں۔اِس مجموعے میں اُس کی تین کتابیں ’’اور کہاں تک جانا ہے‘‘، ’’بے ساختہ ‘‘اور پنجابی مجموعہ ’’نیندر پچھلے پہر دی‘‘ شامل ہیں۔دیباچے محمد سلیم الرحمن ،احمد جاوید اور عباس عالم نے لکھے ہیں۔ انتساب اکبر معصوم سے محبت کرنے والوں کے نام ہے۔گیٹ ا پ عمدہ،ضخامت 352صفحات اور قیمت 1500روپے ہے۔ اب آخر میں اس مجموعے کی پہلی کتاب ’’اور کہاں تک جانا ہے‘‘ میںسے نمونۂ کلام کے طور پر یہ اشعار !
کسی بلا میں گرفتارہونے والا ہے
یہ شہر بے در و دیوار ہونے والا ہے
جو دیکھنا ہے اسے دیکھ لے کہ یہ منظر
ذرا سی دیر میں ہموار ہونے والا ہے
جو بھولنا ہے اُسے بھول جا کہ کچھ پل میں
یہ کام اور بھی دُشوار ہونے والا ہے
بدل رہی ہے سفید و سیاہ کی تصویر
یہ کون خواب سے بیدار ہونے والا ہے
زبان کا معاملہ
ایک اہلِ زبان نستعلیق بزرگ ٹرین پر سفر کر رہے تھے کہ کھانے کے لیے کچھ خریدنے کی خاطر ایک سٹیشن پر وہ گاڑی سے اُترے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ ایک چھابڑی والا مالٹے لگائے بیٹھاہے۔ وہ اُس کے پاس گئے اور بولے : ’’کہو میاں ،‘‘ عدداًبیچتے ہو یا وزناً؟ چھابڑی والا بولا : ’’نہیں جی، میں تو صرف مالٹے بیچتاہوں ‘‘۔
اب آخر میں اکبر معصوم کی یہ غزل !
خود سے نکلوں بھی تو رستا نہیں آسان مرا
میری سوچیں ہیں گھنی خوف ہے انجان مرا
ہے کسی اور سمے پر گزرو اوقات مری
دن خسارہ ہے مجھے ،رات ہے نقصان مرا
میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے
میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے سنسان مرا
دن نکلتے ہی مرے خواب بکھر جاتے ہیں
روز گرتا ہے اسی فرش پہ گلدان مرا
مجھ کو جس نائو میں آنا تھا کہیں ڈوب گئی
خواب ہے ،نیند کے ساحل پہ پریشان مرا
ہے مری خانہ خرابی سے یہ رونق معصوم
اب جہاں شہر ہے ،ہوتا تھا بیابان مرا
آج کا مطلع
لفظ پتّوں کی طرح اُڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف