ایکنی گھبرانے کی ضرورت نہیں!

تحریر : ڈاکٹر آصف محمود جاہ


جاذب نظر اور حسین نظر آنا ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے۔ عنفوان شباب کے ساتھ ہی جسم پہ بعض ایسی تبدیلیاں ہوتی ہیں جس کا اثر پورے جسم پر ہوتا ہے۔ اس دوران کچھ غدودوں سے زیادہ رطوبت خارج ہونے لگتی ہے۔ جس سے چہرے پر کیل مہاسے ہونے لگتے ہیں جو کچھ عرصے کیلئے شکل کو بالکل بگاڑ دیتے ہیں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جوانی کا مزا لینے سے وقتی طور پر معذور کر دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں نوجوانی میں چہرے کو پرکشش بنانے والی نام نہاد کریمیں وغیرہ اس بیماری کو مزید بڑھانے اور پریشانی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔

علامات 

 ایکنی میں Sebaceous glands میں رطوبت کے زیادہ خارج ہونے کی وجہ سے چہرہ کیل مہاسوں سے بھر جاتا ہے۔ انہیں نوچنے یا دبانے سے سفید کیل باہر نکلتا ہے۔ دبانے یا نوچنے سے یہ مزید پھیلتے ہیں اور بعض دفعہ یہ بھدے مستقل نشان بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کیل مہاسوں میں ہلکی سی درد اور سوزش بھی محسوس ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر نوجوان پریشانی اور ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 

علاج اور بچائو 

ایکنی کی صورت میں پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ یہ بھی بالغ ہونے کے ساتھ جسم میں ہونے والی ایک نارمل تبدیلی سے پیدا شدہ صورت حال ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کر کے ایکنی سے ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ 

(1)سردیوں میں کچھ دیر دھوپ میں ضرور بیٹھنا چاہیے۔ اس سے جسم کو وٹامن ڈی ملتا ہے اور ایکنی کے کیل مہاسے بھی اس سے کم ہو جاتے ہیں۔ 

(2)زیادہ لمبے عرصے تک رہنے والی بیماری میں کچھ لوگ اینٹی بائیوٹک دوائوں کا استعمال کرتے ہیں مگر یہ ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورہ سے ہونا چاہیے۔ 

(3)ایکنی روکنے والی کریمیں اور لوشن اس کو کنٹرول کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتیں۔ ان کے استعمال سے مکمل پرہیز کریں۔ ان کے استعمال سے نہ صرف پیسہ ضائع ہوتا ہے بلکہ چہرے کے نقش و نگار بھی پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ 

(4 ) متوازن غذا استعمال کریں۔ مرغن غذائوں کا استعمال کم سے کم کریں۔ پھلوں، سبزیوں اور سلاد کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ وٹامن اے کی کمی کو دور کرنے کیلئے گاجریں، چقندر، سبزیاں، آڑو وغیرہ کا استعمال کریں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔