قیام الیل:صالحین کا شعار

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


قیام الیل (تہجد) سے مراد رات کے پچھلے حصے میں اٹھ کر اللہ کے حضور جھک کر نوافل ادا کرنا ہے۔ یہ وہ نفل ہیں جس کیلئے حکم خداواندی موجود ہے۔ اُمت مُسلمہ کو یہ حکم آقائے کائناتﷺ نے دیا ہے۔ آپﷺ نے صحابہ کرام ؓکو اس کی تلقین بھی کی اور ترغیب بھی دی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اس طرح سے حکم دیا ’’رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز پڑھا کرو، یہ خاص آپﷺ کیلئے ہے، عنقریب آپﷺ کا رب آپﷺ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا‘‘ (سورہ بنی اسرائیل،آیت 97 )۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے(اللہ) حضور سجدہ ریزی کیا کریں، اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس (اللہ)کی تسبیح کیا کریں‘‘ (سورۃ الدھر، 26)۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور رات کو بھی اس کی تسبیح کیجئے، اور ستاروں کے ڈوبتے وقت بھی‘‘(سورۃ الطور : 49)

 ان آیات مبارکہ کے مطابق سرکار دوعالمﷺ پر ایک زائد نماز تہجد بھی فرض تھی۔ جس کا مقصد آپﷺ کے درجات کو مزید بلند کرنا ہے۔ مقام محمود وہ درجہ یا مقام ہے جو قیامت کے روز سرکار دو عالمﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ اسی مقام سے آپﷺ پوری اُمت مسلمہ کی شفاعت اور بخشش فرمائیں گے۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تہجد نفل عبادت ہے جو نہ تو نبی پاکﷺ پر فرض تھی اور نہ ہی اُمت رسولﷺ پر۔ اُمت کیلئے اس کا درجہ نفل کا ہے۔ احادیث رسولﷺ میں اس کی بے حد فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نفل نمازوں میں یہ اللہ کی پسندیدہ ترین عبادت ہے۔ نماز تہجد کا اصل وقت رات کا آخری پہر ہے، اس میں کم سے کم 2 رکعت اور زیادہ سے زیادہ 12 رکعت ادا کی جاتی ہیں۔ اگر رات کو اُٹھ کر نماز پڑھنے کی ہمت نہ ہو تو عشاء کی نماز کے بعد بھی چند رکعت تہجد کی نیت سے ادا کی جا سکتی ہیں مگر اس سے ثواب میں کمی آ جاتی ہے۔ 

دیگر نفل نمازوں کی طرح تہجد کے نوافل بھی گھر میں پڑھنا افضل ہے اور یہ دو، دو رکعت کر کے ادا کئے جاتے ہیں۔ تہجد کی نماز سنت ہے اور یہ وہ نفل ہے جو تمام نفلی نمازوں پر بھاری ہیں۔ نبی کریمﷺ نے ہمیشہ ان کا اہتمام فرمایا اور اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی اس نماز کی تلقین فرمائی۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تہجد ضرور پڑھا کرو کیوں کہ وہ تم سے پہلے صالحین کا شعار رہا ہے۔ یہ تمہارے رب کا قرب حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے، یہ گناہوں کے برے اثرات کو مٹانے والی اور گناہوں کو روکنے والی ہے‘‘(جامع ترمذی:3549، مشکوٰۃ)۔

 اس بارے میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 113 تا115 میں فرمان الٰہی ہے کہ ’’سارے کے سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت حق پر رہنے والی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، اور سجدے بھی کرتے ہیں، یہ اللہ اور قیامت پر ایمان بھی رکھتے ہیں، بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں، اور برائیوں سے روکتے ہیں، بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں، یہ نیک بخت لوگ ہیں، یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہیں کی جائے گی، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے‘‘۔

سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل درمیانی رات کی نماز (تہجد) ہے‘‘ (مسلم، حاکم، ابن ماجہ، ترمزی)۔ ایک اور حدیث مبارک میں آیا کہ ’’اللہ رات کے آخری حصے میں بندے کے زیادہ قریب ہوتا ہے‘‘ (ترمذی شریف:3579)۔ پس اگر ہو سکے تو ان بندوں میں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رات کے آخری تہائی حصے میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ ’’کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اس کو بخش دوں‘‘ (صحیح بخاری: 5962)۔

نماز تہجد دراصل قبولیت دعا کا وقت ہے۔ اس وقت جو بھی مانگا جائے اللہ دنیا اور آخرت میں ضرور عطا فرمائے گا۔ آیات قرآنی اور احادیث رسولﷺ کی روشنی میں نماز تہجد نفلی عبادت ہے اور دیگرنفلی عبادت میں سب سے افضل ہے۔ اس کا درجہ فرض نماز کے بعد سب سے افضل ہے۔ اسلام میں کوئی بھی کام بے مقصد نہیں کیا جاتا۔ جس طرح دنیاوی کاموں کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اسی طرح نفل عبادات بھی کسی مقصد کیلئے کی جاتی ہیں۔ رات کو اٹھ کر تہجد کو قائم کرنے کی بہت سی برکات و فضیلتیں ہیں۔ اللہ ہمیں نوافل سے اپنا قرب عطافرمائے اور ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شمار کر لے، جن کی راہ مستقیم پرچلنے کا وہ اپنی لاریب کتاب میں ہمیں خود حکم فرماتا ہے۔ اللہ ہمیں اخلاص سے اپنی بارگاہ کے سجود قیام کی دولت عطا فرما دے اورہماری مشکلات کو اپنے حبیبﷺ کے طفیل آسان فرمائے، آمین۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔