دعوت دین کے تقاضے
ابن اسحاق کے مطابق حضرت سویدؓ بن صامت حج کے لیے یثرب سے مکہ آئے۔ ان کے حسب نسب، جسمانی قوت اور شعر وشاعری میں پختگی کے باعث ان کی قوم انہیں ’’الکامل‘‘ کہتی تھی۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو کہنے لگے: ’’غالباً آپؐ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی سے ملتا جلتا ہے جو میرے پاس ہے‘‘۔
آپﷺ نے پوچھا: ’’تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ سوید نے کہا: ’’حکمتِ لقمان‘‘۔ آپﷺنے فرمایا ’’سناؤ‘‘۔ سوید نے سنایا تو آپﷺ نے تعریف کی اور ساتھ فرمایا: ’’میرے پاس اس سے بھی زیادہ عمدہ کلام ہے جو اللہ نے مجھ پر نازل کیا ہے، وہ ہدایت ہے اور نور‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ نے قرآن کا کچھ حصہ تلاوت کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ یہ سن کر سوید بولے: ’’یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے‘‘ اور مسلمان ہو گئے۔ (ابن ہشام، ص: 372 تا 374)۔
بندگیِ رب کی دعوت: حضرت خبیب بن عبدالرحمٰنؓ کی روایت ہے کہ حضرت اسعدؓ بن زرارہ اور حضرت ذکوانؓ بن عبدقیس، سردارِ قریش عتبہ بن ربیعہ سے اپنا ایک فیصلہ کروانے کیلئے مدینہ سے مکہ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے نبی اکرمﷺ کے بارے میں کچھ سنا تو وہ دونوں حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ وہ دونوں مسلمان ہو گئے اور عتبہ بن ربیعہ کے پاس بھی نہیں گئے، واپس مدینے آ گئے۔ مدینہ میں یہ اوّلین مسلمان تھے۔ (طبقات ابن سعد، ج: 3، ص: 347)۔
ابن اسحاق کے مطابق قبیلہ اوس کے خاندان بنواشہل کے کچھ نوجوان انس بن رافع کی سربراہی میں مدینہ سے مکے پہنچے تا کہ قبیلہ خزرج کے مقابلے کے لیے قریش کے ساتھ معاہدہ کریں۔ اللہ کے رسولﷺ کو جب ان کی آمد کی خبر ہوئی تو آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: ’’تم جس کام کے لیے آئے ہو، میں تمہیں اس سے بھی بہتر بات نہ بتاؤں؟‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’وہ کون سی بات ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’مجھے اللہ نے بندوں کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں انہیں ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور یہ کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتاب نازل کی ہے‘‘۔ پھر آپﷺ نے اسلام کی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ حضرت ایاسؓ بن معاذ، جو کہ ابھی نوعمر لڑکے تھے، نے کہا: ’’اے میری قوم! اللہ کی قسم! تم جس کام کے لیے آئے ہو، واقعی یہ بات اس سے بہتر ہے‘‘۔ اگرچہ باقی لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا لیکن حضرت ایاسؓ نے خاموشی سے اسلام قبول کر لیا۔ (مسند احمد، طبرانی، کنز العمال، ج: 7، ص:11، سیرت ابن ہشام، ص: 374)۔
دلوں کا نرم پڑ جانا: طبرانی نے حضرت عروہؓ سے مرسل روایت بیان کی ہے کہ زمانۂ حج میں یثرب کے بنومازن کے حضرت معاذؓ بن عفرا اور حضرت اسعدؓ بن زرارہ، بنوزریق کے حضرت رافعؓ بن مالک اور حضرت ذکوانؓ بن عبدالقیس، بنو اشہل کے حضرت ابوالہیثمؓ بن تیہان اور بنو عمرو بن عوف کے حضرت عویم بن ساعدہؓ مکہ گئے۔ حضور اکرمﷺ نے انہیں قرآن سنایا۔ جب انہوں نے آپؐ کی بات سنی تو خاموش ہو گئے۔ جب ان کے دل آپؐ کی دعوت پر مطمئن ہو گئے تو انہوں نے آپؐ کی تصدیق کی اور اسلام قبول کیا۔ (حیاۃ الصحابہ، ج: 1، ص: 486)۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ قرآن سننے کا یہ اثر ہو اکہ سننے والے: 1- خاموش ہو گئے۔ 2-ان کے دل دعوت پر مطمئن ہو گئے اس لیے کہ دلوں کا اطمینان ذکر الٰہی میں ہے اور قرآن سب سے بڑا ذکر ہے۔ 3- نہ صرف تصدیق کی بلکہ آپﷺ کی رسالت پر ایمان لائے۔
حضرت اُمّ سعد بنت سعد ربیعؓ کی روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ یثرب کے کچھ لوگوں کے پاس پہنچے جو منیٰ میں عقبہ کی گھاٹی کے پاس بیٹھے ہوئے اپنے سر منڈوا رہے تھے۔ وہ سات‘ آٹھ افراد تھے جن میں 3 بنی نجار کے اور 3 اسعد بن زرارہ اور عفرا کے 2 بیٹے تھے۔ حضور اکرمﷺ نے انہیں اللہ کی دعوت دی۔ انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (ابونعیم، دلائل النبوہ، ص: 105)۔
حضرت عقیل بن ابی طالبؓ سے مروی ایک طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ منیٰ کے دنوں میں جمرہ عقبہ کے پاس رات کے وقت اوس وخزرج کے 6 آدمیوں کی حضور اکرمﷺ سے ملاقات ہوئی۔ آپﷺ نے انہیں اللہ کی عبادت اور دین اسلام کی نصرت کی دعوت دی۔ انہوں نے آپؐ سے وحی الٰہی سننے کی خواہش کی تو آپؐ نے سورہ ابراہیم کی آیت 35 تا 52 پڑھ کر انہیں سنائی۔ جب قرآن سنا تو ان کے دل نرم پڑ گئے اور اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے اور انہوں نے آپﷺ کی دعوت قبول کر لی۔ ان 18 آیات میں حضرت ابراہیمؑ کی بیت اللہ کیلئے امن، رزق اور اولاد کی توحید پرستی کی دعا مذکور ہے۔ مومنوں کو تسلی دی گئی کہ آج کے ظالم کل روز قیامت خوفزدہ ہوں گے۔ روزِ قیامت کی ہولناکی اور میدان حشر کی پریشانی کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ یہ سننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ: 1-سننے والوں کے دل نرم پڑگئے 2- اللہ کے حضور عاجزی کرنے لگے، 3- اسلام قبول کر لیا۔ (ایضاً، بحوالہ حیاۃ الصحابہ ؓ، ج:1 ، ص: 132)
دعوت دین کی اساس:حضور اکرمﷺ جب مدینہ تشریف لے آئے تو وہاں بھی تلاوت قرآن آپﷺ کی دعوت گفتگو کا اہم حصہ تھی۔ صحیح بخاری اور سیرۃ ابن ہشام میں حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرمﷺ بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کیلئے چلے اور مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ راستے میں عبداللہ بن ابی کے مکان کے سائے میں اس کی مجلس میں کچھ مسلمان، کچھ یہودی اور بت پرست ملے جلے بیٹھے تھے۔ آپؐ سواری سے اُترے، اہلِ مجلس کو سلام کیا اور کچھ دیر کیلئے بیٹھ گئے۔ مجلس میں قرآن پڑھ کر سنایا اور لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔ اللہ کی رحمت کی خوش خبری اور عذاب الٰہی کی وعید سنائی۔ عبداللہ بن ابی نے اگرچہ آپﷺ کی دعوت پر ناگواری کا اظہار کیا لیکن مجلس میں بیٹھے دیگر افرادنے آپؐ کی گفتگو پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں آپﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کیلئے ان کے گھر چلے گئے۔ (سیرۃ ابن ہشام، ص: 527)
سیرتِ نبویؐ کے ان واقعات وحقائق کے پیش نظر آج کے مبلّغین اور داعیانِ اسلام کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں قرآن کی پُرتاثیر آیات اور ٹھوس تعلیمات کو اپنی دعوت کا محور ومرکز بنائیں۔ کیونکہ: ترجمہ ’’قرآن وہ راہِ ہدایت دکھاتا ہے جو سیدھی اور واضح ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 9) جس شخص میں تھوڑا سا بھی خوفِ خدا ہے، اس کی نصیحت کے لیے قرآن سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں۔ اسی لیے اللہ نے اپنے محبوب نبیﷺ کو حکم دیا: ’’بس تم اس قرآن کے ذریعے ہراس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے‘‘۔(ق50:45)
لہٰذا قرآن کے ابلاغ کا حق ادا کیے بغیر غلبۂ اسلام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔