پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست
پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔
قومی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ کا بدترین ریکارڈ اپنے نام کرتے ہوئے پہلی اننگز میں500 سے زائد رنز بنا نے کے بعد اننگز کی شکست سے دوچار ہونے والی دنیا کی پہلی ٹیم بن گئی ہے۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ٹیسٹ 15 اکتوبر سے ملتان میں ہی شروع ہو گا جبکہ سیریز کا تیسرا اور آخری میچ 24 اکتوبر کو پنڈی کرکٹ سٹیڈیم راولپنڈی میں شیڈول ہے۔
سیریز پر بات کرنے سے پہلے قومی ٹیم کی عبرتناک شکست کاجائزہ لینا ضروری ہے، قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پاکستانی ٹیم پہلے کرکٹ ٹیسٹ میں اپنی دوسری اننگز مکمل کرنے کیلئے جمعہ کو میدان میں اتری تو ایک ہی خدشہ تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا ایک اور برا ریکارڈ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حصے میں آنے والا ہے۔ یہ ریکارڈ ٹیسٹ کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں کسی ٹیسٹ میچ میں 500 رنز کا مجموعہ بنانے کے بعد بھی اننگز کی شکست کی ہزیمت سے دوچار ہونے کا تھا اور میچ کے آخری دن کھانے کے وقفے سے قبل ہی یہ پاکستان کے نام ہو گیا۔ ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کو پہلی اننگز میں 556 رنز بنانے کے باوجود ایک اننگز اور47 رنز سے شکست ہوئی ہے کیونکہ وہ انگلینڈ کی جانب سے پہلی اننگز میں 823 رنز بنانے اور میزبان ٹیم پر 267 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد دوسری اننگز میں صرف 220 رنز ہی بنا پائی۔
یہ 1976 ء کے بعد دوسرا موقع ہے جب انگلینڈ نے ایشیاء میں کوئی میچ اننگز کے فرق سے جیتا ہے جبکہ پاکستان کا اپنے ہوم گرائونڈز پر ٹیسٹ میچ نہ جیت پانے کا سلسلہ 11 میچوں تک دراز ہو گیا ہے۔ ایک ایسی پچ پر جہاں انگلینڈ کے بلے باز چند ہی گھنٹوں پہلے تک جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے اور پاکستانی بائولرز کو ملتان کی دھوپ میں 150 اوورز تک بائولنگ کروانے پر مجبور کرنے کے بعد تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف آٹھ سو رنز بنا چکے تھے، وہاں پاکستانی بلے بازوں کی لائن لگ گئی۔
چوتھے روز جو روٹ اور ہیری بروک نے انگلینڈ کی تاریخ کی سب سے بڑی 412 رنز کی شراکت بنائی اور پاکستان کیلئے تیسری اننگز کو چوتھی اننگز میں تبدیل کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اب سارا دبائو پاکستان پر ہو گا۔ پاکستان نے جب اپنی اننگز کا آغاز کیا تو یہ دبائو عیاں تھا اور پہلی گیند پر عبداللہ شفیق کو ووکس نے بولڈ کیا اور پھر کپتان شان مسعود، بابر اعظم، صائم ایوب، محمد رضوان اور سعود شکیل بھی سکور میں زیادہ اضافہ کیے بغیر پویلین لوٹ گئے۔ یوں یہ اس سال چوتھا ٹیسٹ ہے جس میں پاکستان کو دوسری اننگز میں بیٹنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ اسی روز اسی پچ پر انگلینڈ کے بلے بازوں نے 49 اوورز میں 331 رنز بنائے جس میں ہیری بروک کے 317 اور جو روٹ کے 262 رنز کی شاندار اننگز شامل تھیں۔
میچ کے آغاز میں پچ پر کچھ گھاس چھوڑی گئی تھی جس کے بعد یہ اُمید کی جا رہی تھی کہ شاید پہلے روز پچ فاسٹ بائولرز کیلئے سازگار ثابت ہو گی۔ تاہم یہ ملتان میں ماضی کی پچز کی طرح انتہائی فلیٹ پچ ثابت ہوئی۔ جہاں پاکستان کی جانب سے تین بیٹرز نے سنچریاں سکور کیں، وہیں انگلینڈ کی جانب سے جوروٹ اور ہیری بروک کی جارحانہ سنچریوں اور بین ڈکٹ اور زیک کرالی نے نصف سنچریاں بنائیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو 11 ٹیسٹ میچوں میں سے وہ کسی ایک میں بھی ہوم گرائونڈ پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، ان11 ٹیسٹ میچوں میں سے 7 میں شکست ہوئی اور4 ڈرا ہوئے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک پاکستانی ٹیم کا ہوم گرائونڈز پر ایسی پچز نہ بنا پانا ہے جو قومی ٹیم کے پاس موجود فاسٹ بائولرز کیلئے سازگار ثابت ہوں۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کی ٹیسٹ سیریز سے پہلے گرین پچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ الٹا ان کے بلے بازوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا تھا جبکہ اس کے فاسٹ بائولرز اس پچ سے وہ مدد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے جو بنگلہ دیشی بلے بازوں کو ملی تھی۔ یوں پاکستان کو بنگلہ دیش نے ہوم گرائونڈ پر آ کر وائٹ واش کر دیا تھا جو ٹیم کے فاسٹ بائولرز کی انجریز، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ پر زیادہ توجہ، ایک اچھے سپنر کی کمی اور کمزور ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچے سمیت کئی کمزوریوں کو عیاں کر گئی۔ پاکستان آخری بار فروری 2021 ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم ٹیسٹ جیتا تھا، تب سے پاکستان انگلینڈ، آسٹریلیا اور حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے خلاف سیریز ہارا ہے جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز ڈرا ہوئی تھی۔
پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست پر قومی ٹیم کے سابق کوچ مکی آرتھر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ٹیم کے کھلاڑی باصلاحیت اور اہل ہیں، انہیں مستقل مزاجی، مناسب ماحول اور بہتر انتظامی ڈھانچہ دیا جائے۔ کھلاڑیوں کو اچھا ماحول ملے گا تو وہ بہترین کارکردگی دکھائیں گے۔ انہوں نے نہ صرف کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کی تعریف کی بلکہ ٹیم کے مورال اور کارکردگی پر منفی اثرات ڈالنے والے عوامل کا بھی ذکر کیا۔
پرسوں منگل سے دوسرا ٹیسٹ میچ شروع ہو گا جس میں تین سے چار تبدیلیاں متوقع ہیں، گرین شرٹس کو فتح کے ٹریک پر واپس آنے کیلئے سب سے پہلے تو متحد ہوکر جامع حکمت عملی بنانا ہو گی اور پھر اپنے طے شدہ پلان پر عمل کرنا ہو گا ورنہ پاکستان کرکٹ کا حال بھی قومی کھیل ہاکی جیسا ہوتا ہوا نظر آ رہاہے۔ ٹیم انتظامیہ کو سب سے پہلے کھلاڑیوں کے اختلافات ختم کرانے اور نظم وضبط قائم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے، جو کھلاڑی ڈسپلن یا ٹیم کی فتح کو ترجیح نہیں دیتے، ان کیخلاف زبانی بیانات سے آگے چلتے ہوئے حقیقی سرجری سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔