اہل تقویٰ پر انعامات ربانی کی بارش
اسلام میں تقویٰ کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات مبارکہ متقین کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہیں۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور زاد راہ (یعنی راستے کا خرچ) لے لیا کرو یقیناً سب سے بہتر رخت سفر تقویٰ ہے اور اے اہل عقل! مجھ سے ڈرتے رہو‘‘(البقرہ:197)، پھر ارشاد ہوا کہ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے‘‘ــ (الحجرات: 13)۔
شریعت اسلامیہ میں تقویٰ سے مراد نفس کی گناہ سے حفاظت ہے اس کے حاصل کرنے کیلئے ممنوعات شرعیہ کو چھوڑنا ضروری ہے اور اس کی تکمیل کیلئے بعض اوقات احتیاطاً بعض مباحات کو بھی ترک کرنا لازم ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ اچھائی، نیکی کرتے اور برائی بدی سے بچتے ہیں ان کی عبادت میں بھی لذت و سرور کے عناصر جنم لیتے ہیں۔ ان کے دل میں اللہ و رسول پاکﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بر خلاف جو شخص ثواب کا کام تو بجا لاتا ہے لیکن گناہ سے بچنے کی سعی نہیں کرتا اس کا دل رفتہ رفتہ اللہ کی عبادت سے بیزار ہو جاتا ہے اور اس کا ذہن شیطانی افکار و خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ایسا شخص کبھی نیکی پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا کیونکہ استقامت کیلئے اوّلین شرط گناہوں سے خود کو روکنا ہے۔
دل کی درستگی یا خرابی ہی انسان کے اعمال کی جہت متعین کرتی ہے، اس نظریے پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ پس بے شک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا بھی یہی مفہوم ہے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست رہا تو سارا بدن درست رہے گا اور وہ بگڑ گیا تو سارا بدن راہ راست سے منحرف ہو جائے گا، سن لو!وہ آدمی کا دل ہے‘‘۔ اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنے سے دل کے نور میں زیادتی ہوتی ہے اور نیک اعمال کرنے کا جذبہ بتدریج پروان چڑھتا ہے۔ دل کا نور اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جو صرف اہل تقویٰ ہی کو عطا کی جاتی ہے۔
تقویٰ اختیار کرنے کے بہت سے ثمرات ہیں۔ آج کل معاشی تنگی ایک عظیم مسئلہ ہے۔ رزق میں فراخی اور کشادگی انسان کی بیشتر پریشانیوں کو ختم کر دیتی ہے۔ تقویٰ اختیار کرنے سے رزق میں بہتات ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا تو اللہ اس کیلئے (مشکلات سے) خلاصی کی صورت پیدا فرما دے گا، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو ‘‘(سورۃ الطلاق :3)
اہل تقویٰ کو دُعا کی قبولیت کی نعمت سے بھی بہرہ مند کیا جاتا ہے۔ اللہ کی ذات پر ان کا یقین کامل اور توکل بھرپور ہوتا ہے جو ان کے تقویٰ کی تابندگی کو اپنے تابش نور سے مزید فروزاں کر دیتا ہے۔اہل تقویٰ کا امتیاز ہے کہ دنیا میں بھی اللہ ان پر اپنے انعامات کی بارش کرتا ہے اور آخرت میں بھی ان کیلئے خیر ہی خیر ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ’’اور متقین کیلئے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے کیا تم جانتے نہیں‘‘ (یوسف:109)۔
دین اسلام سے وابستگی اور راہ تقویٰ کو اختیار کرنے کی جزا میں متقین کو انسانی معاشرے میں نیک نامی و ذکر خیر کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ لوگ ان کا ادب کرتے ہیں اور مخلوق ان کی تکریم کو اپنا سرمایہ افتخار تصور کرتی ہے۔ اس کے برعکس گناہ گاروں کو دینی اعتبار سے کوئی وقعت حاصل نہیں ہوتی ان کے گناہوں کے سبب دلوں سے ان کی محبت و الفت سلب کرلی جاتی ہے۔
اہل تقویٰ کے امور معاملات کی تکمیل میں اللہ آسانی فرماتا ہے اور ان کی مشکلات دور کر دیتا ہے۔ ارشاد ہے کہ ’’جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے کام میں سہولت پیدا کر دے گا‘‘ (سورۃ الطلاق:4)۔
انسان خطا کا پتلا ہے جس سے ہر لمحہ گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں، اللہ نے انسان کو اس کی استطاعت سے زیادہ عبادت کا پابند نہیں کیا چنانچہ فرمایا کہ ’’پس جہاں تک ہو سکے اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘ (التغابن: 16)۔
اگرچہ اہل تقویٰ حتیٰ المقدور گناہوں سے بچنے کی سعی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بعض اوقات ان سے بھی کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں بھی اللہ ان کے حال پر خاص فضل فرماتا ہے اور اپنی رحمت سے ان کے گناہوں کو ڈھانپ دیتا ہے۔ ارشادفرمایا کہ ’’اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس سے اس کے گناہ دور کر دے گا اور اسے اجر عظیم سے نوازے گا‘‘ (الطلاق :17)۔
انسان کو گناہوں پر ابھارنے اور اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرنے میں اس کے افکار و خیالات کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اہل تقویٰ گناہ کے ابتدائی محرک یعنی شیطانی وساوس کے پیدا ہونے پر ہی چونک جاتے ہیں اور اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ایمان کی سلامتی اور تقویٰ کی حفاظت کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔
اہل تقویٰ کو اللہ کی دوستی کا شرف بھی حاصل ہے۔ فرمایا کہ ’’اللہ پرہیز گاروں کا دوست ہے‘‘ (الجاثیہ: 19) اور پھر اہل تقویٰ کو اللہ اپنی محبت سے نوازتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ’’ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے اور تقویٰ کی روش اختیار کرے تو اللہ بھی تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (آل عمران: 76)۔ یہی وجہ ہے کہ دل کی نرمی اور مخلوق خدا کی غم گساری اہل تقویٰ کا خاصہ ہے۔
اللہ ہمیں اہل تقویٰ بنا دے اور اپنے محبوب کی پیاری امت کو عمل اور اخلاص کی توفیق و دولت عطا فرمائے اور سب مشکلات عطا فرمائے۔ آمین