توہم پرستی:اسلامی تعلیمات کے منافی
’’بدشگونی کوئی چیز نہیں اور بہترین چیز نیک فال ہے‘‘:(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’چھوت چھات (بیماری کا ایک دوسرے سے لگنے کا وہم) اور اُلو (کو منحوس سمجھنا) اور صفر (کے مہینہ کو منحوس سمجھنا) کوئی چیز نہیں‘‘۔ ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ان اونٹوں کو کیا ہوتا ہے جو ریگستان میں رہتے ہیں کہ اچانک ان میں خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے تو دوسرے اونٹوں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے اونٹ (جس کی وجہ سے باقی اونٹوں میں خارش لگی) کو کس سے خارش لگی (یعنی جس طرح پہلے اونٹ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے خارش لگی اسی طرح دوسروں کو بھی حکم الٰہی ہی سے خارش لگی)‘‘ (رواہ البخاری)۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بڑے واضح انداز میں توہم پرستی اور چھوت چھات کی نفی فرمائی۔
آج کل مسلمانوں میں بھی اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے توہم پرستی بہت زیادہ ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے۔ بعض لوگوں نے صفر کے مہینہ کا نام تیرہ تیزی رکھ دیا۔ بعض مقامات میں اس مہینہ کی تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر تقسیم کیے جاتے ہیں اور عام طور پر اس مہینہ کے آخری بدھ کو متبرک سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلامی شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں۔ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ صفر کا معنی ہے خالی ہونا۔ صفر کے مہینے میں چونکہ جنگ کی ممانعت تھی جس کی وجہ سے اہل عرب یا تو گھروں میں بیٹھے رہتے یا سامان تجارت کی خریداری کیلئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے۔ جن کی وجہ سے گھر خالی ہو جاتے۔ لہٰذا اس ماہ کا نام صفر پڑ گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ صفر کا معنی ہے زرد ہونا۔ چونکہ اس ماہ میں خزاں کا موسم آگیا اور پتے زرد ہو گئے لہٰذا اس ماہ کا نام صفر ہو گیا۔
صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا یا اس میں مختلف باتوں کا وہم کرنا آج کے معاشرہ کی خصوصیت نہیں بلکہ قبل ازسلام اہل عرب کے تصورات بھی اس ماہ میں اس طرح کے تھے، اہل عرب صفر کے مہینہ میں کاروبار نہیں کرتے تھے کہ اس سے خسارہ ہوتا تھا۔ اسی طرح شوال کے مہینہ میں شادی کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے حالانکہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میرا نکاح شوال ہی کے مہینہ میں ہوا تھا۔ اہل عرب میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے توہمات عام تھے۔ بدھ کے دن کو منحوس سمجھتے اور یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کسی کے گھر پر اُلو بیٹھ جائے تو وہ گھر اجاڑ ہو جاتا ہے۔ حضرت عکرمہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک چڑیا اڑتی ہوئی چہچہاتی ہوئی سامنے سے گزری تو ایک شخص نے کہا ’’خیرخیر‘‘، حصرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا چڑیوں کا بولنا نہ بھلائی کی علامت ہے اور نہ مصیبت کی، یہ صرف وہم ہے‘‘۔
ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے توہمات عام ہیں۔ مثلاً کالی بلی سامنے سے گزر جائے تو راستہ بدل لینا چاہیے ورنہ اسی راستے پر چلنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ چھری گرے تو لڑائی ہو جاتی ہے۔ کوا بولے تو مہمان آجاتا ہے۔ آنکھ پھڑکے تو برُی خبر ملتی ہے۔ ہتھیلی میں کھجلی ہو تو دولت آتی ہے۔ جوتی پر جوتی چڑھ جائے تو سفر پیش آتا ہے اور اسی قسم کی بہت سی نیک اور بدشگونیاں دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں۔ ان تمام باتوں سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا،حدیث مبارکہ ہے: ’’بدشگونی کوئی چیز نہیں اور بہترین چیز نیک فال ہے‘‘، لوگوں نے عرض کیا فال کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ وہ اچھا کلمہ جو تم میں سے کوئی کسی سے سنے‘‘ (بخاری)۔
توہمات کے ضمن میں ایک وہم کی صورت چھوت چھات کا نظریہ بھی ہے، یعنی ایک دوسرے سے بیماری لگنے کا وہم، اسے عربی میں عَدْویٰ کہتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کے سامنے ’’لَاعَدْویٰ‘‘ ارشاد فرما کر چھوت چھات کی نفی فرمائی (یعنی ایک دوسرے سے بیماری لگنے کا وہم کوئی حقیقت نہیں رکھتا) تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے تندرست اونٹ ریگستانوں میں چل رہے ہوتے ہیں کہ ایک خارش زدہ اونٹ آکر باقی اونٹوں کو بھی خارش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری ایک دوسرے سے لگتی ہے) رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ’’پہلے اونٹ کو کس سے خارش لگی‘‘۔
اس ارشاد نبویﷺسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے بیماری لگنے کی کوئی حقیقت نہیں۔ صحیح بخاری ہی کی روایت میں ہے: ’’لایوردن الممرض علی المصح‘‘ یعنی ’’بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ اتارا جائے‘‘ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے بخاری شریف میں ارشاد نبویؐ منقول ہے: ترجمہ: ’’جذام میں مبتلا شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے ڈر کر بھاگتے ہو۔‘‘ لیکن ایک رُخ یہ بھی ہے کہ حضرت جابر ؓسے ابن ماجہ میں روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے ایک جذام میں مبتلا شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ہمراہ پیالے میں (کھانے کیلئے) شریک کر لیا۔ اور فرمایا تو کھا، اللہ پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے‘‘۔
دونوں طرح کی روایات سامنے آنے کے بعد شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں ’’چھوت کی کوئی حقیقت نہیں‘‘کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ طبیعت و خلقت کے لحاظ سے کوئی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ دراصل اللہ کے حکم اور منشا سے ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس لے جانے سے منع فرمایا اور جذامی سے دور رہنے کو فرمایا۔ پھر شیخ عبدالحقؒ ’’جذامی سے دور بھاگو‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جذامی کے جسم سے ایک خاص قسم کی بدبودار گیس نکلتی ہے جو جذامی کے پاس زیادہ نشست و برخاست کرنے والے اور ایک ساتھ کھانے اور سونے والے پر اثر اندا ز ہوتی ہے۔یہ بات ’’چھوت‘‘ نہیں بلکہ فن طب کا ایک اصول اور ضابطہ ہے اور اطباء کا تجربہ ہے لہٰذا اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ہر ایماندار مسلمان سمجھتا ہے کہ ہر کام صرف اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور کوئی چیز بغیر خدا کے حکم سے نہ نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ محض وہم کی بنا پر یہ سمجھنا کہ ایک دوسرے سے بیماری لگ جاتی ہے یا لگ گئی ہے اور ایسے خیالات رکھنا جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں یہ چھوت اور توہم پرستی ہے البتہ طبی تحقیق و تجربہ سے جو امور ثابت ہو جائیں ان کو ذہن میں رکھنا اور ان اصولوں پر عمل کرنا چھوت چھات، یا توہم پرستی نہیں۔ اس کے باوجود ہر مسلمان کو یہ پختہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ حقیقت میں نہ جراثیم بیمار کرتے ہیں اور نہ دواء شفاء دیتی ہے بلکہ بیماری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اگرچہ جراثیم واسطہ بن جاتے ہیں اور شفاء بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتے ہیں اگرچہ دواء ذریعہ شفاء بن جاتی ہے۔