’’والی بال‘‘ کا پہلا نام ’’منٹونیٹ ‘‘

تحریر : نوید گل خان


والی بال کاکھیل 124سال پرانا ہے، 1954ء سے پاکستان میں والی بال کے کھیل کے آغاز سے ہی اس کی مقبولیت بڑھنے لگی تھی اور مقامی سطح پر بہترین کھلاڑی ابھر کرسامنے آئے۔ والی بال کے کھیل کا ابتدائی نام ‘‘منٹو نیٹ‘‘تھا اوریہ کھیل 1895ء میں امریکا کے سپرنگ فیلڈ کالج کے فزیکل ایجوکیشن ٹیچرولیم جارج مورگن نے ایجاد کیا تھا۔

 پہلا میچ 7 جولائی 1896ء میں سپرنگ فیلڈ کالج امریکا میں دو درختوں کے درمیان نیٹ لگا کر کھیلا گیا۔ چند سالوں کے بعد ایک میچ کے دوران کھیل کے موجد ولیم جی مورگن نے کھیل کے مبصرین کو کہتے سنا کہ کھلاڑی نیٹ کے اوپر سے ایک دوسرے کے پیچھے اور سامنے پھینکنے کیلئے (والی انگ، Volleying)کر رہے ہیں، یہ لفظ انہیں بے حد پسند آیا اور انہوں نے منٹونیٹ کھیل کا نام تبدیل کرکے والی بال رکھ دیا۔

والی بال کا کورٹ 30فٹ چوڑا اور60فٹ لمبا ہوتا ہے، نیٹ کی اونچائی 7.11 فٹ اور چوڑائی ایک میٹر ہوتی ہے۔ دونوں ٹیموں میں چھ چھ کھلاڑی ہوتے ہیں ،جن میں سے ایک کھلاڑی مختلف وردی پہن کر کھیلتا ہے جسے بوسٹر کہتے ہیں۔ یہ کھیل ایک ریفری اور چا رلائن مین کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ سب سے پہلے 21 پوائنٹس سکور کرنے والی ٹیم جیت جاتی ہے۔

والی بال کے موجد ولیم جارج مورگن 1892ء میں امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر سپرنگ فیلڈ کی پرائیویٹ یونیورسٹی سپرنگ فیلڈ کالج میں زیرتعلیم تھے، جب ان کی ملاقات 1891ء میں باسکٹ بال کا کھیل ایجاد کرنیوالے جیمز نیسمتھ کے ساتھی ہوئی اوران سے متاثر ہوکر ہی ایک نئے کھیل کی ایجاد کا ارادہ کیا اور جلد ہی اس پر عمل بھی کیا۔جس کے باعث 1895ء میں والی بال کی کہانی کا آغازہوا،اس کھیل میں استعمال ہونے والی ایک نئی خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی گیند، جو ہلکی اور چھوٹی تھی1900ء میں متعارف کرائی گئی۔ 

کھیل کے موجد ولیم جار ج مورگن 23 جنوری  1870ء کو لاک پورٹ نیویارک میں پیدا ہوئے تھے اوران کا انتقال اپنے آبائی شہر میں ہی 27دسمبر 1942ء کو 72سال کی عمر میں ہوا تھا۔’’فیڈریشن انٹرنیشنل دی والی بال‘‘ کے قیام سے قبل والی بال انٹرنیشنل امیچور ہینڈ بال فیڈریشن کا ممبرتھاتاہم 20اپریل 1947ء کو ’’فیڈریشن انٹرنیشنل دی والی بال‘‘ (FIVB)کا قیام عمل میں آیااور14ممالک بیلجیئم ، برازیل، چیکوسلواکیہ، مصر، فرانس، ہالینڈ، ہنگری، اٹلی، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، یوراگوئے، امریکہ اور یوگوسلاویہ کے نمائندوں نے پیرس میں فرانس کے پال لیباؤڈ کوایسوسی ایشن کاقائد منتخب کیا۔پال لیباؤڈ نے 1984ء تک صدر کے عہدے پر فرائض نبھائے اور اس دوران مردوں کی پہلی والی بال عالمی چیمپئن شپ 1949ء میں پراگ اور خواتین کی پہلی والی بال عالمی چیمپئن شپ 1952 میں ماسکو میں ہوئی۔ 1964ء میں والی بال کا کھیل اولمپکس کا حصہ بن گیا جبکہ 1965ء سے ورلڈکپ ٹرافی کے مقابلوں کا آغا زہوا۔

کھیل کی ترقی کیلئے 1990میں شروع ہونیوالے ورلڈ لیگ نے اہم رول اداکیااور 1993ء میں خواتین کے گرینڈ پرکس ایونٹ سے یہ کھیل عروج پرپہنچ گیا۔دونوں ایونٹس کا 2017ء میں مصروف کیلنڈر کے باعث خاتمہ کردیا گیا تاہم ورلڈ لیول پر خواتین ومرد والی بال مقابلوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جس میں ایج گروپس کے مقابلے بھی شامل ہیں۔

والی بال کے میگا ایونٹس کی بات کریں تو ورلڈچیمپئن شپ سب سے بڑا ایونٹ قرار دیا جاتا ہے اور2022ء میں ہونیوالے آخری ایونٹ میں یہ ٹائٹل اٹلی کے نام رہا جبکہ ویمنز ایونٹ میں سربیا نے کامیابی حاصل کی۔اولمپکس ایونٹ دوسرابڑا مقابلہ تصور کیاجاتا ہے اور رواں سال فرانس نے مردوں اور اٹلی نے خواتین ٹائٹل اپنے نام کئے۔آخری والی بال ورلڈکپ 2023ء میں ہوا جس میں مینز ٹائٹل پر امریکا نے قبضہ کرلیاجبکہ ویمنز ٹائٹل پر ترکی کا غلبہ رہا۔انڈر23میں آخری مینز ٹائٹل ارجنٹائن اور ویمنز ٹائٹل ترکی نے جیتا،انڈر21مینز پر ایران اورویمنز پر چین ،انڈر19مینز پر فرانس اورویمنز پرامریکا جبکہ انڈر 17مینز پر اٹلی اور ویمنز پر چین کی حکمرانی چل رہی ہے۔ 

30اگست 2024کو جاری ہونیوالی ورلڈ رینکنگ میں پولینڈ سرفہرست ہیں جبکہ فرانس، امریکا،سلووینیااور اٹلی بالترتیب دوسرے سے پانچویں نمبر پر موجود ہیں جبکہ ویمنز ٹاپ فائیو ٹیموں میں بالترتیب اٹلی، برازیل، امریکا، ترکی اور چین شامل ہیں۔اس وقت دنیا بھر سے 222 ٹیمیں فیڈریشن انٹرنیشنل دی والی بال کی رکن ہیں اوربرازیل کے سابق والی بال پلیئر آری دا سلوا گراکا فلہو صدرکی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

پاکستان والی بال فیڈریشن کا قیام 31جنوری 1955ء کو عمل میں آیا اور اس کا پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور انٹرنیشنل والی بال فیڈریشن سے الحاق ہے۔پاکستان میں والی بال کا کھیل بے حد مقبول ہے اور دیہات میں کھیلے جانے والا مقبول ترین کھیل ہے جس میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر افراد بھی انجوائے کرتے نظر آتے ہیں۔مقامی سطح پر ٹورنامنٹس کے انعقاد کا رواج بھی عام ہے تاہم حکومتی سطح پر اس کھیل کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو قابل ذکر ہو۔والی بال کے ٹیلنٹ کے حوالے سے پاکستان میں کوئی کمی نہیں تاہم مقامی سطح پر اپنی مقبولیت کے باوجود جدید سہولیات کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ دیہات میں کھلے میدانوں اورڈیروں میں نیٹ لگا کر کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے تو دیکھے جاسکتے ہیں تاہم کسی بھی جگہ والی بال کورٹ اور دیگر سہولیات کی موجودگی ایک خواب ہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس کھیل کیلئے فنڈز کی فراہمی سمیت ایسوسی ایشن میں پروفیشنل لوگوں کی موجودگی کو یقینی بنائے جو ملک بھر میں موجود ٹیلنٹ کو ایک جگہ یکجا کرکے عالمی مقابلوں میں دھاک بٹھا سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔