الیکٹورل کالج۔۔۔
جب 1787ء میں امریکی آئین تیار کیا جا رہا تھا تو صدر کا ایک قومی سطح پر مقبول ووٹ سے انتخاب ناممکن ہی تھا۔ وجہ ملک کا بڑا رقبہ اور مواصلات میں مشکلات تھیں۔
اسی دور میں اس بارے میں بھی زیادہ موافق رائے نہیں تھی کہ واشنگٹن ڈی سی میں قانون سازی کرنے والوں کو صدر کے انتخاب کا حق دے دیا جائے۔اس صورتحال میں آئین بنانے والوں نے الیکٹورل کالج تشکیل دیا جس میں ہر ریاست الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہے۔چھوٹی ریاستوں کو یہ نظام پسند آیا کیونکہ اس سے صدر کے انتخاب میں ان کا کردار عام ووٹنگ کے مقابلے میں زیادہ مؤثر تھا۔الیکٹورل کالج کا خیال ملک کی جنوبی ریاستوں میں بھی پسند کیا گیا جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اس وقت غلاموں پر مشتمل تھا۔ (اگرچہ غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا لیکن اس وقت مردم شماری میں انہیں شمار ضرور کیا جاتا تھا اور ایک آزاد فرد کے مقابلے میں غلام کو 3/5 گنا جاتا تھا)۔
الیکٹورل اور پاپو لرووٹ میں فرق
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی صدارتی امیدوار قومی سطح پر ووٹرز میں سب سے زیادہ مقبول رہا ہو لیکن وہ صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ امریکہ میں گزشتہ پانچ میں سے دو صدارتی انتخاب ایسے امیدواروں نے جیتے تھے جنہیں ملنے والے عوامی ووٹوں کی تعداد ہارنے والے امیدوار سے کم تھی۔2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم لیے تھے لیکن وہ صدر بن گئے کیونکہ انہوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔2000ء میں ایل گور کو جارج بش سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدِمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو اُن سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔اس کے علاوہ صرف تین امریکی صدور ایسے ہیں جو پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے اور یہ سب 19ویں صدی میں ہوا جب جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجمن ہیریسن صدر بنے۔