سوئنگ ریاستیں
گوکہ ہر بڑی امریکی سیاسی جماعت نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے بہت سی ریاستوں پر بھروسا کرتی ہے تاہم چند ریاستیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہاں کامیابی کس کا مقدر بنے گی۔
انہیں ’’سوئنگ سٹیٹس‘‘ یعنی بازی پلٹ دینے والی ریاستیں کہا جاتا ہے جہاں کی آبادیاں سیاسی وفاداریوں کے لحاظ سے تقریباً یکساں طور پر منقسم ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان ریاستوں میں کبھی ڈیموکریٹک پارٹی اور کبھی ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ چونکہ انہی ریاستوں میں انتخابی جنگ لڑی جاتی ہے اس لیے یہ ریاستیں انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے دوروں، تشہیر اور انتخابی کارکنوں کے حوالے سے خصوصی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ ماہرین اس پر متفق نہیں کہ کون کون سی ریاستیں ’’ سوئنگ سٹیٹس ‘‘کے زمرے میں آتی ہیں، تاہمThe Cook Political Report کے مطابق ریاست ایریزونا، فلوریڈا، مشی گن، پنسلوینیا اور وسکونسن میں کوئی بھی سیاسی جماعت جیت سکتی ہے۔ بعض ماہرین ان ریاستوں میں نیو ہمپشائر، نارتھ کیرو لائنا اور چند اور ریاستوں کو بھی شامل کرتے ہیں۔
کانٹے دار مقابلے والی ریاستیں
زیادہ تر ریاستیں واضح طور پر ڈیموکریٹس یا ریپبلکنز کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، جس سے ان کے انتخابی نتائج تقریباً ایک دیے گئے ہیں۔ لیکن ہر چار سال بعد کئی ریاستوں میں اہم صدارتی امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ ریاستیں سوئنگ سٹیٹس یا ٹاس اَپ سٹیٹس کہلاتی ہیں۔ امیدوار بطور خاص اپنی مہم ان ریاستوں پر مرکوز کرتے ہیں۔جب رائے عامہ کے جائزوں میں ان ریاستوں میں جیت کا مارجن 5 فیصد پوائنٹس سے کم ہوتا ہے تو انتخابی تجزیہ کار ان ریاستوں کو میدان جنگ قرار دیتے ہیں۔