امریکا انتخابات2024:VOTE:کون بنے گا امریکی صدر؟فیصلہ آج ہوگا

تحریر : میگزین رپورٹ


امریکہ میں صدارتی انتخابات، امریکی ووٹر آج ووٹ کاسٹ کریں گے، حسب روایت دونوں بڑی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک کے امیدواروں (ڈونلڈ ٹرمپ اور کاملا ہیرس)میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ ابتدائی طور پر تو یہ انتخاب 2020ء کے صدارتی انتخاب کا’’ری میچ‘‘ لگ رہے تھے تاہم جولائی میں صورتحال نے پلٹا اْس وقت کھایا جب صدر جو بائیڈن نے اس دوڑ سے دستبردار ہوتے ہوئے نائب صدر کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنیں گی؟دنیا بھر کی نظریں ان انتخابات پر ہیں۔

 دنیا کی سب بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہونے کی وجہ سے امریکہ کے صدر نہ صرف امریکی عوام بلکہ دنیا بھر میں بسنے والوں کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے 5 نومبر 2024ء کو ہونے والے انتخابات کے عالمی اثر ات ہونگے۔ امریکی سیاست بنیادی طور پر دو جماعتی نظام پر قائم ہے اور صدر ان ہی دو جماعتوں میں سے کسی ایک سے منتخب ہوتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی جو قدامات پسند جماعت ہے اس کی طرف سے 2024ء کے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کیا گیا ہے، جو گزشتہ الیکن میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد دوسری بار منتخب نہیں ہو سکے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ایک لبرل جماعت ہے اور ان کی امیدوار کملا ہیریس ہیں۔ ساری دنیا کی طرح پاکستان کی نظریں بھی آج  ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ ان انتخابات کے نتائج سے پاکستان کی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی پر بھی براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔

امریکا کا صدر کیسے منتخب ہوتا ہے؟

 4 جولائی 1876ء کوبرطانوی نظام کے تحت منتخب ہونے والی کانٹی نینٹل کانگریس نے ایک قرار داد کے ذریعے برطانیہ سے 13 امریکی کالونیوں کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا لیکن نئے ملک کو چلانے کیلئے کوئی مرکزی حکومت موجود نہیں تھی۔ آزادی کی قرار داد منظور ہونے کے بعد کانٹی نینٹل کانگریس نے مرکزی حکومت کی تشکیل کیلئے ایک متفقہ آئین پر کام شروع کیا اور پہلے مرحلے میں آرٹیکل آف کنفیڈریشن کا معاہدہ  1777 میں طے پاگیا جس کے تحت برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والی 13 ریاستیں ایک کمزور مرکزی بندوبست کے تحت نظام مملکت چلاتی رہیں۔ پہلے متفقہ آئین کی تشکیل میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کو 12 برس لگے اور طویل بحث و مباحثے کے بعد 1788 میں امریکا کا آئین منظور ہوگیا جو پہلے صدارتی انتخابات کے بعد 1789ء میں نافذ کیا گیا۔ آئین کے تحت پہلے صدارتی انتخابات 15 دسمبر 1788ء سے 10جنوری 1789ء کے درمیان منعقد ہوئے اور جارج واشنگٹن کو متفقہ طور پر امریکا کے پہلے صدر اور جان ایڈمز کو نائب صدر منتخب کیا گیا۔ 

 1789ء میں نافذ العمل ہونے والے آئین میں کانگریس کے ہر ممبر کو دو ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی۔ سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار صدر اور دوسرے نمبر پر آنے والا امیدوار نائب صدر منتخب ہوتا تھا۔ جون 1804 میں بارہویں ترمیم پاس ہوئی جس میں صدر اور نائب صدرکے انتخابات کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا۔ بارہویں ترمیم کے تحت 1804 میں پہلے صدارتی انتخابات ہوئے جس میں صدر اور نائب صدر الگ الگ الیکٹورل ووٹ کی بنیاد پرمنتخب ہوئے۔ تب سے امریکا میں صدر اور نائب صدر کے انتخاب کا یہی طریقہ کار رائج ہے۔ 

عام تاثر یہ ہے کہ امریکی صدر عوام کے براہ راست ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہوتا ہے لیکن امریکا کا انتخابی نظام دیگر جمہوریتوں کی بہ نسبت کافی پیچیدہ ہے۔ امریکی عوام صدراتی امیدوار کو براہ راست ووٹ دینے کے بجائے سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے اراکین کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ امریکا کی پچاس ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے الیکٹورل ووٹ مختص کیے گئے ہیں۔ الیکٹورل ووٹ کسی بھی ریاست کے سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کی تعداد کے مجموعہ کے برابر ہیں۔ سینیٹ میں ہر ریاست کو دو سینیٹرز کی نشستیں مختص ہیں جبکہ ایوان نمائندگان کی تعداد کا  تعین کسی بھی ریاست کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ موجودہ الیکٹورل کالج میں کل 538 الیکٹورل ووٹ ہیں جن میں سے 100 سینیٹرز اور 438 ایوان نمائندگان کے اراکین شامل ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے کیلی فورنیا امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے اس لیے ایوان نمائندگان میں بھی سب سے زیادہ 53 اراکین کیلی فورنیا سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ دو سینیٹرز کو ملا کر کیلی فورنیا کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 55 بن جاتی ہے۔ ٹیکساس 38 الیکٹورل ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور فلوریڈا 29 الیکٹورل ووٹوں کے ساتھ تیسری بڑی ریاست ہے۔ سب سے کم آبادی والی ریاستوں کو بھی ایوان نمائندگان میں کم از ایک نشست کی نمائندگی دی گئی ہے اس لیے کم ترین الیکٹورل ووٹ والی ریاستیں بھی کم از کم تین الیکٹورل ووٹ رکھتی ہیں۔ 

صدر کے انتخاب میں ریاستوں کے مجموعی ووٹوں کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدواراس ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹوں کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ اگر ہم کیلی فورنیا کی ہی مثال لے لیں تو ریاست کیلی فورنیا میں جس پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے اس ریاست کے تمام 55 الیکٹورل ووٹ اس پارٹی کے صدارتی امیدوار کے حق میں جائیں گے۔ بعض اوقات ووٹنگ کے دوران منتخب رکن پارلیمان اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ ڈالتا ہے لیکن امریکی سیاست میں یہ روایت بہت کم ہے اور ایسا کرنے والے کو بے ایمان اوردغا باز تصور کیا جاتا ہے اس لیے صدارتی امیدوار کتنا ہی نا پسند کیوں نہ ہو اراکین پارلیمنٹ اپنے ووٹ اکثریتی امیدوار کے حق میں ہی کاسٹ کرتے ہیں۔ 

دو ریاستیں میئن اور نیبراسکا اس طریقہ کار کے تابع نہیں ہیں۔ وہاں کانگریس کا امیدوار جس پارٹی سے منتخب ہوتا ہے اپنا ووٹ بھی اسی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو دیتا ہے اور یوں ان دو ریاستوں میں الیکٹورل کالج کے ووٹ دونوں صدارتی  امیدواروں میں تقسیم ہوتے ہیں۔  الیکٹورل کالج کے 538 ووٹوں میں سے جس امیدوار کو آدھے سے زیادہ یعنی 270 ووٹ ملیں گے وہ صدر منتخب ہوگا۔

 دو جماعتی نظام 

برطانیہ کے خلاف امریکی جنگ آزادی کے کمانڈر اور بعد ازاں متفقہ صدر ہونے کی حیثیت سے جارج واشنگٹن کو تمام نو زائیدہ ریاستوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس لیے ان کی موجودگی میں تمام ریاستیں ان کے فیصلوں پر متفق رہیں۔ جارج واشنگٹن ایک مضبوط مرکزی حکومت کے خواہاں تھے تاہم ان کے جانے کے بعد تھامس جیفرسن اور جیمز میڈیسن طاقتور مرکزی حکومت کے بجائے اختیارات ریاستوں کو منتقل کرنے کے حق میں مہم شروع کردی۔ یوں مضبوط مرکزی حکومت کے مخالفین کا ایک گروپ وجود میں آگیا جو بعدازاں ڈیموکریٹک رپبلکنز کہلائے۔ آہستہ آہستہ یہ گروپ باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرگیا۔ 1801 ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک ریپبلکنز نے کامیابی سمیٹی اور تھامس جیفرسن صدر بن گئے اور اس کے ساتھ ہی امریکا میں جماعتی انتخابات کی بنیاد پڑ گئی۔ ڈیموکریٹک ریپبلکنز 1825ء تک برسراقتدار رہے اور تھامس جیفرسن کے بعد مزید دو صدورجیمز میڈیسن اور جیمز مونروئے بھی اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر صدر بنے۔ 

اب تک 19 ریپبلکنز، 16 ڈیموکریٹس، 3 ڈیمو کریٹک ریپبلکنز اور دو فیڈرلسٹ صدر بن چکے ہیں جبکہ وِگ پارٹی کے پلیٹ فارم سے چار صدور منتخب ہوئے۔ان دو جماعتوں کے علاوہ بھی کئی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں موجود ہیں لیکن کانگریس میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

مقابلہ برابر رہا تو کیا ہو گا ؟

تین صورتیں ہیں جن میں ہیریس اور ٹرمپ دونوں 269 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ایسا ممکن ہے جب کوئی حیرت انگیز واقعہ نہ ہو اور ہیریس اور ٹرمپ بالترتیب 226 اور 219 الیکٹورل ووٹ حاصل کریں اور بیٹل گراؤنڈ سٹیٹس میں درج ذیل نتائج ہوں:

پہلی صورت : ڈیموکریٹس جیتیں:جارجیا (16)، ایریزونا (11)، وسکنسن (10) اور نیواڈا (6)

ریپبلکن جیتیں:پنسلوینیا (19)، شمالی کیرولائنا (16) اور مشی گن (15)

دوسری صورت: ڈیموکریٹس جیتیں: جارجیا (16)، شمالی کیرولائنا (16) اور ایریزونا (11)

ریپبلکن جیتیں:پنسلوینیا (19)، مشی گن (15)، وسکنسن (10) اور نیواڈا (6)

تیسری صورت:ڈیموکریٹس جیتیں:شمالی کیرولائنا (16)، ایریزونا (11)، وسکنسن (10) اور نیواڈا (6)

ریپبلکن جیتیں:پنسلوینیا (19)، جارجیا (16) اور مشی گن (15)

اگر ان میں سے کوئی نتیجہ سامنے آتا ہے تو ایک متبادل انتخاب ہوگا جس میں امریکی ایوان نمائندگان فاتح کا فیصلہ کرے گا۔ایوان میں ہر ریاست کا نمائندہ ایک ووٹ دے گااور کسی امیدوار کو جیتنے کے لیے ریاستوں کے ووٹوں میں اکثریت (50 میں سے 26) ووٹ حاصل کرنا ہوگے۔امریکی سینیٹ پھر نائب صدر کا انتخاب کرے گی اور ہر سینیٹر ایک ووٹ دے گا اور جیتنے کے لیے سادہ اکثریت (51 ووٹ) درکار ہوگی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ پی ٹی آئی مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹی؟

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکراتی عمل کو دوسرا راؤنڈ آج شروع ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اپنے تین مطالبات سے حیران کن طور پر پیچھے ہٹ چکی ہے ۔

مذاکراتی عمل میں بریک تھرو ہو گا ؟

ایک دوسرے کیلئے تحفظات کے باوجود آج سے حکومت‘ اس کے اتحادی اور پی ٹی آئی مذاکرات کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ مذاکراتی عمل سے توقعات تو یہی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ یہ ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کیلئے اچھا ثابت ہو گا لیکن دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن حکومت سے اور حکومت اپوزیشن سے کیا چاہتی ہے۔

کراچی میں دھرنے مصیبت بن گئے

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام پر گزشتہ ایک ہفتہ بڑا بھاری گزرا۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر پہلے ہی شہر جگہ جگہ سے کھدا پڑا ہے اور راستے بند ہیں، رہی سہی کسر دھرنوں نے پوری کردی۔ درجن بھر سے زائد مقامات پر دھرنے دیے گئے، آنے جانے والی دونوں سڑکوں کو بند کردیا گیا، ٹریفک پولیس نے متبادل ٹریفک روٹ بھی جاری کیا لیکن شہر میں ٹریفک کی جو صورتحال ہے اس سے گھنٹوں ٹریفک جام معمول رہا۔

سال نیا سیاست پرانی

2024ء خوشگوار اورناخوشگوار یادوں، امیدوں، مایوسیوں اور رونقوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سال گزشتہ میں خیبرپختونخوا نے کئی نشیب وفراز دیکھے۔

2024 ء تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہوا

سال 2024 ء بلو چستان میں دہشت گردی اور جرائم کے حوالے سے چیلنج بن کر آیا۔یکم جنوری سے31 دسمبر تک صوبے میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا جس میں عام شہری اور سیکورٹی فورسز کے افسران اور اہلکارشہید ہوئے۔2024ء تک پانچ اضلاع میں14خود کش حملوں میں سیکورٹی فورسز کے 14 اہلکاروں اور 27مسافروں سمیت48افراد شہید جبکہ11اہلکاروں سمیت 106افراد زخمی ہوئے۔

یوم حق خودارادیت اور ہماری ذمہ داریاں

پانچ جنوری کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری یوم حقِ خود ارادیت منا تے ہیں۔ پانچ جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت نے کشمیریوں کیلئے حقِ خود ارادیت یعنی رائے شماری کی قرارداد منظور کی تھی۔