بلوچستان میں دہشتگردی کی نئی لہر
بلوچستان میں گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ضلع پنجگور اور مستونگ میں ہو نے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات بھی توجہ طلب ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل بھی صوبے میں متعدد دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں سینکڑوں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے حکومتی دعوے ہر واقعے کے بعد سامنے تو آتے ہیں لیکن ان پر عمل در آمد ہوتا نظر نہیں آتا۔بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے نہ صرف صوبے میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا بلکہ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھاک کیلئے اقدامات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں پنجگور اور مستونگ میں دہشت گردی کے دو واقعات میں متعدد افراد کی جانیں گئیں۔ پنجگور کے علاقے پروم میں ڈیم کے تعمیراتی منصوبے پر مامور افراد پر ہو نے والے حملے میں9 افراد جاں بحق جبکہ ایک شخص زخمی ہوا۔ واقعے کے بعد مسلح افراد نے تعمیراتی مشینری اور دوکمروں کو بھی نذر آتش کر دیا۔پنجگور میں مسلح افراد کا حملہ صوبے میں جاری تعمیراتی کاموں پر ایک سنگین حملہ ہے۔ دوسری جانب مستونگ میں سکول کے قریب ہو نے والے بم دھماکے میں بچوں سمیت9 افراد جاں بحق اور34 زخمی ہوگئے ۔ ان میں زیادہ تر کم عمر طلبہ شامل تھے ۔مستونگ میں پیش آنے والا واقعہ ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہے ۔دھماکہ اس وقت ہوا جب بڑی تعداد میں طلبہ سکول آرہے تھے اس دوران دھماکے کی شدت سے پولیس کی گاڑی اور راہگیر بھی متاثر ہوئے۔ صوبائی حکومت کی جانب دہشت گردی کے ان واقعات کی مذمت تو کی گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کوروکنے کے لئے کیا عملی اقدامات کئے جا رہے ؟ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کر تے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر کے معصوم بچوں کے خون کا حساب لیں گے، تاہم عوام کو مستقل طورپر تحفظ فراہم کر نے کیلئے نہ صرف سکیورٹی فورسز کی تعداد بڑھانی ہوگی بلکہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور انٹیلی جنس نظام کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔وزیراعلیٰ بلو چستان میر سرفراز بگٹی نے شجاع آباد میں پنجگور واقعے کے شہدا کے ورثا میں امدادی چیک تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا مقصد صوبوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنا اور ملک میں انتشار پھیلانا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کو عالمی سطح پر اٹھایا گیا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ملوث ہے۔
دوسری جانب صوبائی دار الحکومت میں واسا ملازمین کی ہڑتال نے شہریوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم کر دیا ہے۔ گزشتہ پانچ روز سے جاری احتجاج نے عوام کو مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ ملازمین 25 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ عوامی سطح پر اس ہڑتال کے منفی اثرات نمایاں ہیں کیونکہ پانی کی قلت نے شہریوں کے معمولات زندگی کو برُی طرح متاثر کیا ہے۔ملازمین کا مؤقف ہے کہ انہیں حکومتی سطح پر سہولیات اور مراعات ملنی چاہئیں تاکہ وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکیں۔ یہ بات درست ہے کہ مناسب تنخواہوں اور سہولیات کے بغیر کسی بھی محکمے کے ملازمین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اس ہڑتال میں شامل واسا ملازمین اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عدالت کے احکامات کے تحت ہڑتال میں شامل ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔تاہم اس اقدام سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور انتظامیہ ملازمین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ پانی کی سپلائی بحال اور عوام کو ریلیف مل سکے۔ رواں ہفتہ بلوچستان اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی محکمہ آبپاشی کے مالی معاملات اور بے ضابطگیوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین اصغر علی ترین کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں گزشتہ مالی سالوں کے آڈٹ پیراز اور تخصیص اکاؤنٹس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ پی اے سی کے اجلاس میں کمیٹی کے اراکین اور اعلیٰ افسران نے محکمہ کی جانب سے عوامی فنڈز کے غیر مناسب استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔چیئرمین ترین نے خاص طور پر محکمہ آبپاشی کی نااہلی کو اجاگر کیا جس کے باعث متعدد ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل نہیں ہو سکے اور حکومت کو ان پر اضافی ادائیگیوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ حب میں جھاڑیوں کو ہٹانے جیسے منصوبے کے اخراجات اور ان میں تاخیر پر سوالات اٹھائے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ نہ صرف غیر منظم ہے بلکہ عوامی پیسہ بھی ضائع کر رہا ہے۔کمیٹی نے محکمہ آبپاشی کو آڑے ہاتھوں لیا۔یہ بات سامنے آئی کہ ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کی جانب سے دو سال قبل کئے گئے فیصلے کے باوجود متعلقہ خط تین دن قبل لکھا گیا۔ مزید برآں پی اے سی نے آڈٹ پیرا 15.2.2 پر تشویش کا اظہار کیا جس میں ڈیم کی تعمیر میں کمتر مواد کے استعمال کے باوجود ٹھیکیداروں کو زیادہ ادائیگی کی گئی تھی۔ کمیٹی کے رکن فضل قادر مندوخیل نے محکمہ کو اس لاپروائی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جب غلطی کو تسلیم کیا گیا ہے تو وصولی پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جا رہا؟کمیٹی نے محکمہ آبپاشی کو ہدایات دیں کہ وہ ایک ماہ کے اندر لاکھوں روپے کی ریکوری کریں۔ کمیٹی نے خبردار کیا کہ اگر وصولی نہ کی گئی تو متعلقہ افسر کو پانچ سال کیلئے او ایس ڈی بنا دیا جائے گاتاکہ احتساب کو یقینی بنایا جا سکے۔ رواں ہفتہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت کے خلاف درج مقدمات اور رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال نے وفاق اور صوبے کے درمیان تعلقات پر سوالات اٹھا دیئے۔ ہڑتال کے دوران مختلف شہروں میں کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں بی این پی کا مؤقف ہے کہ پارٹی رہنما سردار اختر جان مینگل کو بلوچ عوام کے حقوق کی بات کرنے پر سزا دی جا رہی ہے اور یہ رویہ صوبے میں موجود احساس محرومی کو مزید تقویت دے رہا ہے۔
ادھرقلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے ایک بچے میں پولیو وائرس کا کیس رپورٹ ہو نے کے بعد صوبے میں پولیو وائرس کے مر یضوں کی تعداد مجمو عی طور پر 23 ہوگئی ہے۔انسداد پولیو پروگرام کے مطابق رواں سال بلوچستان کے بارہ اضلاع سے پولیو کے کیس رپورٹ ہوئے صوبے میں پولیو کے سب سے زیادہ (6)کیسز قلعہ عبداللہ سے سامنے آئے۔ کوئٹہ سے 3،چمن ، ژوب پشین اور قلعہ سیف اللہ سے پولیو کے دو، دو کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ دیگر آٹھ اضلاع سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔ پولیو کے حوالے سے کوئٹہ بلاک کا شمار ہائی رسک بلاکس میں ہوتا ہے۔