پی ٹی آئی میں اختیارات کی رسہ کشی
ڈی چوک جلسہ ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کیلئے بھاری ثابت ہورہا ہے۔ اس دن جلسے اور جلسے کے بعد جو کچھ ہوا پارٹی قیادت اسے دہرانا نہیں چاہتی ۔کچھ اور وجوہات بھی ہیں جو فی الوقت صیغہ راز میں رکھی جارہی ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ اب پی ٹی آئی دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔ 9نومبر کو بھی صوابی کے مقام پر ہی تین روزہ دھرنے کا پروگرام ترتیب دیاگیا ہے۔ اس سے قبل پشاور میں ہونے والا جلسہ دو دفعہ ملتوی کیاگیا تھا۔تاریخ پر تاریخ دیئے جانے سے لگ رہا ہے کہ پارٹی قیادت خود بھی یکسوئی کا شکار نہیں ۔بیرسٹر گوہر پارٹی چیئرمین ہیں لیکن لگ یوں رہاہے کہ اختیار اُن کے ہاتھ میں بھی نہیں ۔اس وقت اگر سب سے زیادہ مؤثر اور طاقتور کوئی شخصیت ہے تو وہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور ہیں جو ایک صوبے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے پارٹی کے اندر بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں اور باہر بھی۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں بھی انہی کی ہوتی ہیں اوراب بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کی پشاور میں موجودگی سے ان کے فیصلوںکو اور تقویت ملے گی۔
اسلام آباد احتجاج سے واپسی کے بعد علی امین گنڈاپور پر ہونے والی تنقید کو بھی اب بریک لگ گئی ہے۔ اگرچہ کہاجارہا ہے کہ بشریٰ بی بی پارٹی کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتیں لیکن پارٹی رہنما فی الحال تیل اور تیل کی دھار دیکھنے میں مصروف ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے اندر سیاسی بے چینی تیزی سے جنم لے رہی ہے۔ یہ بے چینی اس لئے بھی ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران جو سیاسی فیصلے کئے گئے ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے ۔اسلام آباد کا ہو یا لاہور کا احتجاج، اختتام اس طرح نہیں ہوا جس طرح سے پارٹی کارکنوں کو جمع کیاگیا تھا اور امیدیں باندھی گئی تھیں مگر اسلام آباد سے وزیراعلیٰ کی دو بارہ گمشدگی نے ان معاملات کو مزید پیچیدہ بنادیا۔اب پی ٹی آئی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے سنگم پر جمع ہورہی ہے اور تین روزہ دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ فی الوقت یہ صرف تین دن کا دھرنا ہے جس میں ملک بھر سے پارٹی کارکن اور قیادت شرکت کرے گی ۔صوابی کے مقام پر خیمہ بستی لگائی جائے گی، رہنما آئیں گے اور تقریر کرکے رخصت ہوں گے ۔اس سے قبل پشاور جلسہ منسوخ کردیاگیا۔دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت صوابی دھرنے کیلئے کتنے لوگوں کو باہر نکالنے اور اس خیمہ بستی میں لانے میں کامیاب رہتی ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہناہے کہ صوابی دھرنے کے دوران وہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے لیکن یہ لائحہ عمل کیاہوسکتا ہے؟ ان کی جانب سے ایک بارپھر اسلام آباد جانے کی دھمکی بھی دی گئی ہے لیکن کیا وہ اس کو اس بار عملی جامہ پہناسکتے ہیں؟یہ ایک بڑاسوال ہے جس کا جواب نفی میں آرہاہے۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندر بھی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ۔ماضی کی طرح اس با ر بھی پی ٹی آئی کے اندر بے چینی پائی جاتی ہے ایک بے یقینی سی ہے، کارکنوں کو فی الوقت کوئی واضح پالیسی یا لائحہ عمل نہیں دیاگیا ۔بشریٰ بی بی بھلے سیاست میں حصہ نہ لیں لیکن اس کے باوجود اس وقت سب کی نظریں اُن پر ہیں جو عدالت سے راہداری ضمانت ملنے کے بعد دھرنے سے چند دن قبل لاہور سے واپس پشاور پہنچ گئی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محض دھرنے سے چند دن قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر کے زیرنگرانی ادارے انسدادِ بدعنوانی کی جانب سے سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر مرکزی رہنما عاطف خان کو مالم جبہ کیس میں نوٹس بھیج دیاگیا ہے ۔مالم جبہ کیس میں نیب نے معاملہ کلیئر قراردے دیاتھا لیکن اب پی ٹی آئی کی اپنی حکومت میں یہ فائل دوبارہ کھل گئی ہے ۔یہی نہیں بلکہ انہیں دوسرا نوٹس مردان میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے حوالے سے بھیجا گیا ہے ۔اس سے قبل بھی ان سطورمیں بتایاگیاتھا کہ عاطف خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد ایم پی ایز کے خلاف صوبائی حکومت مختلف کیسز کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان ارکانِ اسمبلی میں سے زیادہ تر کا تعلق مردان اور ملاکنڈ ریجن سے ہے۔ ان نوٹسز پر عاطف خان کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ صوبائی حکومت کے زیرانتظام کسی ادارے کی جانب سے حکمران جماعت کے انتہائی اہم لیڈر کو نوٹسز جائیں اور وزیراعلیٰ اس سے بے خبرہوں ۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔انتہائی اہم حکومتی ذرائع نے کچھ عرصہ قبل بتادیاتھا کہ بعض عناصر ایسے ہیں جو ہر دورِ حکومت میں مسئلہ بنتے رہے ہیں۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کا سوچا جارہاہے اور اب اس پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا ہے۔ کچھ اور نام بھی ہیں جو جلد ہی منظر عام پر آئیں گے۔
عاطف خان کے بارے میں بتایاجاتاہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی سمیت ان کے خاندان کے کچھ اہم لوگوں کے قریب ہیں ۔
سابق صوبائی وزیر شکیل خان کی جانب سے ملاکنڈ،مردان اور صوابی میں بڑے جلسوں کا اعلان کیاگیاتھا۔ شکیل خان کے بارے سمجھا جاتا ہے کہ انہیں عاطف خان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ جلسے پارٹی اور صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر کئے جارہے تھے ۔پی ٹی آئی کے ان ناراض رہنماؤں کی جانب سے سمجھا جارہاہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کاوش ناکافی ہے۔یہ تمام معاملات پارٹی میں اختلافات کو ظاہر کرتے ہیں ۔توقع کی جارہی تھی کہ بشریٰ بی بی کے پشاور آنے کے بعد خیبرپختونخوا میں شاید پارٹی کے اختلافات ختم ہوں لیکن عاطف خان کو دیئے گئے نوٹسز کے بعد یہ خلیج مزید بڑھ گئی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی حکومت اور پارٹی پر گرفت مضبوط ہے لیکن وہ مخالفین جو پارٹی میں اثرورسوخ رکھتے ہیں وہ علی امین گنڈاپور کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ صوابی دھرنے سے قبل ہی عاطف خان کو یہ نوٹس کیوں بھیجے گئے؟ یوں محسوس ہورہاہے کہ یہ اختلافات جان بوجھ کربڑھائے جارہے ہیں اورپارٹی کے اندر گروہ بندی جان بوجھ کر پیداکی جارہی ہے جس سے ایک طرف صوبائی حکومت کی کارکردگی سے توجہ ہٹ سکتی ہے تو دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے کی جانے والی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں لیکن شاید اختیارات ان سے ہائی جیک ہوچکے ہیں۔