حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان
بلوچستان مسلسل دہشت گردی کی زد پر ہے۔ ہفتہ کے روز کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دہشت گردی کے دلخراش واقعے نے صوبے کے عوام کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور دہشت گردی کی اس نئی لہر نے حکومتی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
پچھلے آٹھ ماہ کے دوران بلو چستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 131افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ دل دہلا دینے والے واقعات نے نہ صرف عوام کو خوف و اضطراب میں مبتلا کیا ہے بلکہ صوبے میں سوگ کی فضا بھی قائم کر دی ہے۔ اگست، ستمبر ،اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں دہشت گردی کے حوالے سے بدترین ثابت ہوئے جن میں مزدوروں، مسافروں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔موجودہ صوبائی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے مسلسل واقعات پر نظر ڈالی جائے تو مارچ میں نوشکی کے قریب دہشت گردوں نے بس سے اتار کر 9افراد کو قتل کر دیا گیا،جون میں شعبان میں دہشت گردوں نے5افراد کو اغواکیا، 8مئی کو گوادر کے علاقے میں مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7مزدوروں کو قتل کیا،26اگست کو موسیٰ خیل، قلات اور بولان میں مجموعی طورپر 36افراد قتل ہوئے، ستمبر کے مہینے میں نوشکی میں ایک شخص کو قتل کیا گیا جبکہ 28ستمبر کو پنجگور میں دہشت گردوں نے 7مزدوروں کو قتل کر دیا۔ اکتوبر کے مہینے میں دکی میں کوئلہ کان میں کام کرنے والے21مزدوروں کو قتل کردیا گیا ،اکتوبر ہی میں نوشکی میں دوافراد کو مسلح افراد نے نشانہ بنایا ،2نومبر کو مستونگ میں سکول کے قریب بم دھماکے میں بچوں سمیت9 افراد جاں بحق اور34 زخمی ہوئے۔ اسی ماہ 9نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خود کش دھماکے میں 28افراد جاں بحق اور 60سے زائد زخمی ہوئے۔
ریلوے سٹیشن کوئٹہ پر ہونے والے دہشت گردی کے دلخراش واقعے نے بلوچستان کے باسیوں کو غم اور خوف کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ 9نومبر کی صبح 8بجکر 25 منٹ پرریلوے سٹیشن کوئٹہ کو نشانہ بنایا گیا جہاں 27 افراد موقع پرجاں بحق ہوگئے جبکہ ایک زخمی ہسپتال میں دم توڑگیا۔بلوچستان میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے باوجود سیکورٹی کے انتظامات میں بہتری نظر نہیں آتی۔ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں ناکامی اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے واضح اقدامات کا فقدان اس خطے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجوہات میں شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے اکثر اعلانات اور اخباری بیانات تک محدود رہ جاتے ہیں اوربلوچستان کے عوام کا مسلسل دہشت گردی کی لہر کا سامنا کرنا ان کے حوصلوں کو توڑنے کا باعث بن رہا ہے۔
ریلوے سٹیشن کوئٹہ پر خود کش حملے کے بعد وفا قی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا سر کچلنے کیلئے پوری طاقت سے فیصلہ کن اقدامات کئے جائیں گے اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں امن کیلئے ہر ممکن تعاون کرے گی اور صوبے کو دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے بھرپور معاونت فراہم کی جائے گی۔ مٹھی بھر عناصر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں جن کا ہر صورت قلع قمع کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور سرزمین بلوچستان میں امن کے قیام کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے واقعے میں ملوث دہشت گردوں تک بھی پہنچیں گے اور حکومت کی رٹ ہر صورت قائم کریں گے۔دوسری جانب صوبائی کابینہ نے امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر’’بلوچستان سیکورٹی آف ولنر ایبل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ 2024 ‘‘کی منظوری دی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت بلوچستان میں بحالی ٔامن کیلئے مختلف سیکورٹی اداروں کے مربوط اقدامات کو بار آور بنایا جائے گا۔ بلوچستان کابینہ نے راڑا شم اور کنگری میں نئے پولیس سٹیشنوں جبکہ چمن ماسٹر پلان لیویز تھانہ کے قیام کی بھی منظوری دی۔
رواں ہفتہ صوبائی وزیر پی ایچ ای سردار عبدالرحمن کھیتران، ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورائیہ نے کالعدم تنظیم کے طلعت عزیز کی جانب سے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے موقع پر کہا تھا کہ موسیٰ خیل میں ڈیڑھ ماہ قبل 22 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعہ میں ملوث کالعدم تنظیم نے کارروائی کیلئے سکولوں اور کالجوں کے طلبااور بچوں کو استعمال کیا۔ اس موقع پر کالعدم تنظیم کے طلعت عزیز نے بتایا کہ میری ذہن سازی کی گئی، مجھے قائل کیا گیا کہ معصوم لوگوں کو قتل کرو، مجھے کہا گیا کہ پہاڑوں پرنئی زندگی ملے گی، جب پہاڑوں پر سب دیکھا توبھاگنے کا منصوبہ بنایا۔ بلوچستان میں جاری سیاسی بدامنی اور بنیادی مسائل پر جماعت اسلامی کے صوبائی امیرورکن بلو چستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن کی جانب سے ’’حق دو بلوچستان تحریک‘‘کا آغاز اس صوبے کے بگڑتے ہوئے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال، بے روزگاری، بارڈر کی بندش اور دیگر مسائل کے باعث عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔بقول اُن کے حکومت کی جانب سے اربوں روپے امن و امان کے نام پر خرچ کئے جانے کے باوجود صوبے میں حقیقی بہتری نہیں آئی۔مولانا ہدایت الرحمن کی جانب سے 26 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ میں مختلف اقدامات کی تجویز دی گئی ہے جن میں بنیادی انسانی حقوق، تعلیم و صحت اور معاشی مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانا شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے اداروں کا احتساب کیا جائے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ان کے مطالبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے نہ صرف فوری اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو بلوچستان کے عوام کی معاشی و سماجی حالت کو بہتر بنا سکے۔رواں ہفتہ کوئٹہ میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کے دوران ایک بار پھر کشیدگی کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ ہاکی گراؤنڈ کے قریب پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں پولیس اہلکاروں پر گاڑی چڑھانے، فائرنگ اور پتھراؤ کے نتیجے میں ڈی ایس پی سمیت آٹھ پولیس اہلکار اور پی ٹی آئی کے متعدد کارکن زخمی ہوگئے۔ پولیس نے حالات کو قابو میں کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا اور کئی کارکنوں کو گرفتار کر کے جلسہ گاہ کو خالی کروا لیا۔اس واقعے نے کوئٹہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور سیاسی کشیدگی میں اضافے کو مزید نمایاں کیا ہے۔