پی ٹی آئی کا مخمصہ

تحریر : عابد حمید


پاکستان تحریک انصاف کے نو نومبر والے جلسے سے کارکنوں میں اطمینان کے بجائے بے چینی بڑھ گئی ہے۔ جلسے سے قبل پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے نو نومبر کوتین روزہ دھرنے کا اعلان کیاگیاتھا لیکن پارلیمانی رہنماؤں کی مخالفت کے بعد اسے ایک دن میں تبدیل کردیا گیا۔

پارلیمانی رہنماو ٔں کا مؤقف تھا کہ تین دن دھرنا دینا ہے تو وہ پنجاب یا اسلام آباد میں دیاجائے خیبرپختونخوا میں نہیں۔یہ مؤقف بھی اپنایاگیا کہ اس تین روزہ دھرنے پر بہت سے مالی وسائل صرف ہوں گے، انہیں یہاں کیوں ضائع کیا جائے؟اس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے صوابی میں ایک روزہ دھرنا دینے کافیصلہ کیاگیا۔ یہ بھی کہاگیاکہ اس دھرنے یا جلسے میں بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے اہم قرارداد پیش کی جائے گی۔ پارٹی کے اہم رہنما یہ بات دہراتے رہے ،کارکن بھی منتظر رہے کہ یہ قرارداد کیاہوسکتی ہے لیکن قرارداد پیش نہیں کی گئی، حتیٰ کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے حکومت کو کوئی ڈیڈ لائن بھی نہیں دی گئی بلکہ یہ کہہ دیاگیا کہ حتمی احتجاج کی کال بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دی جائے گی۔ وہ جو تاریخ بتائیں گے اس کے مطابق بھرپور احتجاج کیا جائے گا لیکن یہاں بہت سے سوالات پید ہوتے ہیں جن کے جواب فی الوقت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے پاس نہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا ابھی تک بانی پی ٹی آئی نے حتمی احتجاج کیلئے کوئی تاریخ نہیں دی؟پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہناہے کہ انہیں امید ہے کہ عدالتوں میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے کیسز جلد ہی کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے جس کے بعد صورتحال واضح ہوگی اور اس کے بعد ہی احتجاج کافیصلہ ہوگا۔لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اس کی استطاعت رکھتی ہے کہ ڈی چوک جیسا احتجاج دوبارہ کرسکے؟ کیا پارٹی متحمل ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج یا دھرنا دیا جائے؟ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی سیاسی حالات کودیکھ کر یہ اتنا آسان نہیں لگ رہا۔ اسلام آباد میں دھرنا تب ہی کامیاب ہوسکتا ہے جب پنجاب کی قیادت بھی مؤثر طریقے سے اس میں حصہ لے، لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے۔ اسلام آباد اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے جتنے جلسے یا احتجاجی مظاہرے ہوئے ان سے پنجاب کی قیادت لاتعلق رہی۔ اس کا ایک سبب علی امین گنڈاپور کا پارٹی میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ بھی ہوسکتا ہے۔ پارٹی میں گنڈاپور کا پہلے سے اثرو رسوخ موجود تھا، وزیراعلیٰ بننے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ پارٹی کے سب سے مضبوط رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ پارٹی میں یہ کشمکش خیبرپختونخوا میں بھی موجود ہے جہاں عاطف خان گروپ اور علی امین گنڈاپور گروپ آمنے سامنے ہیں۔ یہی اختلافات ہیں جن کی وجہ سے نونومبر والے احتجاجی جلسے کو کامیاب نہیں کہاجاسکتا۔ سٹیج پر آنے والے رہنماؤں کی باڈی لینگو یج اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ معاملات کچھ بہتر نہیں۔ اسدقیصر کی جانب سے بھی اس دھرنے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں دکھائی گئی۔ عاطف خان تو پہلے ہی محکمہ انسداد بدعنوانی کی جانب سے دو نوٹس ملنے کے بعد خار کھائے بیٹھے ہیں۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے شہرام ترکئی بھی منظر عام سے غائب ہیں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے مہم جوئی اس کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ پارٹی کارکنوں کو موبلائز کرنے کیلئے نہ صرف منظم تحریک چلانی ہوگی بلکہ اندرونی اختلافات کو بھی ختم کرنا ہوگا جو فی الوقت ممکن نظرنہیں آرہا۔ پارٹی کے اندر کوئی ایسا لیڈر نہیں جو کارکنوں کو متحد کرے۔ صورتحال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے اندر تو ورکرز کو عزت دو کے نعرے لگ رہے ہیں لیکن کارکن وزیراعلیٰ سے زیادہ خوش نہیں۔ نونومبر کو وزیراعلیٰ کی تقریر شروع ہونے کے ساتھ ہی بعض وزرا سمیت کچھ رہنماؤں نے پنڈال سے باہر کا رخ کرلیا۔ مردان سے تعلق رکھنے والے ایم این اے علی محمد خان بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پارٹی کے کچھ لوگ کمپرو مائزڈ ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کے اندر فی الوقت کوئی بھی ایک دوسرے پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں کسی تحریک کو بھلا کیسے کامیاب بنایاجاسکتا ہے؟پی ٹی آئی کو تحریک چلانے سے قبل اپنی صفوں کو درست کرناہوگا بصورت دیگر کسی بھی قسم کی تحریک کا انجام نو نومبر والے احتجاجی جلسے کا ساہوگا۔ پی ٹی آئی کے کارکن اس صورتحال سے مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس ایک نادر موقع جے یو آئی کے ساتھ مل کر احتجاجی تحریک چلانے کاتھا ،اس حوالے سے کافی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ہر بار پی ٹی آئی کی جانب سے ایسا بیان سامنے آجاتا تھا جس سے مذاکرات کی گاڑی پٹری سے اُترجاتی تھی۔ اب بھی کوشش کی جارہی ہے کہ دونوں جماعتیں کسی نکتے پر متفق ہوجائیں لیکن بظاہر یہ مشکل لگ رہا ہے۔ جے یو آئی کی صوبائی قیادت ایسے کسی اتحاد کی مخالفت کرچکی ہے۔ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جے یو آئی کی مرکزی قیادت کیلئے جو زبان استعمال کی گئی وہی اب آڑے آرہی ہے۔اس صورتحال میں پی ٹی آئی کی قیادت یکسوئی سے فیصلے نہیں کرپارہی۔ اس میں کچھ قانونی مشکلات بھی ہیں اور کچھ کے بارے کہاجارہاہے کہ وہ مقتدرہ یا مرکزی حکومت کی طرف سے ڈالی جارہی ہیں۔ لیکن یہ بات اتنی درست نہیں۔اصل وجہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور طاقت کے مختلف مراکزمیں باہمی کشمکش ہے۔ کچھ پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ علی امین گنڈاپور جماعت پر اپنی گرفت مضبوط کرناچاہتے ہیں اورہرفیصلے میں شامل ہورہے ہیں۔ ایک صوبے کی حکومت ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے بھی علی امین گنڈاپور کا پلڑا بھاری ہے۔ 

اندرونی اختلافات کی بازگشت صرف پی ٹی آئی میں نہیں اے این پی میں بھی سنائی دے رہی ہے جہاں اے سینئر رہنما زاہد خان نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔زاہد خان دو بار سینیٹر اور تیس سال تک پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے لیکن ایمل ولی کے آگے آنے کے بعدکئی سینئر رہنما پس پردہ چلے گئے۔ ان میں زاہد خان بھی شامل ہیں۔ان کی یہ طویل رفاقت اگرچہ گزشتہ روز ختم ہوگئی لیکن ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ انہیں منانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زاہد خان، میاں افتخار اور بلوربرادران مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ اے این پی سیاسی طورپر ابھی بھی مشکلات کا شکار ہے ،عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی تیسری بار کامیابی نے ایمل ولی کی قیادت کو شدید زک پہنچائی ہے۔ اگرزاہد خان جیسے سینئر رہنما پارٹی چھوڑتے ہیں تو یہ ایمل ولی جیسی نوجوان قیادت کیلئے یقینا ایک امتحان ہوگاجو اس وقت سینیٹ میں پارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں۔غلام احمد بلور پہلے ہی سیاست سے تقریبا ًکنارہ کش ہوچکے ہیں۔ نئے چہرے پارٹی میں سامنے تو آئے ہیں لیکن انہیں آگے آنے کا موقع نہیں دیاجارہا۔صورتحال ایس ہی رہی تو اے این پی کیلئے آئندہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو شکست دینا مشکل ہوگا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔