پبلک آرڈرآرڈیننس کا اطلاق معطل
آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ نے’’ پیس فُل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کا اطلاق معطل کر دیا ہے۔ اس سے قبل آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صداقت حسین راجہ اور جسٹس سردار لیاقت حسین کی سر براہی میں دو رکنی بنچ نے اس آرڈیننس کے خلاف مختلف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے دونوں جج صاحبان نے دوران بحث کہا کہ اس آرڈیننس سے کسی سیاسی کارکن اور شہری کے آئینی حقوق متاثر ہوئے اور نہ ہی اس کی اجراسے آزاد جموں و کشمیر میں کسی کے انسانی حقوق کو پامال کیا جائے گا۔ یہ آرڈیننس آزاد جموں و کشمیر میں عام شہری کی زندگی ، جان ومال اور املاک کوتحفظ دینے کیلئے لایا گیا ہے لہٰذا آزاد جموں و کشمیر میں آئے روز ہڑتالوں اور چوراہوں پر دھرنوں کا سدباب کرنے کیلئے یہ آرڈیننس وقت کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 کی موجودگی میں پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024 کو جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم کی سربراہی میں فل بنچ نے سماعت کے دوران قرار دیاکہ جب آزاد جموں و کشمیر کا آئین آپ کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے تو اس کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟سپریم کورٹ نے کہا کہ اس اہم کیس کو مستقل بنیادوں پر سماعت کے بعد حتمی فیصلہ دیا جائے گا۔
ادھر مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی نے آج اس آرڈیننس کے خلاف عام ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر سپریم کورٹ کی طرف سے صدارتی آرڈیننس کی معطلی کے بعد بھی مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی نے آج کی احتجاجی ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی تاجروں اور سول سوسائٹی کے ارکان پر مشتمل ہے۔ اسی اتحاد کے احتجاج پر آزاد جموں و کشمیر میں بجلی اور آٹے پر حکومت نے سبسڈی دی تھی اور اس سال مئی سے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد جموں و کشمیر میں بجلی اور آٹا سستا مل رہا ہے جس پر حکومت سالانہ 30 ارب روپے سے زائد سبسڈی کی مد میں خرچ کررہی ہے۔ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کے کور ممبر شوکت نواز میر نے سپر یم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے صدارتی آرڈیننس کی معطلی کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت آزاد جموں و کشمیر اس صدارتی آرڈیننس کو مکمل طور پر واپس نہ لے تب تک ان کا احتجاج جاری رہے گا۔یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومت ان تمام لوگوں کو رہا کرے جن کو آزاد جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع میں اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024 کو صرف ان کے احتجاج کو روکنے کیلئے جاری کیا ہے۔ یہ آرڈیننس آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 کی روح کے منافی ہے اور حکومت عوام کو ان کے پرامن احتجاج کے آئینی حق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ اگر آزاد جموں و کشمیر کے شہری چاہتے ہیں کہ اس آرڈیننس کو ختم کیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ، تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ احتجاج کی آڑ میں کسی کو جلاؤ گھیراؤ اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اورآزاد جموں کشمیر کے موجودہ سیاسی نظام اور ڈھانچے کو چھیڑنے کی کسی احتجاجی جھتے کو اجازت نہیں ہو گی۔ آزاد جموں وکشمیر کے بزرگ سیاسی رہنماؤں نے ماضی میں بڑی قربانیوں کے بعد اس سیاسی ڈھانچے کو تشکیل دیا ہے جس کے خلاف شر پسند احتجاج کی آڑ میں اکٹھے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ آٹے اور بجلی کی سبسڈی جاری رہے گی اور موجودہ حکومت اس کیلئے اپنے اخراجات کم کر رہی ہے۔
ادھر حکومت آزاد جموں و کشمیر کو اس وقت ایک دھچکا لگا جب آزاد جموں و کشمیر احتساب بیورو کے چیئرمین مشتاق احمد جنجوعہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ و زیر اعظم چوہدری انوار الحق نے فروری میں مشتاق احمد جنجوعہ کو احتساب بیورو کا چیئر مین تعینات کیا تھا۔سابق چیئرمین احتساب بیورو مشتاق احمد جنجوعہ کو وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق کا دست راست سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تقرری کے خلاف دو الگ الگ درخواستیں آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھیں جنہیں 22 اکتوبر کو آزاد جموں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صداقت حسین راجہ اور جسٹس سردار لیاقت نے ابتدائی سماعت کے بعد مسترد کر دیا اور کہا کہ احتساب بیورو کے چیئرمین کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے جو ثبوت پیش کئے گئے وہ ناکافی ہیں۔ وہ ہر حوالے سے اس عہدہ کے قابل ہیں اور انہیں بطور چیئرمین احتساب بیورو برقرار رکھا جائے۔ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹر ی جنرل چوہدری طارق فاروق آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ میں چلے گئے۔ہائی کورٹ کے فیصلہ کے علاوہ مسلم لیگی رہنما نے مشتاق احمد جنجوعہ اور ایڈووکیٹ جنرل شیخ مقصود احمد کے خلاف توہین عدالت کا کیس بھی کیا۔ توہین عدالت کی درخواست میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فاروق نے کہا کہ دونوں شخصیات نے مشتاق جنجوعہ کی تقرری کیس کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کے دوران تحریری طور پر ان کے اور سپریم کورٹ کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل طارق فاروق اور ایک سماجی کارکن شاہد زمان نے مشتاق احمد جنجوعہ کی قانون کی ڈگری پر یہ اعتراض عائد کیا تھا کہ یہ ڈگری انہوں نے دوران سرکاری ملازمت بطور معلم محکمہ تعلیم حاصل کی تھی اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے انہوں نے محکمہ تعلیم سے عدم اعتراض کا سر ٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا تھا۔