عملی اقدامات،حالات کا تقاضا

تحریر : عرفان سعید


بلوچستان میں موسم سرما کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں بھی ان دنوں سرد پڑ چکی ہیں۔ صوبے میں عام انتخابات کے بعد بننے والی پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو مختلف چیلنجزکا سامنا رہا ہے بالخصوص امن وامان کی ابتر صورتحال کے باعث حکومت ہدف تنقید رہی ہے۔

 دس ماہ کے دورا ن دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں لسانی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جسے روکنے میں صوبائی حکومت ناکام نظر آئی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گزشتہ کئی دہائیوں سے حالات کو خراب کیا جا رہا ہے اور بھارتی مداخلت کے واضح ثبوت دنیا کے سامنے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے گزشتہ دنوں واشک کے دورے اور عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کہا کہ حکومت بلوچستان کی ترقی، خوشحالی اور امن کے قیام کیلئے پر عزم ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت ناراض بلوچوں کے ساتھ ڈائیلاگ کی پیشکش اور بندوق کے بجائے مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ وزیراعلیٰ کا رویہ ان قوتوں کیلئے بھی واضح پیغام ہے جو مسائل کے حل کیلئے تشدد کا سہارا لیتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچ عوام کو ماضی میں لا حاصل جنگوں نے کچھ نہیں دیا۔ یہ پیغام اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم اور سکالرشپ کے ذریعے روشن مستقبل کی طرف لے جانے کا عزم رکھتی ہے۔وزیراعلیٰ نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات کا اعلان کیا اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے خطیر رقوم کا اجرا بھی کیا۔ ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے وزیراعلیٰ کے دورہ کے حوالے سے بتایا کہ اپوزیشن رہنماؤں کی موجودگی میں واشک میں کئے گئے اعلانات حکومت کی شفافیت اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کی مثال ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں قیام امن اور ترقی کے نئے دور کے آغاز کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ میر سرفراز بگٹی کا یہ دورہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات کر رہی ہے جو بلوچستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی جانب سے طالبات کیلئے پنک سکوٹی سکیم اور دیگر اقدمات کئے گئے ہیں۔یہ حکومت کی جانب سے عوامی بہبود کیلئے کئے گئے عملی اقدامات کی بہترین مثال ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سکیم تعلیمی شعبے میں مثبت تبدیلیاں لائے گی اور خواتین کو خود مختار بنانے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو گی۔بلوچستان میں پہلی بار طالبات کیلئے اس قسم کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جوخواتین کی تعلیم اور معاشرتی ترقی کیلئے حکومتی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ 50 طالبات کو پنک سکوٹیز کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اپنے وعدوں کو فوراً پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کے فروغ کا عزم، جیسا کہ ایک سوئپر کی بیٹی کو سرکاری ملازمت ملنا ، یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ہر طبقے کو برابری کے مواقع فراہم کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ یہ اقدامات بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے امید کی کرن ہیں اور انہیں اعتماد دلانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی کی جانب سے خصوصی افراد کے کوٹے میں 100 فیصد اضافے اور دیگر اہم سہولیات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف حکومت کی فلاحی سوچ کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت عوامی مسائل سے آگاہ ہے اور ان کے حل کیلئے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ حکومت نے معذور افراد کیلئے نہ صرف ملازمت کے مواقع بڑھانے کا اعلان کیا ہے بلکہ انہیں سفری سہولیات اور مفت سفر جیسی مراعات فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے سرکاری عمارتوں میں ریمپ بنانے کا جو حکم دیا ہے وہ خصوصی افراد کی روزمرہ زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائے گا۔ترجمان شاہد رند کے مطابق حکومت بلوچستان کی کارکردگی کو مختصر وقت میں گورننس کے مسائل حل کرنے اور خصوصاً تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے سراہا جانا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں حکومت نے تعلیم کی بہتری کیلئے جو اقدامات کئے ہیں وہ بلوچستان کے مستقبل کو سنوارنے کی جانب اہم قدم ثابت ہوں گے۔ ترجمان حکومت بلوچستان کے بیان نے واضح کیا ہے کہ حکومت تعلیم کی بہتری کیلئے نہ صرف پالیسی بنا رہی ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے حکومت نے مقامی سطح پر کنٹریکٹ اساتذہ کی بھرتی کا فیصلہ کیا ہے۔ تقریباً چار ہزار اساتذہ کی تعیناتی ہوچکی ہے اور اگلے مرحلے میں مزید نو ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا جائے گا۔امتحانی نظام کو شفاف بنانے کیلئے حکومت نے اہم اقدامات کئے ہیں جن میں امتحانی مراکز میں سپرنٹنڈنٹس کی تعیناتی انتظامی افسران سے کروانے کا فیصلہ اور مراکز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنا شامل ہیں۔ نقل کے رجحان کو روکنے کیلئے ایف سی کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔

رواں ہفتہ بلوچستان اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد بھی منظور کی جس میں 9 مئی کے واقعات اور حالیہ احتجاجی سرگرمیوں کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ اس قرارداد کے ذریعے وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں انتشار پھیلانے کے الزام میں پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے۔سیاسی تجزیہ کار اس قرارداد کو سیاسی محاذ آرائی کی ایک نئی شکل قرار دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی کا مطالبہ اس سے پہلے بھی مختلف سطحوں پر سامنے آیا لیکن بلوچستان اسمبلی میں قرار دادکا منظور ہونا ایک بڑا واقعہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قرارداد سے سیاسی تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے اور یہ جمہوری اقدار کیلئے نیا چیلنج پیدا کرے گی۔قرارداد کی منظوری کے دوران سیاسی قیادت میں واضح تقسیم نظر آئی۔ مسلم لیگ (ن) کے میر سلیم کھوسہ نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا۔ سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نشاندہی کی کہ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگائی گئیں لیکن ان کے نتائج مثبت نہیں نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کا حل پابندیوں میں نہیں، مذاکرات میں ہے۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگائی گئی تو یہ ایک خطرناک روایت قائم کر سکتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر میر یونس عزیز زہری نے بھی یہی نکتہ اٹھایا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی گئی تو کل کو دیگر جماعتیں بھی اسی انجام سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ قرارداد نہ صرف سیاسی استحکام کو متاثر کرے گی بلکہ جمہوریت کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی قرارداد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملکی سیاست میں اختلافات کس حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ فیصلہ نہ صرف ملک میں سیاسی تقسیم کو بڑھا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔