قیادت منتشر،اتحاد پارہ پارہ

تحریر : عابد حمید


اسلام آباد احتجاج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا مورال قدرے نیچے نظرآرہا ہے۔ اختلافات اور الزامات کی بوچھاڑ ہے جس کا مرکزی قیادت کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس طرح کارکنوں کے جذبات کو ابھارا گیا اور اس کے بعد پسپائی اختیار کر لی گئی اس نے نہ پارٹی رہنماؤں کو دشوار صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔

 کارکن جو پہلے ہی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھے مزید بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہیں۔پارٹی میں اختلافات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب مرکزی رہنما بھی کھل کر بول رہے ہیں۔ وہ رہنما جو اس سے قبل پہلے درجے کی قیادت میں شمار ہوتے تھے اور بعدازاں انہیں عام انتخابات کے بعد تنہا چھوڑ دیاگیا اور اب وہ دوسرے درجے کی قیادت میں شمار ہوتے ہیں وہ کھل کر تنقید کرتے نظرآرہے ہیں۔ ان میں شوکت یوسفزئی، علی محمد خان اورشہریار آفریدی جیسے رہنما شامل ہیں۔ تیمور جھگڑاکا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔ عاطف خان اور شہرام ترکئی بھی وہ رہنما ہیں جنہیں اب اپنا وجود منوانے کیلئے پارٹی میں تگ ودو کرناپڑرہی ہے۔24 نومبر کے احتجاج کے بعد سے پی ٹی آئی پر پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے۔ قیادت کے ساتھ ساتھ ورکرز کا مورال بھی ڈاؤن ہے کارکن اسلام آباد سے پارٹی قیادت کے دوبارہ غائب ہونے سے حیران وپریشان ہیں۔ جس جم غفیر کے ساتھ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی اسلام آباد میں داخل ہوئے کارکنوں کو امیدپیدا ہوچلی تھی کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے لیکن آخر میں جو کچھ ہوا وہ اچانک اور غیر متوقع تھا۔غیر متوقع اسی لئے کہ آخری وقت تک کارکنوں نے علی امین گنڈاپور کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔وہ بشریٰ بی بی کے ساتھ مانسہرہ پہنچے جہاں انہوں نے پریس کانفرنس کی لیکن یہ پریس کانفرنس بھی اعتماد سے خالی نظرآئی۔ اس کے بعد پارٹی قیادت کی جانب سے جو دعوے کئے گئے وہ بھی انتہائی حیران کن تھے کچھ رہنماؤں کی جانب سے ڈھائی سو افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیاگیا۔وزیراعلیٰ نے تو سینکڑوں افراد کی شہادت کا اعلان کرکے کارکنوں کو اور بھی گرما دیالیکن کوئی بھی رہنما اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جو کارکن اسلام آباد میں جاں بحق ہوئے ان کی نماز جنازہ اداکردی گئی اور ان کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی گئیں لیکن پی ٹی آئی کی قیادت ان’’ سینکڑ وں‘‘ افراد کی نمازجنازہ کی کوئی ویڈیو فراہم نہیں کر سکی جن کی ہلاکت کے دعوے کئے گئے۔ سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو پی ٹی کا کوئی ہمسر نہیں۔  کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس پی ٹی آئی جیسا متحرک سوشل میڈیا سیل موجود نہیں۔ اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ بڑی تعداد میں ہلاکتیں تو ثابت نہیں کی جاسکیں لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکی جانب سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کیلئے ایک ایک کروڑ روپے امداد کا اعلان ضرور کردیاگیا۔سیاسی جلسے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو یہ پیسے سرکاری خزانے سے دیئے جائیں گے جس پر اپوزیشن جماعتیں شور کررہی ہیں۔ زخمیوں کو بھی سرکاری خزانے سے معاوضہ دیاجائے گا۔صوبائی کابینہ نے اس فیصلے کی منظوری دے دی ہے لیکن اسے اچھی روایت نہیں کہاجاسکتا۔ اس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے بھی راستہ کھول دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے یہ فیصلہ کارکنوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کیاگیا ہے لیکن اگر سرکاری خزانے سے یہ پیسے دیئے بھی گئے تو اس بات کے امکانات ہیں کہ مستقبل میں یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے۔

اس احتجاج کے بعد جو بات کھل کر سامنے آئی وہ پاکستان تحریک انصاف کے اندر اختلافات اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔24 نومبر کے احتجاج سے کئی ماہ قبل انہی سطور میں بتادیا گیاتھا کہ پارٹی قیادت اور کارکنوں کے مابین خلیج حائل ہوچکی ہے۔ کارکن قیادت پر کسی صورت اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ یہی صورتحال پارٹی قیادت کی بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر اعتمادکرنے کو تیار نہیں۔ اسلام آباد احتجاج کے بعد جس طرح کور کمیٹی کے اجلاسوں میں پی ٹی آئی کی قیادت ایک دوسرے پر طنز کے نشتر چلاتی رہی اور جس طرح سوشل میڈیا پر مرکزی رہنماؤں کی جانب سے بیرسٹر گوہر اورعلی امین گنڈاپور سے سوالات پوچھے گئے اس نے پارٹی کے اندر اختلافات کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے مابین بھی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی کی پشاور آمد سے علی امین گنڈاپور کو امید تھی کہ پارٹی کارکنوں کے اندر ان کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہوگی اور ان کے فیصلوں کو تقویت ملے گی لیکن ہوا اس کے الٹ۔ بشریٰ بی بی نے جس طرح احتجاجی مارچ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور ڈی چوک جانے کی ضد کی اس نے پارٹی کومزید منتشر کیا۔اب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور لاکھ کہیں کہ ان کے بشریٰ بی بی سے اختلاف نہیں لیکن بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کی ترجمان اور ان کی بہن کی جانب سے جوبیانات سامنے آرہے ہیں وہ کوئی اور ہی کہانی سنارہے ہیں۔ بشریٰ بی بی کی ترجمان مشعال یوسفزئی کی جانب سے دیئے گئے بیانات کو دیکھا جائے تو ڈی چوک نہ جانے اور وہاں سے اچانک پسپائی کا ملبہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر ڈال دیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے مشعال یوسفزئی کو فوراً کابینہ سے باہر کردیاگیا۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت شدید اضطراب کاشکار نظرآرہی ہے۔ قیادت منتشر ہے اور اتحاد پارہ پارہ۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے کہاگیا ہے کہ احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن اس کیلئے لائحہ عمل تبدیل کیاجائے گا،لیکن یہ نہیں بتایاکہ لائحہ عمل کیاہوگا۔ایک بات طے ہے کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی اگردوبارہ اسلام آباد کا رخ کرتی ہے تو اس بار کارکنوں کی جانب سے ان پر اعتماد کرنا بہت مشکل ہوگا۔

24 نومبر کو ہونے والے احتجاج نے بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں کمی تو نہیں کی البتہ اضافہ ضرور کردیا ہے اوران پر مزید کیس بنانے اور ریاست کی جانب سے مزید بداعتمادی کیلئے فضا ہموار کردی ہے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کو اس بات پر بھی تنقید کا سامنا کرناپڑرہاہے کہ ایک طرف وہ اسلام آباد پر چڑھائی کررہے تھے تو دوسری طرف ضلع کرم قتل وغارت گری کی آگ میں جل رہاتھا۔جس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت اسلام آباد کے قریب آنکھ مچولی میں مصروف تھی اس وقت کرم میں دکانیں اور گھر جلائے جا رہے تھے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو آئے روز جلسے جلوس اور احتجاج کو چھوڑ کر اپنے صوبے پر توجہ دینی چاہیے ورنہ معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے اور اگرابھی گورنر راج نافذ نہیں کیا گیا تو مستقبل میں اس کا جواز پیدا ہو جائے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔