اقدامات،اعلانات اور زمینی حقائق

تحریر : طلحہ ہاشمی


پیپلز پارٹی نے گزشتہ دنوں اپنا 57واں یوم تاسیس منایا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 150 سے زائد مقامات پر جلسوں یا اجتماعات سے براہ راست خطاب کیا۔

 بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں کئی موضوعات کا احاطہ کیا، ان میں سیاسی عدم استحکام، تحریک انصاف کا رویہ، خیبرپختونخوا میں گورنر راج، سیاست میں پیپلز پارٹی کی تاریخ اور موجودہ کردار، معیشت، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضرورت، مہنگائی وغیرہ شامل تھے۔ خیبرپختونخوا میں گورنر راج پر انہوں نے یہ تو کہا کہ وفاقی حکومت نے ان سے رابطہ نہیں کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر رابطہ کیا گیا تو فیصلہ اتفاق رائے سے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے سیاسی استحکام کے لیے گاجر اور ڈنڈے‘ دونوں کے استعمال کی تجویز دی اورخیبرپختونخوا کی حکومت کو تاریخ کی غیر ذمہ دار ترین حکومت قرار دیا۔ انہوں نے حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کی البتہ زراعت پر ٹیکس کو کسانوں کو معاشی قتل قرار دیا۔ سب سے اہم نکتہ دہشت گردی کے خلاف’’ نیشنل ایکشن پلان 2‘‘ کا دیا۔ بلاول بھٹو نے پانی کی تقسیم پر بھی بات کی اور حکومتی اقدامات کو متنازع قرار دیا اور واضح کیا کہ اس سے وفاق اور صوبوں میں مسائل میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کو اتفاق رائے حاصل کرنے کی تجویز پیش کی۔ بلاول بھٹو نے مدبر سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا۔ دیکھا جائے تو بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے مستقبل کا نقشہ کھینچ دیا، انہوں نے سیاست میں پیپلز پارٹی کی قربانیوں کا بھی ذکر کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو خاندان جیسی قربانیاں کسی نے نہیں دیں، بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں پی ٹی آئی کے غیرجمہوری قوتوں سے مذاکرات کے مطالبے کا بھی ذکر کیا اور تنقید کی لیکن کیا پیپلز پارٹی اس مشورے پر خود بھی عمل کرپائے گی؟

اب بات کرتے ہیں سندھ کلچر ڈے کی جو سندھ سمیت ملک بھر میں اور بیرون ملک بھی منایا گیا۔اس موقع پر ریلیاں نکالی گئیں، لوگوں نے سندھی ٹوپیاں اور اجرک زیب تن کیں، مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا جن میں موسیقی اور آتش بازی بھی شامل تھی۔ سندھ کی تہذیب کوئی 5000 سال پرانی ہے اور دنیا میں اپنا مقام رکھتی ہے۔اسی نام سے موسوم دریائے سندھ لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے لیکن اگر سندھ کے زرعی رقبے کا موازنہ کریں تو ہزاروں، لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر اور بے آب ہے۔ صوبہ سندھ کے اس بنجر رقبے کو آباد کرنے کے لیے اب جدت اپنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پانی کا انتظام کرے، جدید مشینری لائے، بنجر زمینوں کو آباد کرے اور سندھ دھرتی کا ہم پر جو قرض ہے اس کا کچھ نہ کچھ نعم البدل مہیا کرے، عوام خوشحال ہوں گے تو تہوار منانے کا مزا اور بھی بڑھ جائے گا۔

اب کچھ ذکر کرتے ہیں صوبے میں جرائم کی صورتحال کا۔ اگلے دنوں کراچی میں دو اندوہناک واقعات رونما ہوئے۔ پہلے واقعے میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک اور نوجوان جاں بحق ہو گیا۔مقتول کی 12 دسمبر کو شادی تھی۔دوسرا واقعہ سپر ہائی وے پر ڈمپر کی ٹکر سے کراچی کے تاریخی عبداللہ گرلز کالج کے پروفیسر طارق اور ان کی اہلیہ کی موت واقع ہو گئی۔ کراچی کے ان دونوں مسائل کا ہم بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن حکومت کے متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ صرف نومبر میں 5افراد کو قتل کیا گیا۔ شہر میں رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر اموات کی تعداد 110کے قریب ہوچکی ہے اور پکڑے چند ہی ڈاکو گئے ہیں۔ پولیس اور حکومت اقدامات کے اعلانات کرتی ہے لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔دن میں شہر کی سڑکوں پر گشت کریں تو پولیس موبائلیں، موٹرسائیکل سوار پولیس کے جوان آپ کو نظر آجائیں گے لیکن جوں جوں رات گہری ہوتی جاتی ہے پولیس سڑکوں سے غائب ہوتی جاتی ہے حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ رات کو پولیس ناکے اور گشت میں اضافہ ہو، خاص طور پر ان علاقوں میں جو ڈاکوؤں کے لیے جنت بنے ہوئے ہیں۔ دوسرا واقعہ ڈمپر سے ہلاکت کا ہے جو ہفتے کے روز پیش آیا۔ پروفیسر طارق کا عزیز آباد میں گھر تھا، مکان کی تزئین و آرائش کی وجہ سے وہ کچھ عرصے سے سپر ہائی وے سے متصل گلشن معمار میں رہائش پذیر تھے، تزئین و آرائش مکمل ہونے کے بعد اب وہ دوبارہ اپنے گھر منتقل ہورہے تھے، سامان ٹرک سے بھجوا دیا تھا اور اہلیہ کے ساتھ موٹرسائیکل پر عزیز آباد جارہے تھے کہ تیز رفتار ڈمپر نے دونوں کو کچل دیا۔ لواحقین کا کہنا یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کے پاس 20لاکھ کے قریب رقم اور زیورات وغیرہ موجود تھے، حادثے کے بعد سے وہ غائب ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حادثہ ہوا، دو انسان مرگئے اور بظاہر کچھ بے حس لوگ ان کا مال و اسباب لے کر چلتے بنے۔ پولیس کو زیورات یا رقم کا علم نہیں۔ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا پولیس کو اسے حادثہ قرار دے کر داخل دفتر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اگر واقعی کسی نے رقم چرائی ہے تو اسے گرفتار کرکے سزا دلوانی چاہیے۔ ایسے بے حس افراد کو کسی صورت بخشا نہیں جانا چاہیے۔ دوسرے ڈمپر اور بھاری گاڑیوں کے چلنے کے اوقات کار پر ٹریفک پولیس بالکل بھی عمل نہیں کرارہی ہے۔ اعلیٰ حکام اور حکومت کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے ورنہ اسی طرح حادثات ہوتے رہیں گے، لوگ مرتے رہیں گے، ہم رپورٹ کرتے رہیں گے اور پولیس، ٹریفک پولیس اور انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔