سیاسی گند کے خاتمہ کا عزم مریم نواز کا جارحانہ انداز کیا ظاہر کرتا ہے؟

تحریر : سلمان غنی


اسلام آباد احتجاجی مارچ کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف پر بحرانی کیفیت طاری ہے اور پارٹی کے ذمہ داران جہاں ڈی چوک احتجاج کے حوالے سے پیش رفت کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں وہاں ان کی جانب سے احتجاجی عمل کے دوران ہلاکتوں پر بھی اختلافات واضح ہیں۔

 اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو جیل سے باہر کی قیادت احتجاج پر پسپائی اختیار کرتی نظر آ رہی ہے اور احتجاج کا عمل ایوانوں میں منتقل کرنے کا مؤقف ظاہر کیا جارہاہے۔ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کے بعد بیان دیا تھا کہ وہ اپنے بارہ کارکنوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ دوسرا، انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے ہدایت دی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جا کر یہ معاملہ اٹھائیں اور احتجاج کریں۔ بیرسٹر گوہر نے جہاں گولی چلانے کی مذمت کی وہاں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گولی جس طرف سے بھی چلی، جس نے بھی چلائی اس کی مذمت کرتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ لیکن بیرسٹر گوہر سے ملاقات کے دوسرے ہی روزبانی پی ٹی آئی نے بہنوں اور وکلا سے ملاقاتوں میں جو موقف دیا وہ اس سے یکسر مختلف تھا ،جس میں بانی پی ٹی آئی نے کارکنوں کو اگلے مرحلے کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بشریٰ بی بی کو انہوں نے ہی اسلام آباد جانے کو کہا تھا اورہدایت تھی کہ احتجاج کیسے ہونا چاہیے۔ ان کی جانب سے آنے والے اس مؤقف کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی احتجاج پر متضاد بیانات کا شکار ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے مزاحمتی ایجنڈا پر گامزن ہیں۔ وہ اپنے ان ارادوں کا اظہار اس طرح بھی کرتے نظر آ تے ہیں کہ ان کے ٹویٹر پیغام میں کہا گیا ہے کہ حقیقی آزادی کی تحریک انتقامی ہتھکنڈوں سے رکنے والی نہیں، نہ میں پیچھے ہٹوں گا اور نہ قوم، اگرہم سے ہار مان لی تو پاکستانی قوم کا کوئی مستقل نہیں۔انہوں نے سپریم کورٹ سے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسلام آباد کے واقعہ میں ملوث عناصر کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ بانی پی ٹی آئی کے اس ردعمل کے بعد پارٹی کے اندر مفاہمتی اور سیاسی ایجنڈا پر گامزن ذمہ داران کے مؤقف کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے خصوصاً پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کے بیان پر عدم اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مفاہمتی ایجنڈا پر گامزن پارٹی ذمہ داران کا جماعت میں کیا مستقبل ہے۔ بہرکیف یہ مانا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی میں وہی پالیسی چلے گی جو بانی چاہیں گے اور بانی پی ٹی آئی کی سیاست ان کے جارحانہ طرز عمل اور احتجاجی سیاست سے عبارت ہے۔ مگر ماضی میں ان کی یہ حکمت عملی اس لیے کارگر اور نتیجہ خیر رہی کہ انہیں بعض عناصر کی تھپکی اور آشیر باد حاصل تھی، مگر اب ایسی کیفیت نظر نہیں آ رہی؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے حالات پی ٹی آئی کے لیے اچھے نہیں اور ان کے پارٹی ذمہ داران اور مظاہرین کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جاتا نظر آ رہا ہے۔یہ تنائو اور ٹکرائو خود سیاسی محاذ پر خطرناک بنتا جا رہا ہے اور ماہرین تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رجحان پی ٹی آئی اور جمہوریت کے مستقل کے حوالے سے پریشان کن ہے۔ ان کے مطابق جمہوریت اور جمہوری عمل میں احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن یہ ہمیشہ آئین ، قانون کے تابع ہوتا ہے، لیکن نئے حالات میں سیاست میں تشدد کا رجحان اور ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑنے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سیاسی ایجنڈا کی بجائے انتقامی ایجنڈا پر گامزن ہیں جو ان کی جماعت کے حوالے سے خطرناک ہے اور ملک میں جاری جمہوریت اور جمہوری عمل پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت احتجاجی سیاست میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے اور ساتھ چلنے کو تیار نہیں، اس لئے کہ سیاسی جماعتیں احتجاج میں حدود و قیود کی پابند ہوتی ہیں لیکن پی ٹی آئی اپنے احتجاج کو مرنے مارنے کی انتہائوں پر لے آئی ہے۔ فیصلہ تحریک انصاف نے کرنا ہے کہ آنے والے حالات میں اسے کیسے چلنا ہے، کیونکہ جمہوری ملکوں میں قومی سیاست قومی مفادات کے تحفظ سے منسلک ہوتی ہے۔ اگر کوئی جماعت یہ سمجھ لے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کو ریاست کے خلاف بروئے کار لا کر تبدیلی کو یقینی بنا لے گی تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ تحریک انصاف کے پاس عوامی مقبولیت ہے لیکن ریاست کے پاس طاقت ہے اور وہ اپنی طاقت پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔

ادھرپنجاب کے سیاسی محاذ پر وزیراعلیٰ مریم نواز جہاں محکمانہ کارکردگی میں اضافہ کیلئے اصلاحات کے ایجنڈا پر گامزن ہیں وہاں وہ سیاسی محاذ پر حکومتی مخالفین خصوصاً پی ٹی آئی پر برستی ہوئی بھی نظر آ رہی ہیں۔ ایکسپو سنٹر میں ’’ستھرا پنجاب‘‘ پروگرام کی افتتاحی تقریب کا مقصد تو پنجاب بھر میں گندگی کا خاتمہ اور صفائی کا عمل تھا جس حوالے سے پنجاب کے وزیر بلدیات ذیشان دن رات سرگرم نظر آ رہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس پروگرام کے افتتاح پر سیاسی گند کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں جلائو گھیرائو پر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم بھی احتجاج کرتے رہے ہیں مگر ہمارے احتجاج میں کبھی گملا نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے اسلام آباد احتجاج کے حوالے سے پولیس اور رینجرز کے جوانوں کا خصوصی ذکر کیا۔ ان کے خطاب سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہیں اور انہیں سیاسی اور عوامی محاذ پر ایکسپوز کرنے کیلئے سرگرم ہیں اور اس کیلئے ہر ممکن اقدامات کا استعمال چاہتی ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حوالے سے وزیراعلیٰ مریم نواز زیروٹالرنس پر کار بند ہیں۔اس سے کیا سیاسی حالات میں بہتری آ سکے گی، یہ دیکھنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں ٹکرائو اور تنائو سے حالات میں بہتری تو ممکن نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس سے سسٹم مضبوط نہیں ہو گا۔ سسٹم کی مضبوطی سیاسی جماعتوں کے ذمہ دارانہ طرز عمل سے ممکن ہوتی ہے۔ سیاست اگر خدمت، محبت اور تعلق کا نام ہے تو سیاسی جماعتوں کو اپنی سرگرمیوں کو انہی کے تابع منظم کرنا چاہئے۔ اگر سیاسی جماعتیں خود قانون کو ہاتھ میں لیں گی اور امن و امان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گی تو ریاست کو اپنی رٹ قائم رکھنے کیلئے اقدامات تو کرنا ہوں گے۔

 ’’ستھرا پنجاب‘‘ کے حوالے سے حکومت پنجاب کے اقدامات سے پنجاب میں صفائی کا نظام تو بہتر ہو گا لیکن اس عمل کو منظم اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے مقامی حکومتوں کی ضرورت مسلمہ ہے۔ جمہوری ملکوں اور معاشروں میں جمہوریت کی مضبوطی کی بڑی وجہ ان کا بلدیاتی سسٹم ہوتا ہے جو بااختیار ہونے کے ساتھ مؤثر بھی ہوتا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومتیں مرکز سے ملنے والے اختیارات اضلاع تک منتقل کرنے اور مقامی حکومتوں کے سسٹم کو بروئے کار لانے کو تیار نہیں؟

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔