ڈی چوک اور پی ٹی آئی

تحریر : عدیل وڑائچ


26 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کا جناح ایونیو پر احتجاج اچانک ختم ہوا اور فائنل کال دینے والی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کارکنوں کو چھوڑ کر خیبر پختونخوا چلے گئے۔

 ڈی چوک احتجاج کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں دراڑیں اور بھی واضح ہو گئی ہیں حتیٰ کہ بانی پی ٹی آئی کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ دو دسمبر کو بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ان کی قانونی ٹیم اور پارٹی کے اہم رہنماؤں بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجا اور فیصل چوہدری نے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں کئی انکشافات ہوئے۔ معلوم ہوا کہ بانی پی ٹی آئی پارٹی کی موجودہ صورتحال پر سخت ناراض ہیں۔ انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو اس وقت حیران کر دیا جب تینوں شخصیات یہ سمجھ رہی تھیں کہ وہ باہر کی صورتحال سے بانی پاکستان تحریک انصاف کو آگاہ کریں گے مگر سابق وزیر اعظم حیران کن طور پر صورتحال سے پہلے ہی آگاہ تھے۔ انہیں معاملات کا پہلے سے علم تھا ،جیسے پارٹی سے ہٹ کر انہیں کوئی صورتحال سے آگاہ رکھے ہوئے ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کہا تھا کہ احتجاج سنگجانی میں ہونا ہے تو ڈی چوک کیوں لے کر گئے؟ احتجاج کے معاملے پر متحدہ محاذ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو ڈی چوک نہیں جانا چاہئے تھا، اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو اس کاذمہ دار کون ہوتا؟ بشریٰ بی بی کو اسلام آباد انتظامیہ کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا گیا؟ بانی پی ٹی آئی نے پنجاب کی لیڈرشپ پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ پنجاب کی قیادت بار بار دھوکہ کیوں دے رہی ہے ؟ جب بھی احتجاج جیسی صورتحال آتی ہے پنجاب کی قیادت کا رویہ مسلسل تشویشناک ہے۔ انہوں نے پارٹی میں گروپنگ پر بھی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر پارٹی میں لڑائی جاری رہی تو کچھ لوگوں کو باہر کرنا ہو گا۔ اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم پارٹی چلانے اور فیصلہ سازی کے معاملے پر تحریک انصاف کی قیادت سے نا خوش ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ڈی چوک پر ہونے والی مبینہ ہلاکتوں کے معاملے کو ڈیل کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ڈی چوک میں ہونے والے واقعے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ایسے متضاد اور غیر حقیقی بیانات داغے کہ ان کا اصل مدعا بھی متنازع ہو گیا۔ 

یہ بات بھی درست ہے کہ ڈی چوک پر آنا پاکستان تحریک انصاف کا بڑا بلنڈر تھا ، اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ڈی چوک پر آنے کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے پاس تو کوئی پلان تھا ہی نہیں۔ انہوں نے جو پریشر لوگوں کی بڑی تعداد کے ذریعے اٹک کے پل سے بنانا شروع کیا تھا اسے سیاسی طور پر کیش کرانے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے کارکنوں کو مشکلات کی ایک اور دلدل میں دھکیل دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ سنگجانی میں دھرنہ دے دیتے تو حکومت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار تھی۔ یہی وہ موقع تھا جب پاکستان تحریک انصاف حکومت کو بات چیت کی میز پر لا کر اپنا مؤقف سامنے رکھ سکتی تھی‘ مگر ریڈ لائن کراس کرکے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے یہ موقع گنوا دیا۔ کارکن بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کے رویے سے بھی بہت مایوس ہوئے۔ کارکنوں کو مشکل میں ڈال کر قیادت کا خود مارگلہ کی پہاڑیوں کے راستے خیبر پختونخوا پہنچ جانا ان کیلئے کسی سبق سے کم نہیں تھا۔ ڈی چوک احتجاج پر بانی پی ٹی آئی ، بشریٰ بی بی ، بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور سمیت پاکستان تحریک انصاف کے 96 افراد کے نا قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتار ی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکن گرفتار ہیں اور قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے 676 گرفتار کارکنوں کا چار روز ہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا ہے۔ 

پاکستان تحریک انصاف بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کارکنوں پر گولیاں برسائی گئیں اور پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پہلے سینکڑوں کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا جو سچ ثابت نہ ہو ا۔اس کے بعد تحریک انصاف اب اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ کر 12 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کر رہی ہے۔ خود بانی پی ٹی آئی نے پارٹی رہنماؤں سے بات چیت میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی قیادت نے اس معاملے کو مس ہینڈل کیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے اداروں سے متعلق مہم سامنے آئی تو وزارت داخلہ نے اس معاملے پر وضاحت دی۔ وزارت داخلہ نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ بیلاروس کے صدر اور اعلیٰ سطحی چینی وفد کے دورے کے پیش نظر پی ٹی آئی کو متعدد بار احتجاج مؤخر کرنے کا کہا گیا ، پی ٹی آئی کی احتجاج جاری رکھنے کی ضد پر انہیں سنگجانی کے مقام کی تجویز دی گئی ، بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقاتوں سمیت پی ٹی آئی کو غیر معمولی مراعات دی گئیں مگر اس کے باوجود تحریک انصاف نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی ۔ وزارت داخلہ کے مطابق پرتشدد مظاہرین نے پشاور تا ریڈ زون ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران اسلحے کا استعمال کیا۔ اس احتجاج میں غیر قانونی افغان شہری بھی شامل تھے جنہوں نے سیکورٹی اہلکاروں پر حملے بھی کئے۔ وزارت داخلہ نے واضح کیا کہ پاک فوج آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں تعینات تھی مگر اس کا مقصد اہم تنصیبات اور غیر ملکی سفارتکاروں کی حفاظت تھا ۔ پاک فوج کا اس پرتشدد ہجوم سے براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ وزارت داخلہ نے یہ بھی واضح کیا کہ مظاہرین سے نمٹنے کیلئے تعینات پولیس اور رینجرز نے بھی اسلحے کا استعمال نہیں کیا۔ کئی روز گزرنے کے باوجود ملکی سیاست میں ڈی چوک کا احتجاج آج بھی زیر بحث ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر نیا بیانیہ بنا رہی ہے وہیں حکومت صورتحال پر اپنا مؤقف پیش کر رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نئی کال کے دعوے کر رہی ہے مگر صورتحال بتا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو دوبارہ اسلام آباد کا رخ کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

سیاسی بحران ٹل گیا

آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔