علم کا سمندر (تیسری قسط )
میں نے کہا: ’’ ارے اللہ کے حبیبﷺ! کیا کسی کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ آپﷺ کے برابر کھڑا ہو، کیونکہ آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔آپﷺ ان کے اس جواب پر حیران ہوئے۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ، اس کے علم و فہم میں اضافہ فرما۔
ایک اور حدیث سے ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ عبداللہ بن عباسؓکس طرح اپنا وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گزارتے تھے۔ سعید بن جبیرؒ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں ’’ ایک مرتبہ میں نے اپنی خالہ اُم المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر قیام کیا۔ میں نے آپﷺ کیلئے ایک برتن میں پانی رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ یہ پانی کس نے رکھا ہے‘‘؟ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا: عبداللہؓ نے۔ آپ ﷺ نے اللہ سے دعا کی ’’ اے اللہ! عبداللہ کو حکمت و دانائی عطا فرما‘‘۔
نبی کریم ﷺ اکثر عبداللہ بن عباسؓ کو نصیحت کرتے اور عبداللہ ؓ اس پر پورا پورا عمل کرتے۔ ایک دن وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ اے لڑکے! میں تجھے چند ایسی باتیں نہ بتائو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تجھے نفع دے گا۔اللہ ( کے احکام) کی حفاظت کر، اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کی طرف دھیان کر، تو اس کو سامنے پائے گا۔ اللہ کو آسانیوں میں یاد رکھ، وہ تجھے تنگیوں میں یاد رکھے گا۔ جب تو مانگے تو صرف اللہ سے سوال کر۔ جب تو مدد طلب کرے تو صرف اللہ سے مدد طلب کر۔ اگر تمام مخلوق تمہیں کوئی چیز دینا چاہے، وہ نہیں دے سکتی، اگر اللہ نے وہ تمہاری قسمت میں نہیں لکھی۔ اگر تمام مخلوق اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کسی چیز سے محروم کر دے، تم سے کسی چیز کو روک لے، اور اللہ نے وہ تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے تو وہ نہیں روک سکتی۔ صبر میں بہت بھلائی ہے، اگرچہ تم اس کو ناپسند کرتے ہو۔ بے شک اللہ کی مدد صبر کی وجہ سے آتی ہے۔ کشادگی رنج و مشقت کے ساتھ ہوتی ہے اور تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کیلئے بار بار یہ دعا کی: ’’ اے اللہ! عبداللہؓ کو قرآن کا مفسر بنا اور دین میں سمجھ عطا فرما‘‘۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ انہیں پاس بلا کر بٹھا لیتے اور فرماتے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک مرتبہ آپؓ کو بلایا، آپؓ کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور آپؓ کے منہ میں لعاب مقدس ڈالا۔ پھر سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی طرح دعا کی جس طرح اللہ کے رسولﷺ نے کی تھی کہ اسے اللہ، اسے مفسر قرآن اور دین میں سمجھ والا بنا دے!
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعائوں کو قبول فرمایا اور عبداللہ ؓ کو بلند علمی مقام عطا کیا۔ آپؓ کے علم کا اعتراف صحابہ کرامؓنے کیا۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہؓ کو کثرت علم کی وجہ سے ’’ بحرالعلم‘‘ (علم کا سمندر) کا خطاب دیا۔ کسی نے طائوسؒ سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کے بڑے بڑے صحابہ کرام کو چھوڑ کر ایک کمر عمر آدمی سے علم حاصل کرتے ہیں۔ طائوسؒ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کے ستر صحابہ کرامؓ کو دیکھا کہ جب ان میں کسی مسئلہ کے متعلق اختلاف ہو جاتا تو وہ سب آپ کی طرف رجوع کرتے۔
سید نا عمر ؓ کے پاس جب کوئی ایسا مسئلہ آ جاتا جس کو آپؓ حل نہ کر سکتے تو عبداللہ ؓ سے فرماتے کہ ہمیں یہ مسئلہ درپیش ہے، میرے خیال میں آپؓ ہی اس مشکل مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں، عبیداللہ بن عتبہؓ فرماتے ہیں میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو رسول اللہ ﷺکی احادیث کو آپؓ سے زیادہ جانتا ہو۔
عبداللہ بن عباس ؓ علم کا ایسا سرچشمہ تھے کہ کسی مسئلہ کا علم یا حل ان سے مخفی نہیں تھا۔ ایک مرتبہ سید نا عمر ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اور ساتھ ہی عبداللہ بن عباسؓ کو بھی بلایا۔ پھر صحابہ کرام ؓ سے پوچھا: ’’اِذَا جآء نَصؐرُاللّٰہِ وَ الْفَتْحُ‘‘ اس صورت کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟۔ انہوں نے جواب دیا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا ہے کہ جب اللہ آپؐ کو فتح سے ہمکنار کرے تو اس سے بخشش اور مغفرت کی دعا کرنا، صحابہ کرام ؓ نے جب اپنی یہ رائے دے دی تو پھر سید نا عمر ؓ نے عبداللہ بن عباسؓ سے کہا: ’’ اے عبداللہ! تم اس صورت کے متعلق کیا جانتے ہو‘‘؟ عبداللہ بن عباسؓ نے کہا: ’’ اے امیر المومنین! اس صورت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ کو ان کی موت سے آگاہ کر رہا ہے۔’’اِذَا جآء نَصؐرُاللّٰہِ وَ الْفَتْحُ‘‘ سے مراد فتح مکہ ہے اور (وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فیْ دیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا) آپﷺ کی موت کی علامت ہے‘‘۔سید نا عمرؓ اور دیگر صحابہ کرامؓسورہ نصر کی اس تفسیر سے حیران ہو گئے۔ ابن عباس ؓ کے علمی مقام، فقیہی مرتبے اور ایمانی بصیرت نے انہیں اس تفسیر کو درست ماننے پر مجبور کردیا۔
عبداللہ بن عباسؓکو یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہو گیا تھا۔ وہ بچپن سے علم کی بہت زیادہ لگن اور شوق رکھتے تھے جس چیز کا آپؓ کو پتہ نہ ہوتا، اس کے متعلق اہل علم سے بار بار پوچھتے، جب تک دل و دماغ مطمئن نہ ہو جاتا، اپنا سوال ترک نہ کرتے۔ رسول اللہﷺ کی زندگی میں آپ کے ساتھ سائے کی طرح رہے۔ آپﷺ سے ہر ایک بات پوچھتے، جب نبی کریمﷺ اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو بعد میں صحابہ کرام ؓ سے اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ عبیداللہ بن ابی رافع ؓ فرماتے ہیں کہ عبداللہ ؓ ابو رافعؓ کے پاس تشریف لائے اور ان سے نبی کریمﷺ کے متعلق پوچھا کہ آپ ﷺ نے فلاں دن کیا کیا؟۔ ابو رافعؓ نے جو جواب دیا، اسے فوراً لکھ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو عبداللہ بن عباس ؓ نے ایک انصاری سے کہا: ’’ آئو چلیں! رسول اللہ ﷺکے اصحابؓ سے ( آپ ﷺ کی باتیں) پوچھتے ہیں۔ وہ آج کثیر تعداد میں موجود ہیں‘‘۔(جاری ہے)