مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم


قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سربراہی میں 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ،دو حصوں پر مشتمل وطن عظیم کو بڑی تگ و دو اور قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔

دونوں حصوں میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا جس کی وجہ سے انتظامی امور کی ادائیگی میں مسائل پیدا ہوتے تھے چونکہ پاکستان مسلم آبادی کے حصوں پر قائم ہوا تھا اس وجہ سے ہندو رہنمائوں کی ذہنیت ابتداء ہی سے پاکستان مخالف تھی۔ انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان جو 3اطراف سے بھارت میں گھرا ہوا تھا کو الگ کرنے کی سازش شروع کر دی،چوتھی سمت سمندر تھا ۔ پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی جس کے مطابق ملک کی آبادی 7 کروڑ 58 لاکھ42 ہزار تھی جس میں سے سابقہ مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ تھی۔بھارت نے مسلمانوں کے اس حصے کو ختم کرنے کی گہری سازش کیلئے کچھ بنگالیوں کو بھی ساتھ ملایا اورسابقہ مغربی پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔

انڈیا کی پہلی سازش 

بنگال کو بھی پورے پاکستان میں شامل نہیں  ہونے دیا گیا،جو علاقے ’’3جون منصوبہ 1947ء ‘‘ میں پاکستان میں شامل ہونے کیلئے طے ہوئے تھے ،ان میں سے سلہٹ کا ایک بڑا حصہ بھارتی سازش کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں شامل نہ ہو سکا۔ گویا قیام پاکستان سے قبل ہی مشرقی پاکستان کو توڑنے کی سازش کی ابتدا ء ہو گئی تھی ۔ 1954ء میں اگر تلہ سازش کیس تیار ہوا جس میں کئی اہم رہنما شامل تھے۔جسٹس ایس اے رحمن مشرقی پاکستان بائونڈری کمیشن کے رکن تھے۔ 14اگست 1947ء سے قبل جب 3جون منصوبہ کے مطابق کی میٹنگ میں دستخط ہونے لگے تو مشرقی سلہٹ  کے کئی اضلاع  اس طے شدہ نقشے سے نکال دئیے گئے تھے ۔ جسٹس صاحب نے بتایا کہ ہمیں قائداعظم ؒنے فرمایا تھا کہ جو بائونڈری بھی طے ہو جائے دستخط کر دیں ورنہ شاید اس کے بعد پاکستان نہ بنے۔ حضرت قائداعظمؒ نے ہمیں پہلے ہی ہدایت دی تھی کہ جو فیصلہ ریڈ کلف دیں گے منظور کر لیا جائے گا۔ 11اگست 1947ء کو جسٹس محمد اکرم اور میں (جسٹس ایس اے رحمن) نے ان پر نقشوں کی مدد سے واضح کیا کہ سلہٹ کا سارا علاقہ پاکستان میں شامل ہونا چاہئے۔ ریڈ کلف نے مکمل یقین دلایا تھا کہ یہ تمام علاقے پاکستان کو ملیں گے۔ لیکن ایوارڈ کے اعلان کے بعد تعجب کی انتہا نہ رہی جب ہمارا حق ہمیں نہ دیا گیا کیونکہ ریڈ کلف نے دیانت داری سے کام نہ لیا تھا۔

 بھارتی سازش اور اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں 

بھارتی سازشیں 1960ء کی دہائی میں عروج پر پہنچ گئیں۔ یہ وہاں ایک گروہ کو پاکستان کے خلاف اکسانے میں کامیاب ہو گئے تاکہ مشرقی  حصے کو پاکستان سے الگ کر کے بنگلہ دیش بنایا جائے، بعض نوجوانوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ہڑتالیں شروع کر دیں۔

 1970ء میں ملک بھر میں آزادانہ انتخابات ہوئے۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے برتری حاصل کر لی وہ اس  جماعت کے سربراہ بھی تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے 6 نکاتی پروگرام کے تحت انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اقتدار کی عدم منتقلی میں کئی سیاسی رہنما بھی شامل تھے جسے بنیاد بنا کر تحریک شروع ہو گئی ، وہاں کی نئی نسل کا ایک حصہ بھارت سے مل گیا۔ پولیس امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہی تو فوج نے کام سنبھالا۔ 

سابقہ مشرقی پاکستان کے حالات کی خرابی کے پیچھے بھارت تھا اس لئے اس نے کھل کر ہماری مخالفت شروع کر دی۔ بھارتی فوج مکتی باہنی کی شکل میں سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی ۔ مکتی باہنی کے کارندوں کی تعدادایک لاکھ اسی ہزار تھی جبکہ سرحدں پر انڈین فوج اس سے کہیں زیادہ تھی پاکستانی افواج بنگالیوں سمیت تین لاکھ پینسٹھ ہزار تھے اور رضا کار پینتیس ہزار تھے ہمارے فوجی دستے ان سے کم تھے۔ لیکن جب عوام ہی خلاف ہوں تو بڑی سے بڑی طاقتور افواج بھی کچھ نہیں کر سکتیں۔ بنگالی پولیس اور فوجی ساتھ چھوڑ گئے۔ 3دسمبر 1971ء کو شروع ہونے والی جنگ 16دسمبر کو اختتام پذیر ہوئی۔ پاکستانی افواج کے وہاں کے کمانڈر انچیف لیفٹیننٹ جنرل امیر عبد اللہ خاں نیازی نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔جنگ کے دوران  9 ہزار فوجی شہید اور 25 ہزار زخمی ہوئے تھے جن میں بنگالی بھی شامل تھے۔ 16 دسمبر 1971ء کومشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیاگیا۔

بنگالی ہمارے بھائی 

 ہر پاکستانی بنگالیوں سے محبت کرتا ہے،وہ ہمارے بھائی ہیں۔آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ میں ہوا اور بنگالیوں نے بھی تحریک پاکستان میں بے حد قربانیاں دیں۔ حالات و واقعات اور زمانے کے اتار چڑھائو کا کیا پتہ کہ کب کون سازش کا شکار ہو گیا۔ بنگالی بھائیوں کیساتھ کچھ ایسا ہی ہواوہ ور غلائے گئے اور ہم سے روٹھ گئے ہم تو اب بھی بازو پھیلائے بیٹھے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سانحہ اے پی ایس:جب قوم کا مستقبل لہو میں نہا گیا

16 دسمبر 2014ء کی وہ خونی صبح تاریخ پاکستان کے سیاہ ترین ابواب میں ہمیشہ کیلئے ثبت ہو چکی ہے، جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردی کی وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

16دسمبر 1971سقوط ڈھاکہ:جب پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہوا

16 دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن‘ ہمیں بھارتی مکروہ عزائم ناکام بنانے کے لئے مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت ہماری سوچ سے کہیں زیادہ تھی، جس کا مقصد سارے نظام کو تہس نہس کرنا تھا

مدد گار رسول، یار غار و مزار، امام الصحابہ :خلیفہ اوّل، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ

اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ذات بابرکات پر کہ جن کے اہل اسلام پر لاکھوں احسانات ہیں۔ وہ قومیں دنیا کے افق سے غروب ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں۔ آیئے آج اس عظیم محسن اُمت کی خدمات کا مختصراً تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے تذکرے سے ایمان کو تازگی اور عمل کو اخلاص کی دولت ملتی ہے۔

فخر رفاقت ابو بکر،فخرصداقت ابو بکر: رفیقِ دوجہاں

خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کو قبل ازبعثت بھی نبی مکرم ﷺ کی دوستی کا شرف حاصل تھا اور23سالہ پورے دور نبوت میں بھی نبی مکرمﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا۔

مکتبہ عشق کا امام سیدنا ابوبکر صدیق

سیرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشے ہیں۔

وہ جو صدیقؓ کہلایا میرے رسول ﷺ کا

خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ! ’’مجھے نبوت عطا ہوئی تو سب نے جھٹلایا مگر ابو بکر صدیقؓ نے مانا اور دوسروں سے منوایا ،جب میرے پاس کچھ نہیں رہا تو ابو بکرؓ کا مال راہِ خدا میں کام آیا۔