یادرفتگان،پطرس بخاری :مزاح نگاری کا بڑا نام، ان کے مضامین میں کمال کی نکتہ آفرینی اور بذلہ سنجی ہے

یادرفتگان،پطرس بخاری :مزاح نگاری کا بڑا نام، ان کے مضامین میں کمال کی نکتہ آفرینی اور بذلہ سنجی ہے

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


''ہاسٹل کے چوکیدار سے ہم نے کہا کہ ہمیں کل علی الصبح جگا دینا۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی اس نے اتنی زور سے ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ہم تو کیا ہماری قسمتِ خوابیدہ تک جاگ اٹھی‘‘۔
یہ پطرس بخاری کے ایک مزاحیہ مضمون کی وہ شگفتہ تحریر ہے جس سے ایک مزاح نگار کے طور پر ان کے مقام اور مرتبے کا پتہ چلتا ہے۔ اُردو کے مزاحیہ ادب میں پطرس بخاری کے علاوہ کرنل محمد خان، شفیق الرحمان، ابن انشاء، حاجی لق لق اور مشتاق احمد یوسفی نے بہت نام کمایا۔ یوسفی صاحب کی مزاحیہ تحریروں میں جو نکتہ آفرینی ملتی ہے اس میں پطرس بخاری کی جھلک موجودہے۔
یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا۔وہ صرف مزاح نگار ہی نہیں بلکہ انہوں نے کئی دوسرے موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں۔ وہ ایک صداکار اور سفارتکار بھی تھے۔ یہ ان کا اعزاز تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کی کتاب ''پطرس کے مضامین‘‘ نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں ''کلیات پطرس‘‘،'' پطرس کے خطوط‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔''پطرس کے مضامین‘‘ میں ان کے 11مزاح پارے ہیں جو اعلیٰ درجے کے ہیں اور اس میں ان کا مشاہدہ اور نکتہ آفرینی عروج پر ہے۔ ان کے مضامین ''مرزا کی بائیسکل‘‘،''کتے‘‘ اور'' سویرے جو کل میری آنکھ کھلی‘‘ اُردو کے مزاحیہ ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔
پطرس بخاری ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ مشن سکول سے تعلیم حاصل کی اور پھر وہ لاہور آ گئے جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج (اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) میں انگریزی ادب پڑھا۔ پطرس بخاری برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے ایمانول کالج کیمرج سے تعلیم حاصل کی۔پھر وہ لاہور آ گئے اور 1927ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے۔ وہ بڑے ذہین اور قابل آدمی تھے۔ ان کے بھائی زیڈ اے بخاری پاکستان کے نامور صدا کار تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض احمد فیضؔ، ن م راشد اور کنہیا لال کپور بھی ان کے شاگردوں میں شامل تھے۔ 1950ء میں جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو پطرس بخاری بھی ان کے ہمراہ تھے۔ لیاقت علی خان کی تمام تقریریں اور عوامی اعلانات پطرس بخاری کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے۔ نیویارک میں بخاری صاحب ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ وہ گھر میں چار زبانیں بولتے تھے جن میں مقامی بولی، فارسی، اُردو اور پشتو شامل ہیں۔
''پطرس کے مضامین‘‘ کو اردو کے مزاحیہ ادب کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مضامین 1927ء میں شائع ہوئے۔ اگرچہ یہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں منظر عام پر آئے لیکن ان کی تازگی اور شگفتگی آج تک قائم ہے۔
پطرس بخاری کو یونانی فلسفے پر بھی عبور حاصل تھا۔ انہوں نے ایک معرکہ آرا مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ''قدیم یونانی بادشاہ اور ان کے افکار‘‘ ۔یہ مضمون 1919ء میں لاہور کے ایک جریدے میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 21برس تھی۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے وطن کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ اس وقت اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں تھا۔ انہوں نے جس طرح یونیسف کا کیس لڑا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دراصل یونیسف کو بند کرنے کیلئے اجلاس منعقد کئے جا رہے تھے کیونکہ بظاہر یہی لگتا تھا کہ یونیسف نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہیں لیکن پطرس بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یونیسف کی ضرورت ترقی پذیر ملکوں میں یورپی ممالک سے زیادہ ہے اور خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ترقی پذیر ملکوں میں یونیسف کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان کے مؤثر دلائل نے امریکی صدر روز ویلٹ کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی یونیسف کے حوالے سے اپنے ملک کا موقف بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ اُس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رالف جے بنچے تھے۔ انہوں نے پطرس کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ احمد بخاری درحقیقت ایک لیڈر اور فلسفی تھے۔ اگرچہ ان کی عمر زیادہ نہیں تھی لیکن لگتا تھا کہ وہ ایک کمال کے مدبر ہیں۔ وہ دنیا بھر میں امن کے متلاشی لوگوں کی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے تھے۔
اب ذرا پطرس بخاری کے مزاح کے کچھ رنگ دیکھئے جن میں انفرادیت ، نفاست اور سلاست کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ''میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھیتجوں سے مختلف نہیں میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں‘‘۔
''لاہور لاہور ہے۔ اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہیں مل سکتا تو آپ کی تعلیم ناقص اور ذہن فاتر ہے‘‘۔
'' خدا کی قسم ان کتوں میں وہ شائستگی دیکھی کہ عش عش کر کے لوٹ آئے۔ جونہی ہم بنگلے کے دروازے میں داخل ہوئے، کتے نے برآمدے میں کھڑے ہو کر ہلکی سی ''بخ‘‘ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری، موسیقی کی موسیقی‘‘۔
ایسے مزاحیہ فقرے پڑھ کر مسکراہٹ کی کیا مجال کہ وہ آپ کے لبوں سے نہ ٹکرائے۔ یہ عظیم مزاح نگار5دسمبر1958ء کو امریکہ میں انتقال کر گئے اور ان کی تدفین بھی وہیں ہوئی۔ اُردو کا مزاحیہ ادب پطرس بخاری کا ہمیشہ ممنون رہے گا۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
چین میں HMPV کا پھیلائو

چین میں HMPV کا پھیلائو

چین میں حالیہ دنوں ایک نئے وائرس کے پھیلاؤ کی رپورٹیں سامنے آئی ہیں اور لوگ اس حوالے سے پریشان ہیں ۔ مختلف سوشل میڈیا پوسٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ چینی ہسپتالوں میں HMPV(Human Metapneumovirus)اور دوسرے وائرسوں سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں سے بہت سے افراد کو کووِڈ19 جیسے علامات کا سامنا ہے۔ ایچ ایم پی وی کا پتہ 2001ء میں نیدرلینڈز میں لگایا گیا تھا۔ یہ ایک موسمی وائرس ہے جو عام طور پر پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔ جنوری 2025ء میں چین میں ایچ ایم پی وی انفیکشن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں ہمیں جو معلومات ملی ہیں وہ یہ ہیں :چین میںHMPV کے نئے وائرس کا پھیلاؤ کیا ہے؟چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق ایچ ایم پی وی کے ساتھ ساتھ انفلوئنزا ، نمونیا اور کوویڈ 19 کے کیسز بھی رپورٹ ہو رہے ہیں اور مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چین میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے کئی مقامات پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ہسپتالوں میں بھیڑ بڑھ رہی ہے۔ تاہم چین کی طرف سے ایسی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ایچ ایم پی وائرس 14 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں میں فلو کے انفیکشن میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ وائرس جوقے اور اسہال کا سبب بنتا ہے، کا پھیلاؤ اگلے دو مہینوں کے لیے بلند سطح پر رہے گا۔American Lung Association کے مطابق ایچ ایم پی وی سانس کے شدید انفیکشن کی ایک اہم وجہ ہے اور انفلوئنزا کی طرح متاثرہ فرد کے قریبی رابطے سے پھیلتا ہے۔ یہ عام سردی کے قریب علامات کا سبب بنتا ہے جو عام طور پر دو سے پانچ دن تک رہتا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو نمونیا جیسی مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ نیوز ویک کے مطابق اس کے خلاف قوت مدافعت کووڈ19 جیسے نئے وائرس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے وبائی مرض کا خطرہ اتنا زیادہ نہیں ہے۔HMPV کی علامات کیا ہیں؟ایچ ایم پی وی والے زیادہ تر مریضوں میں اوپری سانس کی ہلکی علامات ہوتی ہیں جیسے سردی لگنے کی علامات ہوتی ہیں۔ ان میں شامل ہوسکتا ہے:کھانسیبہتی ہوئی ناک یا ناک بند ہوناگلے میں خراشبخارزیادہ سنگین صورتوں میں مریضوں کو گھرگھراہٹ، سانس لینے میں دشواری اور دمہ کی شکایت ہو سکتی ہے یا سانس کا انفیکشن ہو سکتا ہے جیسے برونکائٹس یا نمونیا، جس میں اضافی طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکن لنگ ایسوسی ایشن کے مطابق ایچ ایم پی وی کی ہلکی علامات کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بیماری کو خود ہی ختم ہونا چاہیے اور گھر پر علامات کی معاون دیکھ بھال کافی ہے۔ تاہم اگر علامات خراب ہو جائیں اور آپ کو سانس لینے میں دشواری، شدید کھانسی یا گھرگھراہٹ ہو تو آپ کو ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ HMPV کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟سانس کے انفیکشن کی تشخیص کے لیے آپ کا ڈاکٹر جسمانی معائنہ کرے گا۔ مزید تشخیص کرنے کے لیے آپ کا ڈاکٹر آپ کی بیماری کا سبب بننے والے وائرس کی قسم کی تصدیق کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کا کہہ سکتا ہے۔ہسپتال میں داخل ہونے والے بہت کم سنگین معاملات میں ڈاکٹر ایک برونکوسکوپی کر سکتے ہیں جہاں ایک چھوٹا لچکدار کیمرہ پھیپھڑوں میں ڈالا جاتا ہے اور وائرس کی جانچ کے لیے سیال کا نمونہ نکالا جاتا ہے۔

بابر اور ہمایوں کے عہد میں فن تعمیر

بابر اور ہمایوں کے عہد میں فن تعمیر

مغل فن تعمیر کی کہانی مغل دور حکومت کی ابتدا کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ 1526ء میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اپنے اقتدار کا پرچم لہرایا تھا۔اگر مغل فن تعمیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ فن تعمیر کی یہ کہانی جو مغل دور حکومت نے ہندوستان میں چھیڑی، اس کے نقوش پہلے ہی تیار ہو چکے تھے کیونکہ عربوں کے ہندوستان سے تعلقات آٹھویں صدی عیسوی ہی میں استوار ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی حکومت میں سندھ اور ملتان دونوں کو شامل کر لیا تھا۔ عربوں کے ان تعلقات سے ملتان اور سندھ دونوں کے طرزتعمیر میں ایک خاص تبدیلی واقع ہوئی۔ اس سے پہلے یہاں کی عمارتوں میں چمکدار قسم کے کھپرے استعمال کرنے کا رواج نہ تھا۔ انہوں نے اپنی عمارتوں میں چکنے چمکدار اور روغنی کھپرے استعمال کر کے تعمیراتی صلاحیت کو جلا دی۔ بارہویں صدی کے اواخر میں جب قطب الدین ایبک ہندوستان کا وائسرائے تھا، اس نے دہلی میں ایک مسجد ''قطب مسجد‘‘ کے نام سے تعمیر کرائی۔ اس کے بعد جب پورے طور سے اس کی حکومت کا استحکام ہو گیا تو اس نے یہاں قطب مینار جیسی بلندوبالا عمارت تعمیر کرائی۔ غلام خاندان، خلجی خاندان، تغلق خاندان، سید خاندان اور لودھی خاندان کی بنوائی ہوئی عمارتوں نے مغل فن تعمیر کیلئے ایک صحت مند خمیر تیار کیا، جس کو بنیاد بنا کر مغلوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ بابر کے دورحکومت میں جو کچھ بھی چھوٹا موٹا تعمیری کام ہو، وہ چاہے عمارتوں کی شکل میں ہو، باغات کی شکل میں ہو یا مسجد کی شکل میں، وہ مغل فن تعمیر کا ابتدائی نمونہ تھا۔ مغل فنِ تعمیر کی تکمیل کا کام اکبر اور شاہ جہاں تک کے دور میں ہوا۔ مغل بادشاہ ایک تربیت یافتہ ذہن کے مالک تھے۔ وہ تربیت یافتہ ذہن جن کے کارنامے سمرقند، بخارااور ہرات میں دیکھے جا سکتے تھے۔ مغلوں کے آنے سے پہلے دہلی سلطنت زوال کی طرف رخ کیے ہوئے تھی، اس سیاسی انتشار اور خلفشار میں اور اس آئے دن کے انقلاب میں سلاطین دہلی کی اختراعی قوت کو دھکا سا لگا۔ مرکزیت علاقوں میں منتشر ہو گئی۔ دہلی سلطنت سے الگ ہٹ کر تعمیراتی کام صوبوں میں زور پکڑ گیا اور اس طرح مرکز نے فن تعمیر میں کوئی قابل قدر اضافہ نہ کیا، ہاں علاقوں اور صوبوں میں فن تعمیر کے بعض اعلیٰ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں، مثلاً شرقی بادشاہوں کی بنوائی ہوئی جون پور کی کچھ عمارتیں (جیسے اٹالہ مسجد) ان حالات میں مغل دور حکومت کی ابتدا ہوئی۔ بابر کی زندگی غم و آلام کی ایک مستقل داستان ہے۔ تقدیر نے جتنی آزمائشیں اس مغل بادشاہ کے حصے میں لکھی تھیں اتنی شاید ہی کسی دوسرے مغل بادشاہ کو پیش آئی ہوں۔ تمام مشکلات کو جھیل کر جب اس نے منزل کو پالیا اور منزل پر پہنچ کر جب اس نے اطمینان کی سانس لی تو موت نے اسے صدا دے دی۔ اس طور سے بابر نے اپنے پیچھے بہت سے نامکمل کام اور بہت سے ادھورے خواب چھوڑے ۔ تزکِ بابری میں بابر نے خود لکھا ہے کہ ''میں نے عمارتوں کی تعمیر کیلئے ایک کثیر رقم خرچ کرنے کا حکم دیا تھا‘‘۔ تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بابر نے پانی پت کے میدان (کابلی باغ) میں ایک مسجد بھی فوجی سپاہیوں کے نماز ادا کرنے کیلئے بنوائی تھی اور ساتھ ہی ددوسری مسجد (دہلی) کے مقام پر بنوائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کابل میں بنے ہوئے ایک باغ کی طرح دوسرا باغ دہلی میں ''آرام باغ‘‘ کے نام سے بنوایا، جس کا نشان مٹ گیا۔ بابر کے ان کاموں کی تائید گلبدن بیگم کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے: ''(بابر) نے خواجہ قاسم معمار کو حکم دیا کہ اگر ہماری بوائیں کوئی مکان اپنے محل میں بنوانا چاہیں تو بڑا کام ہوتے ہوئے بھی اسے فوراً ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ آگرہ میں دریا کے اس پار کئی عمارتیں بنوانے کا حکم دیا۔ حرم اور باغ کے بیچ میں اپنی خلوتِ خاص کیلئے ایک پتھر کا محل بنوایا اور دیوان خانہ میں بھی ایک محل تعمیر کروایا۔ مکان کے وسط میں ایک باؤلی اور چاروں برجوں میں چار کمرے بنوائے۔ دریا کے کنارے چار صحن والا مکان تعمیر کرایا۔ دھول پور میں پتھر کے ایک حصے میں ایک چوکھٹی باولی 10 گز لمبی اور چوڑی بننے کا حکم دیا اور کہا کہ جب باؤلی تیار ہو جائے تو اسے شراب سے بھروں گا، لیکن رانا سانگا سے جنگ ہونے سے پہلے انہوں نے شراب سے توبہ کر لی تھی۔ اس لیے باولی کو شراب کے بجائے لیموں کے شربت سے بھروایا‘‘۔اس سے پتا چلتا ہے کہ بابر کے اس مختصر دور حکومت میں بھی کافی عمارتوں کی تعمیر ہوئی، لیکن باب کی موت کے فوراً بعد ہی جو سیاسی ہنگامہ ہوا اور انتشار پھیلا، اس میں ہمایوں کو فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ان عمارتوں کی بقا کی طرف توجہ دے سکے، پھر بھی ان میں سے دو عمارتیں زمانے کے ہاتھوں محفوظ رہیں۔ یہ دونوں عمارتیں وہی مندرجہ بالا مسجدیں ہیں جو کابلی باغ اور سنبھل میں تعمیر کی گئی تھیں۔ مغلوں کیلئے یہ ملک نیا تھا۔ وہ لوگ یہاں کی جغرافیائی حالت سے واقف نہیں تھے اور نہ ہی ان مسجدوں میں مغل فنِ تعمیر کی مخصوص رنگ و بو جھلکتی ہے۔ خود بابر کے الفاظ میں کہ ''یہ بالکل ہندوستانی طرز کی ہیں‘‘۔ہمایوں کی شخصیت تاریخ کے طالب علموں کیلئے بڑی ہی قابلِ توجہ ہے۔ بابر کے ادھورے خواب اس نے پورے کیے۔ 1530ء میں حکومت کیا ہاتھ آئی پریشانیوں کا ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آ گیا۔ ایک طرف افغان سرکشی پر آمادہ ہوئے اور دوسری طرف حقیقی بھائیوں (کامران عسکری اور ہندال) نے وہ طرز اپنایا کہ سخت دشمن کے ہاتھوں بھی ممکن نہیں۔ اگر اس نے بھائیوں کی شرارت پر انہیں تنبیہ بھی کرنی چاہی تو مرحوم باپ کی وصیت یاد آ گئی۔ ''دیکھو، اپنے بھائیوں کے دکھ درد کا خیال رکھنا‘‘۔ ایسے حالات مین اس صائب الرائے بادشاہ کی عقل بھی جواب دے گئی۔ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ شیر شاہ سوری نے آخری کار اس کو شکست دے دی۔ اب تو حکومت کے بھی لالے پڑ گئے اور وہ ہندوستان چھوڑ کر ایران چلا گیا۔ عالموں اور مؤرخوں کا کہنا ہے کہ ہمایوں کو اس بھاگ دوڑ میں جتنی بھی پریشانی ہوئی ہو، مغل تاریخ اور مغل فنِ تعمیر کو اس سے بہت ہی فائدہ پہنچا۔ فائدہ اس سلسلے میں کہ ایرانی روایات اور ایرانی علامتیں جو مغل تہذیب کا جزو بننے کیلئے ایک مدت سے کسی انجانی شخصیت کا انتظار کر رہی تھیں، وہ ہمایوں کے ہاتھ یہاں پہنچیں۔ اس سخت دور مین اور اس انتشاری فضا اور ماحول میں بھی ہمایوں نے اپنے باپ بابر کی تعمیری روایت کی جوت کو جلائے رکھا۔ فتح آباد اور حصار میں ہمایوں نے دو الگ الگ مسجدیں بھی تعمیر کرائیں لیکن وہ زمانے کی بے مہری کا شکار ہو گئیں۔ 1564ء کی ان سب سے قابل توجہ تعمیر ہمایوں کا مقبرہ ہے، جو اس کے مرنے کے آٹھ سال بعد مکمل ہوا۔ یہ مقبرہ ہمایوں کی چہیتی بیوی ھاجی بیگم نے اپنی زیرنگرانی تعمیر کرایا۔ مزید برآں یہ مقبرہ ہندوستانی روپ میں ایرانی طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ تاج محل کو اگر ہم ایک وفادار عاشق کا خراج کہتے ہیں تو ہمایوں کے مقبرہ کو ہمیں وفادار بیوی کی محبوبانہ پیشکش کہنا پڑے گا۔ اس سے پہلے مقبرہ کے چاروں طرف چاردیواری بنانے کا رواج نہ تھا۔ مثال کے طور پر فیروز شاہ کا مقبرہ اور مبارک شاہ کا مقبرہ۔ لیکن ہمایوں کے مقبرہ نے اس طریقۂ تعمیر کی بنیاد رکھی۔ نہ محض اس مقبرہ کے بعد سے چار دیواری بنانے کا رواج ہوا بلکہ اس کے باہر پیڑ اور پودے لگانے کی ابتدا ہوئی۔ مقبرہ کے چاروں طرف گھری ہوئی اس وسیع و بسیط چاردیواری میں جا بجا دروازے قائم کیے گئے۔

آج کا دن

آج کا دن

ڈیوٹی ٹائم 8 گھنٹے1914ء میں آج کے روز فورڈ موٹر کمپنی نے کام کرنے کے اوقات کو کم کرنے اور مزدوروں کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کمپنی کے بانی ہنری فورڈ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کام کرنے کے اوقات 8 گھنٹے اور کم از کم یومیہ اجرت 5 ڈالر بمعہ بونسز ہوگی۔ اس اقدام کا مقصد کارکنوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور ان کی زندگی کے معیار کو بلند کرنا تھا۔ یہ اقدام صنعتی انقلاب کے دوران مزدوروں کے لیے ایک بڑی تبدیلی ثابت ہوا، کیونکہ اس سے پہلے لوگ روزانہ 10 سے 16 گھنٹے تک کام کرتے تھے۔ فورڈ کا آٹھ گھنٹے کا ورک ڈے بعد میں ایک عالمی معیار بن گیا اور مزدوروں کے حقوق کی تحریک میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ڈیلی میل کا اعزاز5جنوری 1944ء کو برطانوی اخبار ''ڈیلی میل‘‘ کو بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب شائع ہونے والے اخبار کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈیلی میل پہلا برطانوی اخبار تھا جس نے شمالی امریکہ کے قارئین کے لیے خصوصی ایڈیشن متعارف کرایا۔ اس اقدام نے اخبار کی بین الاقوامی مقبولیت کو بڑھایا اور جدید صحافت میں ایک نیا باب رقم کیا۔ ڈیلی میل نے اپنے اس ایڈیشن کے ذریعے یورپی خبروں اور تجزیات کو امریکی قارئین تک پہنچایا، جس سے دونوں خطوں کے درمیان معلومات کے تبادلے میں مدد ملی۔ یہ پیش رفت اس زمانے کی ٹیکنالوجی اور تیز رفتار پرنٹنگ کی مہارت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ ٹونگھائی زلزلہ1970ء میں آج کے روز7.1 شدت کے زلزلے نے چین کے صوبہ ژونان کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق رات ایک بجے آیا اور بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنا۔ اس زلزلے سے تقریباً 15یزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ 26ہزار افراد زخمی ہوئے۔ سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ زلزلے نے خطے کی معیشت کو نقصان پہنچایا اور متاثرین کے لیے بحالی کا عمل کئی سالوں تک جاری رہا۔یہ چین کی تاریخ کے تباہ کن زلزلوں میں سے ایک تھا اور اس نے زلزلے سے بچاؤ کے لیے بہتر اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

نزلہ اور زکام کے وائرس کی زندگی!

نزلہ اور زکام کے وائرس کی زندگی!

دسمبر کے آخری دنوں میں شروع ہونے والی سخت سردی نے کم و بیش پورے ملک کو تاحال لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس موسم میں سب سے بڑا حملہ نزلہ(فلو)، زکام(کولڈ) اور سانس کی بیماریوں کا ہوتا ہے۔ مختلف طرح کے وائرس کیلئے یہ ''اچھا‘‘ موسم ہوتا ہے اور یہ مختلف طریقوں سے ایک سے دوسرے انسان میں داخل ہو کر وبائی بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ عام آنکھ انہیں دیکھ نہیں پاتی لہٰذا ان کی تفصیلات جاننے کیلئے ہمیں خوردبین جیسے آلات اور ماہرین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔بہرحال ذرائع ابلاغ اور نصاب سے ملنے والی معلومات سے بیشتر افراد جانتے ہیں کہ وائرس طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ زکام اور نزلہ میں فرقکئی بار یوں ہوتا ہے کہ صبح سویرے اٹھتے ہی آپ کا واسطہ اپنی بہتی ناک اور جسمانی درد سے پڑتا ہے۔آپ کو زکام ہے یا نزلہ؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے ان دونوں کے مابین فرق جاننا اہم ہے۔ نزلے کی نسبت زکام نظامِ تنفس کا چھوٹا مرض ہے۔ زکام سے آپ چند دن برا محسوس کرتے ہیں، البتہ نزلے سے آپ چند دنوں تک خاصے بیمار رہتے ہیں۔ نزلے سے صحت کے سنجیدہ مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں جن میں نمونیا شامل ہے۔ زکام کی درجہ بدرجہ نمو کچھ یوں ہوتی ہے۔ عموماً آغاز گلے کی سوزش سے ہوتا ہے جو ایک یا دو دنوں میں دور ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ناک سے منسلک علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں ناک کا بہنا اور اس میں رکاوٹ شامل ہیں۔ چوتھے یا پانچویں دن کھانسی ہوسکتی ہے۔ زکام کی صورت میں بالغوں کی نسبت بچوں میں بخار ہونے کا امکان خاصا زیادہ ہوتا ہے۔ زکام میں ناک سے ابتدا میں پانی جیسا مواد بہتا ہے جو بعد میں سخت ہو جاتا ہے۔ زکام میں ہلکی تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔نزلے کی علاماتنزلے کی علامات زکام سے نہ صرف شدید ہوتی ہیں بلکہ زیادہ تیزی سے لپیٹ میں لیتی ہیں۔ اس میں گلے کی سوزش، بخار، سر درد، پٹھوں میں درد اور ٹیسیں، ناک کی نالی میں رکاوٹ، شدید تھکاوٹ اور کھانسی شامل ہیں۔ سوائن فلو کی علامات میں قے اور اسہال بھی شامل ہیں۔ نزلے کی بیشتر علامات دو سے پانچ دنوں میں درجہ بدرجہ شدید ہوتی ہیں لیکن عموماً ایک ہفتے سے کم وقت میں ان میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ پیچیدگی کی صورت میں بالخصوص بچوں اور بوڑھوں کو نمونیا ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کونسبتاً جلدہوتا ہے۔ نزلہ اور زکام دونوں کے وائرس بیمار فرد کے نظام تنفس سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے قطروں میں باہر نکلتے ہیں۔یہ دوسرے فرد کے جسم میں ناک کی بلغمی جھلی، آنکھوں اورمنہ سے داخل ہوتے ہیں۔ آپ جب بھی اپنا ہاتھ ان مقام پر لگاتے ہیں جہاں بیمار فرد نے اپنے وائرس چھوڑے ہوں تو یہ آپ کو لگ جاتے ہیں اور پھر آپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہاتھوں کو صاف رکھنا بہت اہم ہے۔ ان کی منتقلی کو روکنے کے لیے یہ جاننا بھی اہم ہے یہ کتنی دیر زندہ رہتے ہیں۔ ہم روزانہ بہت سی ایسی چیزوں کو چھوتے ہیں جن پر وائرس پائے جاتے ہیں۔ یہ موبائل فون، دروازے کا ہینڈل یا کرسی پر ہو سکتے ہیں۔ یہ فضا میں کسی کی سانسوں سے نکل کر آپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ وائرس باہر کتنی دیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس کا انحصار بنیادی طور پر تین عوامل پر ہوتا ہے، وائرس کس قسم کے ہیں، وہ کس جگہ یا چیز پر ہیں اور ان کے اردگرد کا ماحول کیسا ہے، مثلاً وہ گرم ہے، سرد ہے، نمدارہے یا سورج کی تمازت والا ہے۔ زکام کے وائرسزکام پیدا کرنے والے وائرس مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ وائرس بعض اوقات کسی عمارت میں یعنی اِن ڈور ایک ہفتے سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ عام طور پر وائرس بے مسام چیزوںپر، جن میں سے پانی نہیں گزرتا، زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ ان میں سٹین لس سٹیل اور پلاسٹک شامل ہیں۔ مساموں والی چیزوں مثلاً دھاگے سے بنی چیزوں پر ان کی زندگی نسبتاً مختصر ہوتی ہے۔ کسی سطح پر زکام کے وائرس اگرچہ کئی دنوں تک زندہ رہ سکتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کی بیمار کرنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہوتی ہے۔ یہ عموماً 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں رہ پاتے۔ زکام پیدا کرنے والے زیادہ تر وائرس ہاتھوں پر مختصر وقت کیلئے زندہ رہتے ہیں۔ بعض کی زندگی تو چند منٹ ہوتی ہے البتہ ''رینووائرس‘‘ جو عام زکام کا سبب بنتے ہیں، ایک گھنٹے بعد بھی ہاتھوں کے ذریعے انفیکشن کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زکام پیدا کرنے والا ایک اور ''سِن سِشول وائرس‘‘ یا آر ایس وی بچوں کو شدید بیمار کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور یہ باورچی خانے کے تختوں اور دروازوں کے ہینڈل وغیرہ پر چھ گھنٹے تک زندہ رہ سکتاہے۔ یہ کپڑوں پر 30 سے 45 منٹ اور جِلد پر 20 منٹ تک زندہ رہ سکتا ہے۔ نزلہ کے وائرس ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے اور انفیکشن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نزلہ یا فلو کے وائرس سخت سطح پر 24 گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں۔ انفیکشن پھیلانے والے فلو وائرس بافتوں پر صرف 15 منٹ زندہ رہ سکتے ہیں۔ فضا میں معلق ننھے منے قطروں میں یہ کئی گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں، جب درجۂ حرارت کم ہوتا ہے تو فضا میں ان کی بقا طویل ہو جاتی ہے۔ بچوں میں کروپ کھانسی، جس میں کھانسی اور سانس لینے کے ساتھ آواز آتی ہے، کا سبب بننے والا پارین فلوئنزا وائرس سخت سطح پر 10 گھنٹے اور نرم سطح پر چار گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں۔  

آکٹوپس تین دل ، نیلے خون اور آٹھ ٹانگوں والا جانور

آکٹوپس تین دل ، نیلے خون اور آٹھ ٹانگوں والا جانور

ہمارا یہ کرہ ارض اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس میں بسنے والی مخلوقات کا مکمل شمار ممکن ہی نہیں۔یہ کرہ عمومی طور پر خشکی اور بحری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ خشکی کا حصہ 30فیصد جبکہ باقی 70 فیصد کو پانی نے گھیرا ہوا ہے۔ اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن سائنس دان خشکی پر بسنے والی مخلوق جس میں انسانوں کے علاوہ کیڑے مکوڑے اور چرند پرند وغیرہ شامل ہیں، کی گنتی کا صحیح اندازہ لگانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جبکہ باقی70 فیصد حصہ جو سمندروں پر مشتمل ہے اس بارے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس کے صرف 5 فیصد رازوں بارے کامیابی حاصل کر سکے ہیں۔سمندروں میں کس قدر مخلوق بستی ہے انسان اس بارے ابھی بہت حد تک لاعلم ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اور سائنس دان حشرات الارض اور اس سے جڑی دوسری مخلوقات بارے دن رات کھوج لگانے میں لگے رہتے ہیں اس لئے ہر روز دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کسی نئی مخلوق کے وجود کا ظہور ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن آکٹوپس کرہ ارض کے ان چند آبی جانداروں میں سے ایک ہے جس کے بارے عالمی طور پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ آکٹوپس کب وجود میں آئے؟ یونیورسٹی آف برسٹل کے پروفیسر ڈاکٹر جیکب ونتھر کہتے ہیں ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانوں اور آکٹوپس کے اجداد کے آثار 56 کروڑ سال پہلے موجود تھے۔ اسی طرح کی ایک تحقیق آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر گاڈ فرے سمتھ نے کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اور آکٹوپس کے مشترکہ آخری اجداد 60 کروڑ سال پہلے تک رہتے تھے‘‘۔ماہرین ارضیات بنیادی طور پر قدیم ادوار کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، ان میں '' جراسک دور‘‘ چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل تک قائم رہا۔ ماہرین کے مطابق اس دور میں ڈائنو سار اور آکٹوپس اور اس قبیل کے دوسرے جانور عروج پر تھے۔ ان تحقیقات کے بعد اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ آکٹوپس اس روئے زمین کی سب سے قدیم مخلوق میں سے ایک تھے۔عادات و اطوار سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 50 کروڑ سے 60 کروڑ سال پہلے وجود میں آنے والا جانور آکٹوپس، زمین کے اوّلین ذہین ترین جانوروں میں سے ایک تھا۔ آکٹوپس میں ایک خاصا بڑا دماغ پایا جاتا ہے جس میں نصف ارب دماغی خلیات ( نیورونز ) پائے جاتے ہیں۔ انسانوں ،کتوں اور دیگر جانوروں کے برعکس سب سے زیادہ دماغی خلیات ان کے بازوں میں پائے جاتے ہیں۔آکٹوپس میں موقع محل اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آکٹوپس کا شمار اس کرہ ارض کے انوکھے اور پیچیدہ ترین جانوروں میں ہوتا ہے۔ انوکھے یوں کہ اس جانور کی آٹھ ٹانگیں ، تین دل اور ان کے خون کا رنگ کا نیلا ہوتا ہے۔ چنانچہ آٹھ ٹانگوں کی وجہ سے یہ عرف عام میں ''ہشت پا‘‘ بھی کہلاتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس کا شمار غیر فقاری جانوروں میں ہوتا ہے یعنی ان کے جسم میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی۔ جسم میں ہڈی نہ ہونے کے سبب یہ اپنے آپ کو کسی بھی سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ آکٹوپس دوسرے ہم عصر اور ہم نسل جانوروں کی نسبت زیادہ ہوشیار اور متحرک ہوتے ہیں۔عمومی طور پر آکٹوپس سیاہ ، نارنجی ، مٹیالے اور بھوری رنگت والے ہوتے ہیں لیکن قدرت نے ان کی بعض اقسام کو بوقت ضرورت کئی کئی رنگ تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی عطا کر رکھی ہے۔ آکٹوپس کی نیلے رنگ کی ایک نایاب نسل کا سراغ بھی ملا ہے جو انتہائی زہریلا ہوتا ہے ، جس کے کاٹنے سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔اس نسل کاسراغ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کچھ علاقوں میں ملا ہے۔ آکٹوپس گوشت خور جانور ہے، انہیں زندہ رہنے کیلئے دن میں دو سے تین مرتبہ کھانا درکار ہوتا ہے۔ مچھلی، کیکڑے، جھینگے اور دیگر چھوٹے آبی جانور ان کی عمومی خوراک کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ بڑے پیچیدہ دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی ذہانت میں اب کوئی دو رائے نہیں ہے کیونکہ جدید سائنس میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔ یہ اپنے دفاع کیلئے سیپیاں اور کھوپرے کا خول استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب انہیں ایکوریم میں قید کیا گیا تو سائنس دانوں نے نوٹ کیا کہ یہ اپنی ذہانت کی وجہ سے اپنا راستہ نکال کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض اوقات تو یہ جالوں میں اپنے لئے رکھی گئی خوراک کو بھی لے اڑتے دیکھے گئے۔ بطور خوراک تیزی سے بڑھتا رجحان دنیا بھر میں آکٹوپس کے بطور خوراک تیزی سے بڑھتے رجحان کو ماہرین ماحولیات نے جہاں ایک طرف اس کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے، وہیں اسے ایک ظالمانہ فعل بھی قرار دیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا سے لے کر امریکہ تک آکٹوپس کے بطور خوراک استعمال کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جنوبی کوریا میں پچھلے چند سالوں سے زندہ آکٹوپس کھانے کا رجحان تیزی سے بڑھتا دیکھا گیا ہے۔ جس کے باعث دنیا بھر میں سالانہ ساڑھے تین لاکھ ٹن آکٹوپس کا شکار کیا جاتا ہے جو پچھلی سات دہائیوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تعداد ہے۔ اس کے شکار سے جہاں دن بدن آکٹوپس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف ان کی قیمتوں میں اضافے سے غیر قانونی شکار کے رجحان میں تیزی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ عالمی طور پر آکٹوپس کی بڑھتی مانگ اور سمندروں میں کم ہوتی ان کی تعداد کے سبب اب دنیا بھر میں ان کی مصنوعی افزائش کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔اگرچہ ان کا لاروا زندہ چیزیں کھاتا ہے اور ایک مخصوص ماحول میں پرورش پا سکتا ہے لیکن میکسیکو ، آسٹریلیا ، جاپان اور سپین بین الاقوامی طلب پورا کرنے کیلئے دن رات ان کی افزائش میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

برج خلیفہ کا افتتاح4جنوری2010ء کو دبئی میں قائم دنیا کی سب سے بلند عمارت برج خلیفہ کا افتتاح کیا گیا اور اسے عام عوام کے لئے کھول دیا گیا۔افتتاح سے قبل اسے برج دبئی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔اس کی اونچائی 829.8میٹر ہے۔اس کی تعمیر کا آغاز2004ء میں ہوا اور بیرونی حصہ پانچ سال بعد2009ء میں مکمل ہوا۔اس کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط کنکریٹ کا ہے اور عمارت کا کچھ حصہ سٹیل سے بھی تعمیر کیا گیا ہے۔برج خلیفہ کو تعمیر کرنے کا مقصد دبئی کو بین الاقوامی شناخت فراہم کرنا تھا تاکہ دنیا بھر کے سیاح اس عمارت کو دیکھنے کے لئے دبئی کا رخ کریں۔سکھر ٹرین حادثہسکھر ریل حادثہ 4 جنوری 1990ء کو صوبہ سندھ میں سکھر کے قریب سانگی گاؤں میں پیش آیا۔ اس خوفناک حادثے میں 307 لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس حادثے کو پاکستان کا تاریخ کا بدتریں ٹرین حادثہ سمجھا جاتا ہے۔بہاؤالدین زکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی کیلئے سفر کر رہی تھی۔اس کا سفر800کلومیٹر طویل تھا اور ٹرین میں کل1408افراد کی گنجائش موجود تھی جبکہ ٹرین میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ٹرین کے ساتھ 16بوگیوں کو منسلک کیا گیا تھا۔ اسے سکھر کے قریب سانگی گاؤں سے سیدھا گزرنا تھا لیکن غلط طریقے سے سیٹ کئے گئے ریل پوائنٹس کی وجہ سے یہ ایک سائیڈ پر چلی گئی جہاں پر پہلے سے 55کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئے مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔اس حادثے میں بہاؤالدین زکریا کی اگلی تین بوگیاں مکمل طورپر تباہ ہو گئی تھیں۔جبکہ دیگر دو کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔اس حادثے میں تقریباً700افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔تحقیقات میں ریلوے کا عملہ ذمہ دار پایا گیا۔ سانگی سٹیشن پر ڈیوٹی پر موجود عملے پر قتل عام کا الزام عائد کیا گیا۔سپرٹ روور''سپرٹ‘‘ جسے MER-1 یا MER-2 بھی کہا جاتا ہے ایک مریخ روبوٹک روور تھا جو 2004ء سے2010ء تک فعال رہا۔''سپرٹ روور مریخ پر6سال77دن تک کام کرتا رہا۔یہ جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے زیر اہتمام ناسا کے مارس ایکسپلوریشن مشن کا ہی ایک حصہ تھا۔سپرٹ روور4جنوری2004ء کو مریخ کی سطح پر کامیابی کے ساتھ اترا۔اس خلائی جہاز کا نام امریکی خلائی ادارے ناسا کے زیر اہتمام طلبہ کے مضمون نویسی کے مقابلے کے ذریعے رکھا گیا۔یہ روور2009ء میں ایک ریت کے ڈھیر میں پھنس گیا جس کی وجہ سے اس کی بیٹری چارجنگ میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ زمین پر موجود کنٹرول روم کے ساتھ اس کا آخری رابطہ 22 مارچ2010ء کو ہوا لیکن اس وقت تک یہ اپنا مشن مکمل کر چکا تھا۔ اس نے ناسا کے منصوبہ سازوں کی توقع سے کئی گنا زیادہ مؤثر انداز میں کام کیا۔ٹرپل الائنسٹرپل الائنس ایک دفاعی معاہدہ تھا جس پر 4 جنوری 1717ء کو ڈچ ریپبلک، فرانس اور برطانیہ کے درمیان بوربن سپین کے خلاف دستخط کئے گئے تاکہ1713ء سے1715ء تک ہونے والے امن کے یوٹریکٹ معاہدے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاسکے۔تینوں ریاستوں کو سپین کے یورپ میں سپر پاور بننے پر تشویش تھی۔ اسی تشویش کے نتیجے میں عسکریت پسندی ہوئی اور شہریوں کو بہت زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔اس معاہدے نے سپین اور دیگر یورپی ریاستوں کو بھی مشتعل کیا ۔ یہ معاہدہ اتحاد کے اگلے ہی سال رومی شہنشاہ چارلس ششم کے الحاق کے بعد کواڈرپل الائنس میں تبدیل ہو گیا۔