تخلیقی مصنوعی ذہانت، چین کا پہلا نمبر

تخلیقی مصنوعی ذہانت، چین کا پہلا نمبر

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد علی


''ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ (WIPO) کے مطابق تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI) پر مبنی ایجادات کے ملکیتی حقوق کی درخواست دینے والوں میں چین کے موجدین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI) کی موجودہ صورتحال پر ''ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ (WIPO )کی رپورٹ جو رواں برس جولائی کے شروع میں جاری کی گئی، کے مطابق اس معاملے میں چین نے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ علاوہ ازیں 2014ء سے 2023ء کے درمیان دنیا بھر میں ''GenAI‘‘ پر مبنی 54 ہزار ایجادات ہوئیں جن میں 25 فیصد سے زیادہ گزشتہ برس ریکارڈ کی گئیں۔اس عرصہ میں چین سے تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI)کی 38 ہزار سے زیادہ ایجادات سامنے آئیں جو کہ امریکہ اور انڈیا سے چھ گنا زیادہ ہیں۔
سب سے زیادہ ایجادات کے اعتبار سے امریکہ دوسرے اور انڈیا پانچویں درجے پر ہے۔ اس عرصہ میں ان پانچوں ممالک میں اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایجادات میں اضافے کی سالانہ شرح 56 فیصد رہی۔ اب ''GenAI‘‘ کا دائرہ روز مرہ زندگی سے متعلق سائنس، صنعتوں، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات تک پھیل رہا ہے۔
''GenAI‘‘ یا تخلیقی مصنوعی ذہانت انقلابی ٹیکنالوجی کے طور پر سامنے آئی ہے جو لوگوں کے کام کرنے، رہن سہن اوردیگر بہت سے امور کے طریقوں کو مثبت اور نمایاں طور سے تبدیل کر سکتی ہے۔ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کو امید ہے کہ ملکیتی حقوق سے متعلق رحجانات اور معلومات کا تجزیہ کرنے سے ہر ایک کو تیزی سے ترقی پاتی اس ٹیکنالوجی اور اس کی سمت کے بارے میں بہتر سمجھ بوجھ فراہم کی جا سکتی ہے۔ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈیرن ٹینگ کا کہنا ہے کہ اس تجزیے سے پالیسی سازوں کو سبھی کے عام فائدے کیلئے ''GenAI‘‘ کی ترقی کو انسان دوست انداز سے متشکل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ رپورٹ موجدین، محققین اور ایسے دیگر لوگوں کیلئے ''GenAI‘‘سے بہتر طور پر کام لینے میں بھی معاون ہو گی۔
گزشتہ سال دنیا بھر میں ''GenAI‘‘ پر مبنی ٹیکنالوجی کے جاری کردہ ملکیتی حقوق کی تعداد 25 فیصد اور اس ٹیکنالوجی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی۔ اس وقت'' GenAI‘‘سے متعلق جاری ہونے والے ملکیتی حقوق کی تعداد دنیا بھر میں تمام ایجادات کے جاری ہونے والے ملکیتی حقوق کا 6 فیصد ہے۔
2014ء اور 2023ء کے درمیان تخلیقی مصنوعی ذہانت سے متعلق 54 ہزار ایجادات کے ملکیتی حقوق کیلئے درخواستیں دی گئیں اور اس ٹیکنالوجی کے بارے میں 75 ہزار سائنسی مضامین شائع ہوئے۔ 2017ء میں ''لارج لینگوئج ماڈل‘‘ کے پیچھے ڈیپ نیورل نیٹ ورک آرکیٹیکچر متعارف ہونے کے بعد ''GenAI ‘‘ کے ملکیتی حقوق کی تعداد میں آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے۔''GenAI‘‘کے ملکیتی حقوق کیلئے سب سے زیادہ درخواستیں دینے والوں میں چینی ٹیکنالوجی کمپنی Tencent (2,074 )،Ping An Insurance (1,564) ، Baidu(1,234) ، ''چائینز اکیڈمی آف سائنسز‘‘ (607)، ''آئی بی ایم‘‘ (601) ، علی باب گروپ(571)، سام سنگ الیکٹرانکس (468)، الفابیٹ (443)، بائٹ ڈانس (418) اور مائیکروسافٹ (377) شامل ایجادات ہیں۔
طبی ٹیکنالوجی
میں ترقی
طبی ٹیکنالوجی پر مبنی سب سے زیادہ ایجادات چین (38,210)، امریکہ (6,276)، کوریا (4,155)، جاپان (3,409) اور انڈیا (1,350) میں ہوئیں۔ ''GenAI‘‘کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے جن ایجادات کے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے ان میں بیشتر (17,996) کا تعلق تصاویر اور ویڈیو سے تھا۔ اس کے بعد تحریری مواد پر مبنی ایجادات (13,494) کو ملکیتی حقوق جاری کیے گئے۔
گفتگو/موسیقی پر مبنی مواد کی 13,480 ایجادات رجسٹرڈ ہوئیں۔مالیکیول، جین اور پروٹین سے متعلق معلومات پر مبنی ٹیکنالوجی کی ایجادات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2014 کے بعد ایسی 1,494 ایجادات کے لیے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے جبکہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ان میں اوسط سالانہ اضافے کی شرح 78 فیصد تک رہی۔
مصنوعی ذہانت مستقبل کے امکانات
یہ ملکیتی حقوق بہت سے شعبوں سے متعلق ٹیکنالوجی کیلئے جاری کیے گئے جن روزمرہ زندگی کی سائنس سے متعلق 5,346، دستاویزات کے انتظام و اشاعت سے متعلق 4,976 اور کاروباری طریقوں، صنعت اور اشیا کی تیاری، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں سے ہر ایک میں 2,000 ایجادات کے لیے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے۔
''ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ (WIPO) کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI)نئے مالیکیول کی تیاری اور ادویہ سازی کو وسعت دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے جبکہ اس سے دستاویزات کے انتظام و اشاعت کو خودکار بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، نچلی سطح پر اشیا کی فروخت، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام اور خودکار ڈرائیونگ سمیت صارفین کی خدمات کیلئے کام کرنے والے چیٹ بوٹس میں اس کا استعمال بڑھنے کا امکان ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نمل جھیل پہاڑوں کے درمیان خوبصورت تفریحی مقام

نمل جھیل پہاڑوں کے درمیان خوبصورت تفریحی مقام

نمل ڈیم کے ساتھ وادیٔ نمل کے ایک کونے میں واقع نمل جھیل میانوالی، خوشاب، تلہ گنگ، چکوال اور دیگر ملحقہ شہروں کیلئے تفریح گاہ ہے۔ پہاڑیوں کے دامن میں واقع یہ جھیل 1913ء میں بنائی گئی تھی۔ میانوالی سے تقریباً 32 کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ جھیل ساڑھے پانچ مربع کلومیٹر کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے مغرب اور جنوب میں پہاڑ ہیں جبکہ شمال اور مشرق میں زرعی علاقہ ہے۔ پہاڑوں سے چشموں اور برساتی نالوں کا پانی اس جھیل میں آتا ہے۔ جھیل زرعی اراضی کو سیراب کرنے کا بھی باعث ہے۔ یہاں کی زمین بے حد زرخیز اور سر سبز تھی۔ لوگ یہاں پر کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ اس وقت اس علاقہ میں کنوؤں کی تعداد لگ بھگ سو کے قریب تھی۔ یہ علاقہ جو وادی نمل کے نام سے جانا جاتا ہے کئی صدیوں سے آباد چلا آرہا ہے۔ اس حقیقت کا پتہ جھیل کے کنارے واقع قدیم قبرستان سے بھی ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ روایت بھی مشہور ہے فرنگی عہد سے قبل جب پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی اس علاقے کا فرمانروا راجہ سر کپ ہوا کرتا تھا جو اپنے وقت کا عیاش اور سخت گیر حاکم تھا، کہا جاتا ہے کہ ان پہاڑیوں پر اس نے اپنی ایک محل نما حویلی بنا رکھی تھی جس میں وہ جوا کھیلا کرتا تھا۔ اس کی یہ شرط تھی کہ جو کوئی اسے شکست دے گا وہ اسے اس علاقے کا حکمران بنا دے گا لیکن جو اس سے بازی ہار جائے گا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔چنانچہ اس نے اس دوران سینکڑوں لوگوں کے سر قلم کیے بالآخر سیالکوٹ کے راجہ نے یہ معرکہ سر کر لیا۔ اس نے راجہ سر کپ کو ہرا کر بازی جیت لی اور اس کے نتیجے میں راجہ سر کپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اس سے کر دی اور یوں وہ اس تمام علاقے کا مالک و خودمختار ٹھہرا۔نمل جھیل 1200 ایکڑ پر مشتمل وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اس کی گہرائی تقریباً 20بیس فٹ ہے پہاڑوں سے آبی چشموں اور برساتی نالہ کے ذریعے آنے والا پانی جب یہاں پہنچتا ہے تو نمل کے کشادہ بازو اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں جھیل کا یہ پانی میانوالی شہر اور اس سے ملحقہ دیہات کو سیراب کرتا ہے اس مقصد کیلئے پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا سا ڈیم تعمیر کیا گیا ہے جب جھیل کا پانی ڈیم کے آہنی درازوں میں سے ہوتا ہوا دوسری طرف نالے میں آبشار کی صورت میں گرتا ہے تو اس سے خوفناک آواز پیدا ہوتی ہے۔ کنارے پر اللہ کے ایک برگزیدہ بندے حضرت حافظ جی کا مزار ہے۔6اور7شعبان کو حافظ جی کا عرس ہوتا ہے۔ سالانہ عرس کے علاوہ ماہ محرم کی ساتویں اور آٹھویں تاریخوں کو بھی دور دراز سے لوگ جوق در جوق یہاں آتے ہیں اور اس مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ اس موقع پر یہاں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ عقیدت مندوں کی غیر معمولی تعداد کے پیش نظر یہاں پر عارضی دکانیں بن جاتی ہیں۔ مزار سے ملحقہ ایک مسجد بھی ہے جس میں آج بھی قال اللہ اور قال الرسول کی صدائے دلنشین سنائی دیتی ہے۔ 1984ء سے مزار کا انتظام محکمہ اوقاف نے سنبھال رکھا ہے۔مزار حافظ کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس بھی بنایا گیا ہے جو دو کمروں لان اور خوبصورت صحن پر مشتمل ہے یہاں سے جھیل کا منظر آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔مزار کی جانب آبادی خانقاہ حافظ جی کے نام سے موسوم ہے جبکہ دوسری طرف کی آبادی نمل گاؤں کے نام سے موسوم ہے۔ یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے اس جھیل کو عبور کرتے ہیں۔ کشتیوں کے علاوہ ان لوگوں کیلئے کوئی ذریعہ آمدروفت نہیں ہے۔نمل جھیل میں ایک فش فارم بھی بنایا گیا ہے جس کا باقاعدہ ٹھیکہ دیا جاتا ہے اس کا انتظام ضلع کونسل میانوالی کے سپرد ہے۔ یہاں مچھلیوں کا قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے لوگ یہاں پر مچھلیاں پکڑتے ہیں۔مچھلی کے علاوہ جھیل میں مرغابیوں کا شکار بھی ہوتا ہے سابق صدر فلیڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم، سابق گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان مرحوم اور دیگر اعلیٰ شخصیات یہاں شکار کرنے اور تفریح کی غرض سے آتی رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میانوالی، خوشاب، تلہ کنگ، چکوال اور دیگر ملحقہ شہروں کیلئے یہ جھیل ایک خوبصورت او ر بے مثال تفریحی مقام کا درجہ رکھتی ہے،لوگ اہل خانہ کے ساتھ پکنک منانے اور ان قدرتی اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔ متذکرہ بارانی علاقوں، خشک اور بے مزہ ماحول میں رہنے والوں کیلئے نمل جھیل سے بہتر کوئی تفریحی مقام نہیں ہے۔جھیل کے انتظام سے متعلقہ محکمہ کے ارباب اسے مزید خوبصورت حسین او ر دلکش بنانے کیلئے خصوصی توجہ دیں، تاکہ یہاں آنے والوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بھر پور طریقے سے ان مناظر سے لطف اندوز ہوں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

''اپالو11‘‘کی روانگی16جولائی 1969ء کو ناسا کا مشن ''اپالو 11‘‘ چاند کے مشن پر روانہ ہوا۔اسے فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے لانچ کیا گیا۔ ''اپالو 11‘‘ امریکی خلائی پرواز تھی جس نے پہلی بار انسانوں کو چاند پر اتارا۔ کمانڈر نیل آرمسٹرانگ اور خلائی جہاز کے پائلٹ بز ایلڈرن نے 20 جولائی 1969ء کوخلائی جہاز کو چاند پر لینڈ کیا اور آرمسٹرانگ چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے شخص بن گئے۔ایلڈرن 19 منٹ بعد آرمسٹرانگ کے ساتھ شامل ہوا، اور دونوں نے تقریباً ڈھائی گھنٹے اکٹھے اس جگہ کی کھوج میں گزارے جس کا نام انہوں نے لینڈنگ کے وقت ٹرنکولیٹی بیس رکھا تھا۔ مونٹ بلانک ٹنل16جولائی1965ء کو فرانس اور اٹلی کو آپس میں ملانے والی ''مونٹ بلانک ٹنل‘‘ کو عام لوگوں کیلئے کھولا گیا۔ ''مونٹ بلانک ٹنل‘‘ فرانس اور اٹلی کے درمیان الپس میں مونٹ بلانک پہاڑ کے نیچے ایک شاہراہ سرنگ ہے۔ یہ گزرگاہ ایک اہم ٹرانس الپائن نقل و حمل کے راستوں میں سے ایک ہے، خاص طور پر اٹلی کیلئے جو شمالی یورپ تک اپنے ایک تہائی مال برداری کیلئے اس سرنگ پر انحصار کرتا ہے۔ یہ فرانس سے ٹورن تک کے راستے کو 50 کلومیٹر اور میلان تک 100 کلومیٹر تک کم کر دیتا ہے۔ مونٹ کی چوٹی کے شمال مشرق میں، سرنگ مونٹ ڈولنٹ کے قریب سوئٹزرلینڈ کے ساتھ سہ رخی کے جنوب مغرب میں تقریباً 15 کلومیٹر ہے۔زہریلا کھانا 16 جولائی 2013ء کوبھارت کے ایک سکول میں زہریلا کھانا کھانے سے درجنوں بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ واقعہ بھارتی ریاست بہار کے سارن ضلع کے گاؤں گنڈامن کے پرائمری سکول میں پیش آیاجہاںلنچ کیلئے لائے کھانے میں کیڑے مار دوا ملی ہوئی تھی۔ کیڑے مار دواسے آلودہ مڈ ڈے میل کھانے کے بعد کم از کم 23 طلباء کی موت ہو گئی جبکہ درجنوں بچے تشویشناک حالت کے باعث آئی سی یو میں زیر علاج رہے۔سانحہ کے بعد بچوں کے والدین و رشتہ داروں نے احتجاج کرتے ہوئے کئی شاہراہوں کو بلاک کر دیا۔جس کے نتیجے میں حکومت کو فوری طور پر حرکت میں آنا پڑا ۔جاپان میں شدید زلزلہجاپان کے چیٹسو آف شور میں16 جولائی 2007ء کو ایک خوفناک زلزلہ آیا۔یہ علاقہ جاپان کے شمال مغرب میںواقع ہے۔یہ زلزلہ ایک فالٹ لائن پر آیا تھا اس لئے اس نے نیگاٹا اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔اس زلزے کی شدت 6.6 ریکارڈ کی گئی۔اس خوفناک زلزلے کے جھٹکے ٹوکیو تک محسوس کئے گئے۔ زلزلے کی وجہ سے متعدد افراد جاں بحق جبکہ تقریباً 1100زخمی ہوئے۔ 342عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں جن میں زیادہ تر لکڑی کی بنی ہوئی تھیں۔ عمارتوں کی تباہی کی وجہ سے گیس اور بجلی کا نظام مکمل طور پر معطل ہو گیا جس کی وجہ سے لوگوں میں زیادہ خوف و ہراس پھیلا۔  

دنیا کے مہنگے ترین جانور

دنیا کے مہنگے ترین جانور

زمانہ قدیم سے جانوروں کا انسان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔انسان نے جب پہلی مرتبہ پہاڑوں اور غاروں سے نکل کر تلاش رزق کیلئے جنگلوں اور میدانوں کا رخ کیاتو پہلے پہل ایک عرصہ تک اس ''مخلوق ‘‘ نے اسے خوفزدہ کئے رکھا۔ رفتہ رفتہ اپنے بچاو کیلئے جب اس نے جانوروں کا شکار کرنا شروع کیا تو اسے محسوس ہوا کہ پھلوں اور اناج کے علاوہ جانوروں کا شکار بھی اس کی خوراک کا حصہ بن سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے پالتو جانوروں کو رواج دینا شروع کیا اور یوں جانور انسانی زندگی میں ذرائع نقل و حمل سے لے کر زراعت ، ایندھن اور خوراک کا اہم ذریعہ بنتے چلے گئے۔قارئین کی دلچسپی کیلئے ذیل میں دنیا کے کچھ مہنگے اور نایاب ترین جانوروں کا ذکر کرتے ہیں۔مہنگے ترین گھوڑےگھوڑا چونکہ صدیوں سے بادشاہوں کی سواری اور امیروں کا ہی کھیل چلا آرہا ہے اس لئے گھوڑوں کی قیمت دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ اس کا گھڑ دوڑ میں شامل ہونا بھی ہے۔گھوڑوں کا جب بھی ذکر ہو ،دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کا نام ذہن میں آتا ہے جن کا شمار دنیا کے ان چند افراد میں ہوتا ہے جنہیں گھوڑوں سے بہت لگائو ہے۔ شیخ محمد بن راشد نے اپنے شوق کی تکمیل کیلئے ''گوڈولفن ‘‘نامی ایک ہارس ٹریڈنگ کلب بھی بنا رکھا ہے۔انگلینڈ میں 2019ء میں گھوڑوں کی فروخت کا اہتمام کرنے والی ایک کمپنی ''ٹاٹر سیلز‘‘نے جب ایک میلہ سجایا تو '' دباوی ہاف برادر‘‘ نامی گھوڑے کا بڑا چر چا تھا جو اس سے قبل متعدد مقابلے جیت چکا تھا۔نیلامی شروع ہوئی تو اس کی بولی 34 لاکھ گینی پر آکر رک گئی ۔جسے شیخ راشد نے 36 لاکھ گینی میں اپنی کمپنی کے نام بولی دے کر خریدلیا۔یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 68 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے ۔(گینی ایک آن لائن کوائن ہے جسے بین الاقوامی طور پر گھوڑوں کی خرید و فروخت میں استعمال کیا جاتا ہے )۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اب تک سب سے مہنگے گھوڑے کی قیمت کا ریکارڈ ''فیو سیچی پیگا سس‘‘نامی گھوڑے کے پاس ہے جو 2000ء میں 6 کروڑ 40 لاکھ ڈالر (17ارب 92کروڑ پاکستانی روپے)میں فروخت ہوا تھا۔بگ سپلیش نامی کتا دنیا میں امریکہ اور برطانیہ میں پالتو کتوں کی قیمتیں عام طور پر دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال 2019 میں برطانیہ میں نیلام ہونے والا " بگ سپلیش " نامی ایک کتا ہے جو ایک نیلامی کے ذریعے 11لاکھ برطانوی پاونڈ (38 کروڑ 50 لاکھ پاکستانی روپے ) میں فروخت کیا گیا تھا۔ایک سروے کے مطابق کسی بھی کتے کی یہ اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔تبت کی معروف نسل کا یہ کتا ''ماسٹف نسل‘‘ سے تعلق رکھتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نسل کے کتے وسطی ایشیاء اور تبت کے قدیم قبائل صدیوں سے شکار کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس نسل کے کتے چین میں امارت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ جہاں تک مذکورہ کتے کی خریداری کا تعلق ہے ،اس بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ کتا چین کے ایک کاروباری شخص نے خریدا تھا جو چین میں کوئلے کی کانوں کا مالک ہے۔اس نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ، ہو سکتا ہے وہ اس نر کتے کو نسل بڑھانے کیلئے کرائے پر دینا شروع کر دے۔ مہنگی ترین بلیاںبلیوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ اب تک فروخت ہونے والی سب سے مہنگی گھریلو بلی ''سوانا‘‘ کا ریکارڈ ہے۔بقول ''بی بی سی فیوچر ‘‘ اسے ایک برطانوی شخص نے 20 ہزار ڈالر (56 لاکھ پاکستانی روپے ) میں خریدا تھا۔گنیز بک آف ورلڈ کے مطابق قیمت کے لحاظ سے آج تک کی سب سے مہنگی بلی '' بلیکی‘‘ تھی جو ہیروں کے ایک تاجر کی ملکیت تھی۔ 1988ء میں اس تاجر کی موت کے بعد ایک وصیت سامنے آئی جس میں اس نے اس کی70 لاکھ ڈالر ( ایک ارب 96کروڑ پاکستانی روپے ) کی قیمت کا تعین کر رکھا تھا اور یہ وضاحت بھی کر رکھی تھی کہ ستر لاکھ ڈالر میں فروخت کی گئی رقم اس کے خاندان کو نہ دی جائے۔ تیز ترین کبوتر 2019 میں برطانیہ کے ایک نیلام گھر ''پیپا‘‘ میں '' ارمانڈو ‘‘ نامی ایک کبوتر کی نیلامی 17لاکھ پاونڈ (تقریباً60کروڑ روپے)میں ہوئی۔ نیلام گھر انتظامیہ کے مطابق یہ کبوتر اپنی طویل ترین پرواز میں اپنا ثانی نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اسے '' بہترین کبوتر‘‘ کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نیلام گھر انتظامیہ نے بتایا کہ یہ کبوتر پرواز کے متعدد مقابلے جیت کر لاکھوں پونڈ انعام بھی جیت چکا ہے۔ مہنگی ترین بھیڑ 2009ء میں سکاٹ لینڈ میں ایک نیلامی کے دوران ٹیکسل نسل کی ''ڈبل ڈائمنڈ‘‘ نامی ایک بھیڑ دولاکھ 31 ہزار پاونڈ (تقریباً 8کروڑ روپے پاکستانی )میں فروخت ہوئی تھی۔ جس کی بابت کہا جاتا ہے نہ تو اس سے پہلے کبھی کوئی بھیٹر اتنی مہنگی بکی تھی اورنہ ہی اس کے بعد آج تک کوئی بھیڑ اتنی قیمت میں فروخت ہوئی۔اس بھیڑ کے مالک کا دعویٰ تھا کہ اس کی خوراک اور صحت کا چوبیس گھنٹے خیال رکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے یہ اپنے مضبوط پٹھوں اور جسمانی ساخت میں نہ صرف منفرد تھی بلکہ پہلی نظر ہی میں یہ دوسری بھیڑوں سے ممتاز نظر آتی تھی۔ بلیک پونڈ کچھوے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں آج سے کچھ عرصہ پہلے بتایا گیا تھا کہ پاکستانی کچھوے بالخصوص ''بلیک پانڈ‘‘ اپنی متعدد خصوصیات کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال پاکستان سے غیر قانونی طور پر سیکڑوں کچھوے سمگل ہو کر پاکستان سے انڈونیشیا ، جنوبی کوریا ، چین ، ویتنام سنگاپور اورہانگ کانگ چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 11 اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں جن میں 8 اقسام سندھ اور پنجاب میں دریائے سندھ میں جبکہ 3 اقسام سمندری پانی میں پائے جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی اوسط قیمت 1500 ڈالر ( سوا چار لاکھ روپے) تک ہے۔ ان کی بڑھتی قیمت پر تبصرہ کرتے ہوئے وائلڈ لائف سندھ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ کچھوے یورپ، امریکہ اور چین کے علاوہ بیشتر ممالک میں بطور پالتو جانور رکھنے کا شوق دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ سب سے مہنگی گائے ایک برطانوی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اب سے کچھ عرصہ پہلے دنیا کی سب سے مہنگی گائے کا اعزاز برازیل کی نیلور بریڈ کی ''ویاٹینا ۔19 ایف آئی وی مارا‘‘ کے نام جاتا ہے۔چار سالہ عمر کی اس گائے کی نیلامی برازیل کے شہر اراندو میں 43 لاکھ امریکی ڈالرز میں ہوئی ہے۔یہ رقم پاکستانی کرنسی کے مطابق ایک ارب 20کروڑ روپوں سے زیادہ بنتی ہے۔ٹیونا کنگ مچھلی دنیا کی سب سے مہنگی مچھلی خریدنے کا ریکارڈ جاپانی تاجر کیوشی کمورا کے نام ہے جنہوں نے 2019ء میں ایک کنگ سائز بلو فن ٹیونا 2 لاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ( 8 کروڑ 75 لاکھ روپے ) میں جاپان میں ہونے والی نیلامی میں خریدی تھی۔ ٹیونا کنگ نامی اس نایاب مچھلی کا وزن 278 کلو گرام تھا۔ اسے خریدنے والے تاجر جو جاپان میں ایک ہوٹل کے مالک ہیں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اقرار کیا کہ انہوں نے یہ مچھلی کچھ مہنگی خریدی ہے لیکن انہیں اپنے گاہکوں کیلئے اعلی ذائقے والی یہ مچھلی پیش کر کے دلی خوشی ہو گی۔پانڈادنیا کے مہنگے ترین جانوروں میں''بڑا پانڈا‘‘ ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ا س کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی تمام آبادی چین کی ملکیت ہے۔ اور بہت سے چڑیا گھروں کو اس کی میزبانی کی سالانہ فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ ہر سال ا س کی میزبانی کی مدمیں دس لاکھ ڈالر (28 کروڑ پاکستانی روپے )ادا کرتا ہے۔ بیس سال کی عمر تک پہنچنے والے ان جانوروں کے ہاں اگر بچے پیدا ہوتے ہیں تو میزبان ملک ، چین کو 6 لاکھ امریکی ڈالر (16 کروڑ80 لاکھ روپے پاکستانی )ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

صحت مند رہنے کے خاص مشروب

صحت مند رہنے کے خاص مشروب

صبح کے وقت پیا گیا پانی ہمارے جسم کے میٹابولزم کو درست حالت میں رکھتا ہے اور پیٹ صاف کرنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دن کی شروعات ایک یا2 لیٹر پانی پی کر کرنے سے جسم سے زہریلے مادّے خارج ہو جاتے ہیں۔ پانی کے علاوہ بھی کئی ایسے مشروبات ہیں جو مرد و خواتین، دونوں کو ہی ایک صحتمند اور صاف جلد پانے میں معاون ہوتے ہیں۔ جانئے ایسے 5 مشروبات کے بارے میں۔ تاہم، ان میں سے کسی ایک ہی کو اپنی روٹین کا حصہ بنائیں۔ بیک وقت دو مشروبات پینے سے پرہیز کریں۔ واٹر تھیراپی صحیح مقدار میں پانی پینے کے ناقابل ِ یقین نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے جسم میں75 فیصد پانی ہوتا ہے اور پانی ایسی کئی ذمہ داریاں نبھاتا ہے جس سے جلد صاف اور صحتمند رہتی ہے۔ دوسری جانب پانی ہمیں ڈی ہائیڈریٹ سے بھی بچاتا ہے جس کی وجہ سے جلد روکھی نہیں ہوتی ہے۔ روزانہ کم سے کم5.4 سے لے کر 5.5 لیٹر پانی پینے سے آپ کے جسم میں منرلز اور آکسیجن کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ اس سے جسم میں جمع ٹاکسن بھی باہر نکل جاتے ہیں جس سے جلد میں نمی برقرار رہتی ہے، ساتھ ہی یہ جسم کے الیکٹرالائٹس کو بھی متوازن رکھتا ہے جس سے مہاسوں سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔شہد اور لیموں کا پانی ایک گلاس پانی میں 2 سے 3 بڑے چمچے شہد، ایک بڑا چمچہ لیموں کا رس ملائیں صبح کی پہلی خوراک کے طور پر اسے پئیں۔ یہ ایک الیکٹرالائٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور اینٹی آکسیڈنٹس اور اینٹی ایجنگ اجزاء بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سے جسم کو زہریلے مادّے باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ وزن گھٹانے میں بھی کارگر ہے۔ شہد میں اینٹی ایجنگ جزو موجود ہوتے ہیں جو آپ کی جلد کو موئسچرائز رکھتے ہیں اور لیموں میں وٹامن سی ہوتا ہے جو جلد کیلئے نئے خلیے بنانے میں مدد کرتا ہے۔پھلوں کا جوس پھل وٹامنس اور مائیکرو نیوٹرینس سے بھرپور ہوتے ہیں۔ گاجر، چقند، انار جیسے پھل اور شکرقند جیسی سبزیاں منرلز اور وٹامنس سے بھرپور ہوتی ہیں جو کیل مہاسے سے نجات دلا کر ہمیں ایک صحتمند اور صاف جلد پانے میں مدد کرتی ہیں۔ گاجر اور چقندر میں وٹامن اے کی بھرپور مقدار ہوتی ہے جو مہاسے، جھریاں اور دانوں کو روک کر جلد کو صحتمند بناتا ہے۔ چقندر کا رس دوران خون کے نظام کو درست رکھتا ہے۔گرین ٹیاگر آپ چائے کی دلدادہ ہیں تو اپنی خوراک میں گرین ٹی یا لیمن ٹی ضرور شامل کریں۔ اس سے مہاسے سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے۔ اس میں وٹامن سی کے ساتھ ساتھ کئی غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو جلد کو صحتمند رکھنے میں معاون ہوتے ہیں اور قدرتی نکھار آتا ہے۔ہلدی والا دودھ ہلدی قدرتی دوا ہے جو اینٹی بائیوٹک اور اینٹی وائرل ایجنٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے جو عمر بڑھانے کے عمل کو دھیما کر دیتے ہیں۔ روزانہ صبح دودھ یا گرم پانی میں ایک چمچہ ہلدی ملا کر پینے سے جلد صحتمند رہتی ہے۔  

لندن کا منفرد مقام سٹی آف ویسٹ منسٹر

لندن کا منفرد مقام سٹی آف ویسٹ منسٹر

ویسٹ منسٹر کا شہر ایک ایسا شہر ہے جو لندن عظمیٰ کے اندر ایک منفرد مقام اور حیثیت کا حامل ہے۔ یہ شہر لندن کے مرکزی علاقہ پر محیط ہے، جس طرح لندن متحدہ برطانیہ کا دل ہے اور اگر لندن کے دل کو ویسٹ منسٹر سے تشبیہ دیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ویسٹ منسٹر دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ اس کی آبادی تقریباً دو لاکھ پچپن ہزار اور رقبہ 21مربع کلو میٹر ہے۔1540ء میں ویسٹ منسٹر کو بلدیاتی قصبہ کا درجہ دیا گیا۔ویسٹ منسٹر لندن میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اس لئے لندن کے زیادہ تر تاریخی مقامات، عمارتیں، تفریح گاہیں، پارک، تھیڑ، شاپنگ کے بڑے بڑے مراکز، تعلیمی ادارے، محلات، میوزیم، کھیلوں کے میدان اسی شہر میں واقع ہیں بلکہ یوں کہیں کہ صحیح معنوں میں لندن کی وجہ شہرت اور پہچان ویسٹ منسٹرہی ہے۔ ویسٹ منسٹرایبے، ویسٹ منسٹر کیتھڈرل اب کنگ چارلس کی سرکاری رہائش گاہ بکنگھم پیلس، ہائوس آف پارلیمنٹ، سینٹ جیمز پیلس، برطانیہ کے وزیراعظم کی سرکاری اور تاریخی رہائش گاہ10ڈائوننگ سٹریٹ، ٹیٹ برٹن آرٹ گیلری، نیشنل پورٹریٹ گیلری، مشہور زمانہ ہائیڈپارک، ٹریفالگراسکوائر، رائل البرٹ ہال، کورٹ آف جسٹس، بگ بین، پکاڈلی سرکس، ریجنٹ مسجد، ریجنٹ پارک، کرکٹ کی دنیا میں جانا پہچانا نام اوول اور لارڈ کرکٹ گرائونڈ، رائل او پیرا ہائوس، کنسٹنگٹن گارڈن، سینٹ جیمز پارک، گرین پارک، دی مال، وکٹوریہ میموریل، مادام تسائو، بی بی سی کا ہیڈ کوارٹر، رائل البرٹ ہال میوزیم، امپریل کالج آف سائنس، آکسٹورڈ سٹریٹ، ریجنٹ سٹریٹ، یہ سب مقامات جو بذات خود اپنا اپنا تشخص اور مقام رکھتے ہیں، ویسٹ منسٹر ہی کا حصہ ہیں۔ لندن کا شہر ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے لیکن سٹی آف ویسٹ منسٹر برطانیہ کا سیاسی اور ثقافتی مرکز ہے۔جب بھی اور جہاں بھی مندرجہ بالا مقامات کا ذکر آئے گا وہاں ویسٹ منسٹر کا ذکر ضرور آئے گا بلکہ جہاں لندن کا ذکر آئے گا وہاں لازمی طور پر ویسٹ منسٹر کے ذکر کے بغیر لندن کا ذکر ادھورا رہ جائے گا۔ اس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ویسٹ منسٹر لندن میں کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ لندن کے کئی مشہور لگژری ہوٹل، ریستوران، اسلامک کلچر سنٹر اور مرکزی مسجد یہ سب ویسٹ منسٹر ہی میں واقع ہیں۔مشاہیر:کئی مشہور معروف شخصیات جن کا زندگی میں کسی طور ویسٹ منسٹر شہر سے تعلق رہا ہے، ان کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ڈیوڈ کیمرون، چارلس ڈکنز، ٹی ایس ایلیٹ، سابقہ کوئن آف یو کے الزبتھ ثانی، میڈونا، ایچ جی ویلز۔ اس کے علاوہ ویسٹ منسٹرایبے چرچ میں ولیم شیکسپیئر، چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی،رڈیارڈ کپلنگ، جین آسٹن لارڈبائرن مدفون ہیں۔کئی ممالک کے سفارتخانے، ہائی کمیشن بھی ویسٹ منسٹر سٹی میں موجود ہیں ان میں آسٹریلیا، برونائی، کینیڈا، قبرص، گھانا، انڈیا، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، نائیجیریا، پاکستان، سنگا پور، پاپا نیو گنی، جنوبی افریقہ، ٹرینیڈا لینڈ ٹوباگو اور یوگنڈا قابل ذکر ہیں۔ویسٹ منسٹر میں 27انڈر گرائونڈ سٹیشن ہیں اور گیارہ میں سے دس لائنیں ویسٹ منسٹر کی حدود سے گزرتی ہیں۔ لندن شہر کے دوسرے حصوں کی نسبت ویسٹ منسٹر کا جی ڈی پی بھی زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ جی ڈی پی کسی ملک یا مخصوص علاقے میں معاشی ترقی کی رفتار ماپنے جانچنے کا ایک پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ویسٹ منسٹر یونیورسٹی رینک کے اعتبار سے یو کے میں چھٹی اور دنیا میں 20ویں نمبر پر ہے اور اس میں طلباء کی تعداد 20ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ گزشتہ ایک ہزار سال میں ویسٹ منسٹرایبے چرچ میں شاہی خاندان کی شادیوں، تاجپوشی اور تدفین کی رسومات بھی منعقد ہوتی ہیں۔

سترہویں صدی : ایجادات و نظریات کا دور

سترہویں صدی : ایجادات و نظریات کا دور

سترہویں صدی میں سائنس کی نشوؤنما اور ترقی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس صدی میں بہت سا کام ہوا۔ اس صدی کی ابتداء میں گلیلیو نے ایسی دوربین تیار کی جو بہت دور واقع اجسام کو بہت بڑا کر کے دکھا سکتی تھی۔ جب گلیلیو نے اپنی دوربین کا رخ چاند کی طرف موڑا تو اس نے دیکھا کہ چاند کی سطح صاف و شفاف نہیں ہے، جیسا کہ زمین سے یہ دکھائی دیتا ہے بلکہ اس کی سطح پر بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ مشتری سیارہ کے خود اپنے چاند ہیںجو اس کے اطراف اسی طرح گھومتے رہتے ہیں جس طرح چاند زمین کے اطراف گھومتا ہے۔ گلیلیو اطالوی ماہر فلکیات اور فلسفی تھا۔ سائنسی انقلاب پیدا کرنے میں اس کا کردار اہم ہے۔ اس نے اشیا کی حرکات، دوربین، فلکیات کے بارے میں بیش قیمت معلومات فراہم کیں۔ اسے جدید طبیعیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ گلیلیو نے مرکب خوردبین تیار کی۔ اس ایجاد کے بعد ایسے چھوٹے چھوٹے ذرات اور اجسام کو دیکھنا ممکن ہو گیا جن کو سادہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ارسطو کا نظریہ تھا کہ بھاری اجسام ہلکے اجسام کی نسبت زیادہ شتابی سے زمین کی طرف لپکتے ہیں۔ نسل درنسل ماہرین اور سکالر یونانی فلسفی پر اعتماد کرتے ہوئے اس نظریہ کو درست تسلیم کرتے رہے۔ گلیلیو نے اس کی آزمائش کافیصلہ کیا۔ آزمائشوں کے ایک سلسلہ کے ذریعے اس نے جلد ہی معلوم کرلیا کہ ارسطو کا خیال درست نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وزنی اور ہلکے اجسام ایک سی رفتار سے نیچے گرتے ہیں۔ جرمن ماہرفلکیات جوہانس کیپلر نے جو گلیلیو کا ہم عصر تھا، ریاضی کی مدد سے ثابت کیا کہ سورج کے اطراف سیارے بیضوی مدار میں گردش کرتے ہیں (کوپر نیکس کے نظریہ کے برخلاف)۔ سیاروں کی حرکت کے بارے میں بھی اس نے قوانین مدون کیے۔ یہ قوانین آج تک فلکیات کے مطالعہ میں استعمال ہوتے ہیں اور فی زمانہ مصنوعی سیاروں کے مداروں کے تعین کیلئے ان سے کام لیا جاتا ہے۔ کیپلر نے یہ بھی معلوم کیا کہ کہکشاں بہت سے تاروں کا ایک مجموعہ ہے۔ انگریز طبیب ولیم ہاروے نے سترہویں صدی کے اوائل میں سب سے پہلے اشکال کے ذریعہ انسانی جسم میں خون کے دوران کو وضاحت سے پیش کیا اور اس نے اپنی کتاب ''دل اور خون کی حرکت‘‘ شائع کی۔ ہاروے کی ان تحقیقات نے انسانی جسم کے مطالعہ میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دی۔ یہ فعلیات کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔ خوردبین کی ایجاد نے حیاتیات کے مطالعہ کو بہت ترقی دی۔ انتونی وان لیون ہوک نے خوردبین کی مدد سے نہایت چھوٹے جانداروں کا مطالعہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ بظاہر صاف و شفاف پانی میں بہت سے چھوٹے چھوٹے حیوانات ہوتے ہیں جن کو اب پروٹوزوا کہتے ہیں۔ اس نے پہلی مرتبہ خوردبین میں دیکھا کہ خون میں سرخ خلیے یا جسیمے پائے جاتے ہیں۔ رابرٹ ہک نے خوردبین میں پودوں کی جانچ کر کے بتایا کہ نباتی جسم چھوٹی چھوٹی اکائیوں کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان اکائیوں کو اس نے خلیوں کے نام سے موسوم کیا۔ سترہویں صدی کا سب سے مشہور سائنس دان سر آئزک نیوٹن ہے۔ اس کے مشہور کارناموں میں زمین کی کشش ثقل کا نظریہ، روشنی کا نظریہ، مادہ کی ذراتی ساخت کا نظریہ اور حرکت کے کلیے ہیں۔  نیوٹن نے اپنی سائنسی تحقیقات کا آغاز روشنی کے مطالعہ سے کیا تھا۔ اس نے منشور کے ذریعے سورج کی روشنی کا مطالعہ کر کے بتایا کہ سفید روشنی دراصل 7 مختلف روشنیوں کے ملنے سے بنتی ہے۔ نیوٹن کی مشہور تالیف ''طبیعی فلسفہ کے ریاضیاتی اصول‘‘ ہے یہ کتاب 1687ء میں طبع ہوئی تھی۔ سترہویں صدی کا مشہور کیمیا دان رابرٹ بوائل (1691-1627ء) تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے علم کی خاطر کیمیا کا مطالعہ کیا، نہ ادنیٰ دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی نیت سے کیا اور نہ ہی اکسیرحیات اور دوائیں تیار کرنے کے ارادے سے کیا۔ اس نے کیمیا کے مطالعے کے لیے تجرباتی طریقوں پر سختی سے عمل کیا اور ارسطو کے نظریۂ عناصر اور کیمیاگروں کے عناصر اربعہ کے نظریوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔ اس نے بتایا کہ دھاتوں سے کسی طریقہ سے بھی ان ''عناصر‘‘ کو حاصل نہیں کہا جا سکتا اور نہ سونے سے پارہ یا گندھک حاصل کی جا سکتی ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پارہ اور گندھک کے امتزاج سے سونا بنتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے کیمیائی عنصر کی تعریف بیان کی۔ اس نے بتایا کہ عنصر ایک ایسی شے ہے جس کو کسی معلوم طریقہ سے دو یا دو سے زیادہ سادہ اشیاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ رابرٹ بوائل کا کام جدید کیمیا کا نقطۂ آغاز مانا جاتاہے۔ سترہویں صدی کی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس صدی کے وسط تک ارسطو کی طبیعیات اورعلم کائنات کا خاتمہ ہو گیا۔ دور بین کی ایجاد نے اس تصور کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ زمین اجرام فلکی میں مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مادہ کی ماہیئت کے بارے میں ایک نئے تصور نے جنم لیا۔ معدنیات کے بارے میں معلومات کے اضافہ اور فنّیات کی ترقی کے باعث کیمیا گری کی جگہ علم کیمیا نے لے لی۔ طبیعی علوم میں تجربوں اور مشاہدوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو ریاضی کی شکلوں میں ظاہر کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ حیاتیاتی علوم میں ارسطو کے طریقوں سے کام لے کر حیوانات اور نباتات کی جماعت بندی کی گئی۔ سترہویں صدی کے ختم ہونے تک سائنسی علوم نے اس قدر ترقی کر لی تھی کہ ان کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہو گیا۔ ان کے دو بڑے شعبے بنائے گئے۔ طبیعی علوم اور حیاتیاتی علوم۔ یہ شعبے بھی خود اتنے وسیع ہیں کہ ان کی بھی تقسیم در تقسیم ضروری ہو جاتی ہے۔