تخلیقی مصنوعی ذہانت، چین کا پہلا نمبر
![تخلیقی مصنوعی ذہانت، چین کا پہلا نمبر](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27717_14858947.jpg)
اسپیشل فیچر
''ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ (WIPO) کے مطابق تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI) پر مبنی ایجادات کے ملکیتی حقوق کی درخواست دینے والوں میں چین کے موجدین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI) کی موجودہ صورتحال پر ''ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ (WIPO )کی رپورٹ جو رواں برس جولائی کے شروع میں جاری کی گئی، کے مطابق اس معاملے میں چین نے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ علاوہ ازیں 2014ء سے 2023ء کے درمیان دنیا بھر میں ''GenAI‘‘ پر مبنی 54 ہزار ایجادات ہوئیں جن میں 25 فیصد سے زیادہ گزشتہ برس ریکارڈ کی گئیں۔اس عرصہ میں چین سے تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI)کی 38 ہزار سے زیادہ ایجادات سامنے آئیں جو کہ امریکہ اور انڈیا سے چھ گنا زیادہ ہیں۔
سب سے زیادہ ایجادات کے اعتبار سے امریکہ دوسرے اور انڈیا پانچویں درجے پر ہے۔ اس عرصہ میں ان پانچوں ممالک میں اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایجادات میں اضافے کی سالانہ شرح 56 فیصد رہی۔ اب ''GenAI‘‘ کا دائرہ روز مرہ زندگی سے متعلق سائنس، صنعتوں، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات تک پھیل رہا ہے۔
''GenAI‘‘ یا تخلیقی مصنوعی ذہانت انقلابی ٹیکنالوجی کے طور پر سامنے آئی ہے جو لوگوں کے کام کرنے، رہن سہن اوردیگر بہت سے امور کے طریقوں کو مثبت اور نمایاں طور سے تبدیل کر سکتی ہے۔ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کو امید ہے کہ ملکیتی حقوق سے متعلق رحجانات اور معلومات کا تجزیہ کرنے سے ہر ایک کو تیزی سے ترقی پاتی اس ٹیکنالوجی اور اس کی سمت کے بارے میں بہتر سمجھ بوجھ فراہم کی جا سکتی ہے۔ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈیرن ٹینگ کا کہنا ہے کہ اس تجزیے سے پالیسی سازوں کو سبھی کے عام فائدے کیلئے ''GenAI‘‘ کی ترقی کو انسان دوست انداز سے متشکل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ رپورٹ موجدین، محققین اور ایسے دیگر لوگوں کیلئے ''GenAI‘‘سے بہتر طور پر کام لینے میں بھی معاون ہو گی۔
گزشتہ سال دنیا بھر میں ''GenAI‘‘ پر مبنی ٹیکنالوجی کے جاری کردہ ملکیتی حقوق کی تعداد 25 فیصد اور اس ٹیکنالوجی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی۔ اس وقت'' GenAI‘‘سے متعلق جاری ہونے والے ملکیتی حقوق کی تعداد دنیا بھر میں تمام ایجادات کے جاری ہونے والے ملکیتی حقوق کا 6 فیصد ہے۔
2014ء اور 2023ء کے درمیان تخلیقی مصنوعی ذہانت سے متعلق 54 ہزار ایجادات کے ملکیتی حقوق کیلئے درخواستیں دی گئیں اور اس ٹیکنالوجی کے بارے میں 75 ہزار سائنسی مضامین شائع ہوئے۔ 2017ء میں ''لارج لینگوئج ماڈل‘‘ کے پیچھے ڈیپ نیورل نیٹ ورک آرکیٹیکچر متعارف ہونے کے بعد ''GenAI ‘‘ کے ملکیتی حقوق کی تعداد میں آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے۔''GenAI‘‘کے ملکیتی حقوق کیلئے سب سے زیادہ درخواستیں دینے والوں میں چینی ٹیکنالوجی کمپنی Tencent (2,074 )،Ping An Insurance (1,564) ، Baidu(1,234) ، ''چائینز اکیڈمی آف سائنسز‘‘ (607)، ''آئی بی ایم‘‘ (601) ، علی باب گروپ(571)، سام سنگ الیکٹرانکس (468)، الفابیٹ (443)، بائٹ ڈانس (418) اور مائیکروسافٹ (377) شامل ایجادات ہیں۔
طبی ٹیکنالوجی
میں ترقی
طبی ٹیکنالوجی پر مبنی سب سے زیادہ ایجادات چین (38,210)، امریکہ (6,276)، کوریا (4,155)، جاپان (3,409) اور انڈیا (1,350) میں ہوئیں۔ ''GenAI‘‘کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے جن ایجادات کے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے ان میں بیشتر (17,996) کا تعلق تصاویر اور ویڈیو سے تھا۔ اس کے بعد تحریری مواد پر مبنی ایجادات (13,494) کو ملکیتی حقوق جاری کیے گئے۔
گفتگو/موسیقی پر مبنی مواد کی 13,480 ایجادات رجسٹرڈ ہوئیں۔مالیکیول، جین اور پروٹین سے متعلق معلومات پر مبنی ٹیکنالوجی کی ایجادات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2014 کے بعد ایسی 1,494 ایجادات کے لیے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے جبکہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ان میں اوسط سالانہ اضافے کی شرح 78 فیصد تک رہی۔
مصنوعی ذہانت مستقبل کے امکانات
یہ ملکیتی حقوق بہت سے شعبوں سے متعلق ٹیکنالوجی کیلئے جاری کیے گئے جن روزمرہ زندگی کی سائنس سے متعلق 5,346، دستاویزات کے انتظام و اشاعت سے متعلق 4,976 اور کاروباری طریقوں، صنعت اور اشیا کی تیاری، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں سے ہر ایک میں 2,000 ایجادات کے لیے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے۔
''ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن‘‘ (WIPO) کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تخلیقی مصنوعی ذہانت (GenAI)نئے مالیکیول کی تیاری اور ادویہ سازی کو وسعت دینے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے جبکہ اس سے دستاویزات کے انتظام و اشاعت کو خودکار بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، نچلی سطح پر اشیا کی فروخت، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام اور خودکار ڈرائیونگ سمیت صارفین کی خدمات کیلئے کام کرنے والے چیٹ بوٹس میں اس کا استعمال بڑھنے کا امکان ہے۔