یادرفتگاں :ارفع کریم رندھاوا
اسپیشل فیچر
پاکستان کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہرفخر پاکستان
9 برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزازحاصل کیا
کم عمری میں ہی اپنی محنت، ذہانت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک ہی جست میں محبت، شہرت اور عزت حاصل کرنے والی ارفع کریم پاکستان کا فخر ہیں۔ نو سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرکے ''سائبر پرنسز ‘‘بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ان کی اس کامیابی نے انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت بخشی۔ مائیکرو سافٹ ہیڈکوارٹر، امریکہ میں بل گیٹس کے ساتھ یادگار تصویر ارفع کریم کے کارنامے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنی ذہانت کے باعث وہ ملک کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ''پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ کی حق دار بھی بنیں۔ ارفع کے باعث جو عزت اس ملک وقوم کو ملی، وہ ناقابل فراموش ہے۔ ارفع کی زندگی صرف سائنس و ٹیکنالوجی تک ہی محدود نہ تھی، وہ الفاظ کو خوبصورت شعروں میں پرونا بھی خوب جانتی تھیں۔
ارفع کریم پاکستان کی ایک غیر معمولی شخصیت تھیں، جنہوں نے کم عمری میں اپنی ذہانت اور قابلیت سے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ 2 فروری 1995ء کو فیصل آباد کے ایک گاؤں، چک جھمرہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام امجد کریم رندھاوا اور والدہ کا نام ثمینہ کریم رندھاوا ہے۔وہ دو بھائیوںسرمد کریم اور داؤد کریم کی اکلوتی اور بڑی بہن تھیں۔ والد کے آرمی آفیسرہونے کے باعث ان کا بچپن مختلف شہروں میں گزرا اور انہوں نے تعلیم ملتان پبلک اسکول، مردان سٹی اسکول اورلاہور گرائمرا سکول سے حاصل کی۔ وہ بچپن میں اپنے والد کی لاڈلی ،بہت شرارتی اور بہت ذہین تھیں۔ تین سال کی عمر میں پہلی کلاس میں داخلہ ملا، کیونکہ بنیادی کورسزاردو اور انگریزی حروفِ تہجی اور گنتی تو گھر پر ہی مکمل کر لیے تھے۔
گھر میں رسالے، کتابیں اور اخبارات آتے تھے۔ گھر کے بڑوں کو کتابیں پڑھتے دیکھا تو انہیں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ جب ایک بار کتاب پڑھنا شروع کر دیتیں تو اسے مکمل پڑھ کر ہی رکھتیں۔ تین چار سال کی عمر میں ہی سکول میں ہونے والے امقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا، کہیں ملی نغمیں پڑھتیں کہیں نظمیں، کہیں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتیں۔ نعت خوانی کے مقابلوں میں اوّل پوزیشن لیتی رہیں۔ صرف 4سال کی عمر میں وہ ایک بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں۔ مشکل سے مشکل گیت بھی وہ اس مہارت سے گاتیں کہ استاتذہ کرام بھی حیرت زدہ ہو جاتے۔
کمپیوٹر سے تعلق کب بنا؟
اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے خود اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ میں نے اپنے سکول میں او لیول کے بچوں کو کمپیوٹر لیب میں کام کرتے دیکھا کہ وہ بٹن دباتے ہیں اور مانیٹر پر منظر ہی بدل جاتا ہے،کبھی کچھ لکھا آ جاتا ہے اور کبھی کوئی تصویر نمودار ہو جاتی ہے۔ اسی تجسس میں، میں نے بابا سے کہا کہ مجھے کمپیوٹر لے دیں۔میں تب چوتھی جماعت کی طالبہ تھی۔ میرے والدین کیلئے میری یہ خواہش حیران کن تھی،پھر میرے بابا نے مجھے کمپیوٹر خرید کر دیا۔جہاں سے خریدا انھوں نے استعمال کا تھوڑا بہت طریقہ سمجھا دیا تھا۔اگلے چند ہی روز میں نے کمپیوٹر چلانا اور کمانڈ دینا سیکھ لیا۔ گھر کے قریب ہی کمپیوٹر کی تربیت کا ادارہ تھا۔ میرے بابا مجھے وہاں لے گئے۔مجھے دیکھ کر وہاں موجودسبھی لوگ ہنس پڑے۔ بقول ان کے بڑی عمر کی بچیوں کو کمپیوٹر سکھایاجاتا ہے۔ میرے بابا کے پرزور اصرار پر انھوں نے مجھ سے بات کی، پھر مجھے کمپیوٹر سکھانے کیلئے ہامی بھر لی۔ سر خرم حنیف اور سر سہیل احمد نے مجھے کمپیوٹر کی تربیت دی۔
مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان
نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تو مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کر لوں گی مگر میرے استاتذہ بہت پُر امید تھے۔ میں نے دو سال کا کورس چار ماہ میں مکمل کر لیا تھا۔ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر میں نے مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کر لیا تو یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو گا۔ جب میں مائیکرو سافٹ سرٹیفیکیشن کا امتحان دے رہی تھیں تو میری ایک ہی دعا تھی کہ ''اللہ تعالیٰ اگر آپ کو میری کوئی بھی بات اچھی لگتی ہے تو بس میرا پرچہ اچھا کروا دیں‘‘، تو پھر بس ہو گیا میرا پرچہ اچھا۔
ارفع کریم کو اردو، انگریزی، پنجابی، پشتو اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اپنے ایک انٹرویو میں ارفع کریم کا کہنا تھا کہ میں نے انگریزی زبان کتابیں پڑھ کر اور کارٹونزدیکھ کر سیکھی تھی۔ جس لہجے میں آپ بولنا شروع کرتے ہیں وہ آپ کا لہجہ بن جاتا ہے، تو کارٹونز کی وجہ سے زیادہ بہتری آئی۔ فرانسیسی زبان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بس یہ چاہتی تھی کہ یہ بھی آنی چاہیے، بہت اچھی زبان ہے، اس لئے اسے سیکھا۔
ارفع کا انتقال
ارفع کریم 22 دسمبر 2011ء کو اچانک بیماری کا شکار ہوئیں اور انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ کئی دن تک زیر علاج رہنے کے بعد، وہ 14 جنوری 2012ء کو 16 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی وفات پاکستان اور دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک گہرا صدمہ تھی۔
ارفع ایک ذہین اور پرعزم لڑکی تھیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ سیکھنے اور دوسروں کو متاثر کرنے میں گزارا۔ وہ آئی ٹی کے میدان میں نوجوانوں کیلئے ایک رول ماڈل تھیں اور اپنے ملک کیلئے کچھ خاص کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ ارفع کریم رندھاوا ایک پھول تھا جو مرجھا گیا مگر اس کی خوشبو آج بھی دل و دماغ میںمہک رہی ہے۔ارفع کریم کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر عزم، محنت، اور لگن ہو تو کوئی بھی خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔
ارفع کریم کے اعزازت
٭... جولائی 2005 میں مائیکروسافٹ کارپوریشن کی دعوت پراپنے والد کے ہمراہ امریکہ گئیں۔ جہاں انہیں دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کی سند دی گئی۔ جب وہ بل گیٹس سے ملیں تو اس کے بارے میں کہا گیا کہ ''پاکستان کا دوسرا رخ‘‘۔ بل گیٹس نے ارفع سے دس منٹ ملاقات کی۔
٭... دبئی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین نے دو ہفتوں کیلئے انھیں مد عو کیااورانھیں مختلف تمغے اور اعزازات د ئیے ۔
٭...ارفع کریم نے دبئی کے فلائنگ کلب میں صرف دس سال کی عمر میں ایک طیارہ اڑایا اور طیارہ اڑانے کا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کیا۔
٭...2005ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ'' پرائیڈ آف پرفارمنس'' دیا گیا۔
٭...''مادرملت جناح طلائی تمغہ '' بھی عطا کیا گیا۔
٭...'' سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔
٭...مائیکرو سافٹ نے بار سلونا میں منعقدہ 2006ء کی تکنیکی ڈویلپرز کانفرنس میں پوری دنیا سے پانچ ہزار سے زیادہ مندوبین میں سے پاکستان سے صرف ارفع کریم کو مد عو کیا۔
٭... بعد از مرگ لاہور کا آئی ٹی سینٹر ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں ان کے گاؤ ں کو بھی ارفع کریم کا نام دے دیا گیا۔