’’اسلامو فوبیا‘‘ ایک عالمی مسئلہ

اسپیشل فیچر
وزارت مذہبی امور کا 15 مارچ کو یوم تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر منانے کا اعلان
اسلامو فوبیا ایک سماجی اور سیاسی مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ اصطلاح ان تعصبات، خوف اور نفرت کو بیان کرتی ہے جو بعض افراد یا گروہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف مغربی دنیا میں بلکہ کئی دیگر معاشروں میں بھی موجود ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کے اثرات نہ صرف مسلم کمیونٹیز بلکہ مجموعی طور پر عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
وزارت مذہبی امور نے 15 مارچ کو یوم تحفظِ ناموس رسالت ﷺ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔مراسلے میں پنجاب، سندھ، اسلام آباد، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکرٹریز مذہبی امور کو توہین مذہب کا مواد روکنے کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی سفارشات کی گئی ہیں۔مولانا حنیف جالندھری، علامہ افضل حیدری، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر ساجد میر اور مولانا عبدالمالک سے بھی لائحہ عمل بنا کر عوام میں آگاہی مہم چلانے کی اپیل کی گئی ہے۔
تاریخی پس منظر
اسلامو فوبیا سے مراد وہ غیر منطقی خوف، نفرت اور تعصب ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ صلیبی جنگوں، نوآبادیاتی نظام اور یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف مختلف بیانیے پروان چڑھے جو آج بھی کئی معاشروں میں نظر آتے ہیں۔
پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی اور 15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس سے متعلق قرارداد بھی پیش کی ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر متعارف کروانے کی پیشکش کی گئی۔ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کا مقصد مسلمانوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر رواداری کو فروغ دینا ہے ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں دہشت گردی کو کسی بھی مذہب اور قومیت سے منسوب نہ کرنے پر بھی زور دیا گیا۔
15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کی قرارداد کو 55 ممالک کی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا تاہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی قرارداد کی مخالفت کرنیوالے ممالک میں بھارت سر فہرست تھا جو مسلمانوں کیخلاف انتہاء پسندی، تشدد، ظلم و جبر میں نمایاں تاریخی کردار رکھتا ہے۔
اسلامو فوبیا کی وجوہات
اسلامو فوبیا کے پھیلنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سب سے نمایاں درج ذیل ہیں:
٭... میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر کشی ایک بڑی وجہ ہے۔
٭...دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات کو اسلام سے جوڑنے کے باعث غیر مسلموں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔
٭...کئی سیاستدان اور جماعتیں اسلامو فوبیا کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلام مخالف بیانیہ بعض سیاستدانوں کیلئے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
٭...یورپ اور مسلم دنیا کے درمیان تاریخی تصادم، جیسے کہ صلیبی جنگیں اور سامراجی طاقتوں کے قبضے، بھی اسلامو فوبیا کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔
٭... بعض غیر مسلم افراد اسلامی ثقافت اور رسوم و رواج کو اپنے معاشرے کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔
٭... بعض انتہا پسند گروہ، جو اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، اسلامو فوبیا کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ مغربی دنیا میں مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ان گروہوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔
اثرات
اسلامو فوبیا کے کئی سنگین اثرات ہوتے ہیں، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی امن و استحکام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
٭... بہت سے ممالک میں مسلمانوں کو تعصب، امتیازی سلوک اور جسمانی و زبانی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
٭... اسلامو فوبیا مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔
٭... بعض ممالک میں مسلمانوں کو نوکریوں، تعلیم اور دیگر مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے وہ ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
٭... اسلامو فوبیا عالمی سطح پر تنازعات کو جنم دیتا ہے اور ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔
٭... اسلامو فوبیا کے نتیجے میں مسلمان کمیونٹیز میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو ان کی روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔
اقدامات
اسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
تعلیم اور آگاہی
اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی اور مثبت معلومات فراہم کی جائیں تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔
میڈیا کی ذمہ داری
میڈیا کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رپورٹنگ کرے اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے گریز کرے۔ میڈیا میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔
قانون سازی
حکومتوں کو اسلامو فوبیا کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں تاکہ کسی بھی قسم کے نفرت انگیز جرائم کو روکا جا سکے۔
بین المذاہب مکالمہ
مختلف مذاہب کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے مکالمے اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ دیا جائے تاکہ غلط فہمیوں کو کم کیا جا سکے۔
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال
سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں درست معلومات کی ترویج کی جائے تاکہ لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جا سکے۔
اگرچہ اسلامو فوبیا ایک پیچیدہ اور گہرا مسئلہ ہے، لیکن اگر مناسب اقدامات کیے جائیں تو اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ تعلیم، میڈیا، سیاسی قیادت اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے اس مسئلے کو کم کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا میں باہمی احترام اور امن کو فروغ دیا جا سکے۔اسلامو فوبیا کے خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی سوچ کو وسعت دیں، دوسروں کے نظریات اور عقائد کو سمجھنے کی کوشش کریں اور غلط فہمیوں کو دور کریں تو ایک پرامن اور ہم آہنگ دنیا کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔
جینواسائیڈ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اسلاموفوبیا اب محض امتیازی سلوک نہیں رہا بلکہ باضابطہ ریاستی نظریہ بن چکا ہے اور بی جے پی نے 192 ملین مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کے ذریعے پرتشدد پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔