یادرفتگاں آغا حشر :اردو ادب کا درخشاں نام
اسپیشل فیچر
ڈرامہ نویسی کو نئی جہت بخشی، ''اردو شیکسپیئر‘‘ کا خطاب ملا، دنیا سے رخصت ہوئے 90برس بیت گئے
آغا حشر کاشمیری، اردو ادب اور تھیٹر کی تاریخ میں ایک درخشاں نام ہیں۔ انہیں ''اردو کا شیکسپئر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقات نے نہ صرف اردو ڈرامہ نویسی کو ایک نئی جہت دی بلکہ اس فن کو عوامی مقبولیت اور وقار بھی بخشا۔برصغیر پاک و ہند میں اردو کے سٹیج ڈرامے تصنیف کرنے میں آغا حشر کاشمیری نے جتنی شہرت حاصل کی وہ ہر کسی کے مقدر میں نہیں تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے ڈراموں کی وجہ سے گویا انہوں نے حشر بپا کر دیا۔ ڈرامہ نگار کے علاوہ وہ ایک عمدہ شاعر بھی تھے اور ان کے کئی اشعار آج بھی زبان زدِعام ہیں۔
آغا حشر کاشمیری تین اپریل 1879ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے ان کا نام محمد شاہ رکھا تھا۔ حشر کاشمیری کا قلمی نام انہوںنے خود رکھا۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر تو کم ہی تعلیم حاصل کی البتہ مطالعہ بہت کیا۔ اسی مطالعے نے انہیں بڑا آدمی بنا دیا۔ آغا حشر نے عربی، فارسی اور اردو ادب کے کلاسیکی سرمائے کا گہرا مطالعہ کیا، اور نوجوانی ہی میں ان کی تخلیقی صلاحیتیں نکھرنے لگیں۔ وہ مذہب، تاریخ، ادب، طب، شاعری اور فلسفے پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور سننے والے کو مبہوت کر دیتے۔ وہ مولانا ظفر علی خان کی طرح فی البدیہہ شعر کہتے اور خوب داد سمیٹتے۔ چراغ حسن حسرت کے بقول مولانا ظفر علی خان کے بعد اس میدان میں آغا حشر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ انہوں نے نظمیں بھی بڑی شاندار لکھیں۔
آغا حشر کا اصل میدان ڈرامہ نویسی تھا۔ وہ نوجوانی میں ہی تھیٹر سے وابستہ ہو گئے اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کے ڈرامے عام لوگوں میں اتنے مقبول ہوئے کہ تھیٹر کے کھیلوں کی کامیابی کا انحصار ان کی تحریر پر ہونے لگا۔ وہ اپنے ڈراموں میں نت نئے تجربات کرتے تھے۔ خاص طور پر وہ ان ڈراموں میں مختصر گیت اور محاوروں سے بھرپور مکالمے شامل کرتے تھے جنہیں لوگوں نے بے حد پسند کیا۔آغا حشر کاشمیری نے تقریباً 35 سے زائد ڈرامے تحریر کیے۔ ان میں سے کئی ڈرامے آج بھی اردو تھیٹر کی کلاسیک حیثیت رکھتے ہیں۔
آغا حشر نے زیادہ تر اپنے ڈرامے سماج، اخلاقی قدروں اور عوامی جذبات کو مدنظر رکھ کر لکھے۔ ان کے موضوعات میں محبت، وفاداری، ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت اور انسانی عظمت کا تصور نمایاںتھا۔ انہوں نے یورپی ادب، بالخصوص شیکسپئر کے ڈراموں کو اردو مزاج کے مطابق ڈھال کر پیش کیا۔
آغا حشر کاشمیری کی تحریر میں شاعرانہ حسن اور نثر کا شکوہ دونوں نظر آتے ہیں۔ان کی زبان دلکش، پراثر اور عوامی تھی۔مکالمے برجستہ اور منظرکشی زبردست ہوتی تھی۔انہوں نے ڈرامے میں غزل، گیت اور دوہے کا خوبصورت امتزاج پیدا کیا، جو اس وقت کے تھیٹر میں انقلاب لے آیا۔ ان کے ڈرامے سماجی مسائل کو نہایت دلنشین انداز میں پیش کرتے تھے، اس لیے نچلے طبقات میں بھی ان کا پیغام مقبول ہو گیا۔
آغا حشر نے شیکسپئر کے کئی ڈراموں کو اردو زبان اور مقامی ثقافت کے مطابق ڈھالا مثلاً شیکسپئر کا ''کنگ لیئر‘‘ آغا حشر کا ''صدیقہ‘‘، شیکسپئر کا ''مرچنٹ آف وینس‘‘ آغا حشر کا ''یہودی کی لڑکی‘‘۔ان کی ان تخلیقات نے انہیں ''اردو شیکسپئر‘‘ کا خطاب دلایا۔
آغا حشر کاشمیری نے گلوکارہ مختار بیگم سے شادی کی ۔ فریدہ خانم انہی مختار بیگم کی چھوٹی بہن ہیں۔ غزل گوئی میں فریدہ خانم کو بھی ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ آغا حشر کی کئی غزلوں کو فلموں اور ٹی وی پروگراموں کی زینت بنایا گیا۔ 1938ء میںمختار بیگم نے ان کی غزل ‘‘چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی‘‘ گائی۔ بعد میںیہی غزل ٹی وی کے لیے ٹینا ثانی نے گائی۔ 1965ء میں علی سفیان آفاقی کی فلم ''کنیز‘‘ میں نسیم بیگم نے ان کی یہ شہرہ آفاق غزل گائی ''غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آہی گیا‘‘۔اس کی موسیقی خلیل احمد نے مرتب کی تھی۔ ان کی ایک اور غزل ''میں چمن میں خوش نہیں ہوں‘‘ فریدہ خانم نے سرکاری ٹی وی کیلئے گائی۔ ان کی مشہور کتابوں میں ''اسیرِ حرص، آنکھ کا نشہ، دشمنِ ایمان، رستم و سہراب، خوبصورت بلا اور کلیاتِ آغا حشر کا شمیری‘‘ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
زندگی کے آخری حصے میں آغا حشر کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ 28 اپریل 1935ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کا مزار میانی صاحب قبرستان لاہور میں واقع ہے۔آغا حشر کاشمیری نے اردو تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کی بنیادوں کو اتنا مضبوط کر دیا کہ آج بھی ان کی تحریریں ادب کے شائقین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کے ڈراموں نے نہ صرف اس وقت کے تھیٹر کو زندہ رکھا بلکہ اردو زبان و ادب کو عوام کے دلوں کے قریب تر کر دیا۔ ان کا انداز، ان کا اثر، اور ان کی تخلیقی جرات آج بھی نوجوان ادیبوں اور ڈرامہ نگاروں کیلئے ایک روشن مثال ہے۔
زرق زیب درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد
میں شائع ہوتے رہتے ہیں