تھر جہاں پانی کو تالا لگانا پڑتا ہے
اسپیشل فیچر
آپ اور ہم اکثر اخبارات میں ایسی خبریں پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں گائوں میں چور رات کے اندھیرے میں کھیتوں کو چوری کا پانی لگاتے ہوئے پکڑے گئے۔ کھیتوں کے پانی کی چوری دیہاتوں میں کوئی نئی بات نہیں ، بلکہ مدتوں سے ایسا ہوتا آ رہا ہے، جہاں کاشتکار نہروں اور ٹیوب ویلوں کے پانی کا رخ، نالوں اور کھالوں کو توڑ کر اپنے کھیت سیراب کر لیا کرتے ہیں۔ لیکن اگر چوری پینے کے پانی کی ہو تو یہ یقینا ایک خبر ہو سکتی ہے۔ اس سے بھی بڑی خبر یہ ہو گی کہ ایک گائوں جہاں آج تک کبھی کسی نے اپنے گھروں کو تالا نہیں لگایا اور نہ ہی اس علاقے میں گھروں کو تالے لگانے کا رواج ہے لیکن یہاں پانی کے کنوؤں کو تالے ضرور لگانا پڑتے ہیں۔ کیونکہ یہاں سب سے قیمتی چیز پانی ہے۔ اسی لئے تو تھر کے لوگ برملا کہتے ہیں ''پانی تو سونے سے بھی قیمتی چیز ہے‘‘۔
مقامی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی اس علاقے سے بہت بڑا دریا گزرا کرتا تھا جو کچھ ہزار سال پہلے خشک ہو گیا تھا۔اب 18 لاکھ آبادی والے اس خطے میں ہر طرف ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔ جن کے درمیان انسانی بستیاں ، چراگاہیں اور کھیت مکمل طور پر بارشوں اور زیر زمین پانی کے مرہون منت ہو کر رہ گئے ہیں۔
تھرپارکر کا شمار پاکستان کے خشک ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔18اکھ سے زائد آبادی والے اس علاقے کے ضلعی ہیڈ کوارٹر کا نام مٹھی ہے ۔صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ یہ دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے، جس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔تھر میں اب بھی بیشتر لوگ اگلو نما کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ان گھروں کی چھتیں گھاس سے بنی ہوتی ہیں جو یہاں کے موسم گرما کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں کیونکہ اگلو نما یہ کچے گھر انتہائی ٹھنڈے ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ سیمنٹ اور مٹی گارے سے بنے پکے گھر بھی ہیں جنہیں مقامی زبان میں ''لانڈھی‘‘ کہتے ہیں۔
تھر میں زندگی کا دارومدار بارشوں کے گرد گھومتا ہے۔ ذخیرہ کا مناسب طریقۂ کار نہ ہونے کے باعث بارشوں کا پانی زمین میں جذب ہوتا رہتا ہے ، جسے حسب ضرورت یہاں کے باسی ہینڈ پمپ یا کنوؤں کے ذریعے نکال کر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بارشوں کے بعد کنوؤں میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے جو اگلے چھ سات ماہ تک ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کارگر ہوتی ہے۔ بارشوں کے موسم سے تین چار ماہ پہلے کا عرصہ یہاں کے باسیوں کیلئے تکلیف دہ ہوتا ہے جب پورے علاقے میں پانی کی شدید قلت واقع ہو جاتی ہے۔
نگر ہار ، تھر کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔خاص طور پر جون اور جولائی کے مہینوں میں تو یہ قلت شدت اختیار کر جاتی ہے۔چاروناچار یہاں کے لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کنوئیں کھودتے ہیں۔ یہاں بعض علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح دوسو سے تین سو فٹ تک ہے۔ یہاں بیشتر علاقوں کا پانی کھارا نکلتا ہے ،بہت کم علاقوں میں مکمل طور پر میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے جس کے باعث یہاں کے لوگ کھارا پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں کی باسیوں کا ذریعۂ معاش جانور پالنا یا کھیتی باڑی ہے جس کیلئے ظاہر ہے پانی ایک بنیادی جزو ہے۔
اگرچہ 2011ء میں سندھ حکومت نے تھر میں صاف پانی فراہمی کے ایک منصوبے کے تحت جو 635 آر او پلانٹ 5 ارب 40 کروڑ روپے کی خطیر رقم کے عوض لگوائے تھے بدقسمتی سے بہتر نگرانی نہ ہونے کے سبب ان میں سے بیشتر بند پڑے ہیں۔
چنانچہ پانی کی اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے یہاں کی خواتین برسوں سے نسل در نسل روزانہ کی بنیاد پر سروں پر مٹی کے گھڑے یا دھات سے بنے مٹکے سروں پر اٹھائے کئی کئی میل کی مسافت طے کر کے پانی لانے کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں پر عام طور پر پانی کنوؤں سے حاصل ہوتا ہے جسے نکالنے کے لئے گدھے ، اونٹ یا بیل کا استعمال کیا جاتا ہے۔روائتی طور پر کنوؤں سے پانی نکالنا مردوں کا کام جبکہ گھروں تک پہنچانا خواتین کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔
بوند بوند پانی کی قدر دیکھنی ہو تو تھر کے باسیوں کو دیکھو ، جو مرد و زن میلوں سفر کی تکالیف برداشت کر کے سروں پے مٹکے اٹھائے روزانہ لا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کو نہلانے کیلئے انہوں نے گھروں میں سیمنٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹب بنائے ہوتے ہیں ، بچوں کو نہلانے کے بعد یہ پانی کو ضائع کرنے کی بجائے جانوروں کو پلا دیتے ہیں۔ اسی طرح گھر کی خواتین گھر کے برتن ایک بڑے سے تھال کے اندر رکھ کر دھوتی ہیں تاکہ پانی زمین پر ضائع ہونے کی بجائے تھال میں محفوظ رہے اور پھر جانوروں کو پلانے کے کام آئے۔
دراصل تھر میں گھریلو سطح پر پانی ذخیرہ کرنے کا رواج نہیں ہے کچھ گھروں میں پانی کی چھوٹی سی ٹینکی بنی ہوتی ہے جو ذاتی استعمال شدہ پانی پر مشتمل ہوتی ہے اور جانوروں کو پلانے کے کام آتی ہے، جبکہ انسانی استعمال کیلئے پانی مٹکوں میں رکھا جاتا ہے۔جب مٹکا خالی ہو جاتا ہے تو گھر کی خواتین کو کنوؤں پر آکر پانی ازسرنو بھرنا ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تھر میں سالانہ بارشیں بمشکل 10 سے 11 انچ سالانہ شرح تک ہوتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں صوبہ پنجاب کے وسطی میدانی علاقوں میں یہی شرح 25 انچ سالانہ کے قریب ہوتی ہے۔ تھر بنیادی طور پر ایک پرامن خطے کی شہرت رکھتا ہے ، یہاں پر جرائم کی شرح انتہائی قلیل بلکہ شاید نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ صدیوں سے یہاں گھروں کے دروازے نہیں ہوا کرتے، ظاہر ہے اگر دروازے نہیں ہوںگے تو گھروں کو تالے بھی نہیں لگتے ہوں گے۔ لیکن یہاں سب سے دلچسپ اور منفرد بات یہاں کے کنوؤں کو لگنے والے تالے ہیں۔ پانی چونکہ تھر کی سب سے قیمتی جنس ہے اس لئے یہاں پر کنوؤں اور پانی کی ٹینکیوں کو تالے لگا کر رکھنا ایک عام سی بات ہے۔