’’لاہور کی بندرگاہ‘‘
اسپیشل فیچر
''بھارت نے تو لاہور کی بندرگاہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا جو آپ نے (بھارتی میڈیا) پر دیکھا۔ جب لاہوریوں سے پوچھا گیا کہ یہاں بندرگاہ کہاں ہے تو لاہوری حیران رہ گئے اور کہا کہ لاہور میں تو سمندر ہی نہیں تو بندرگاہ کہاں سے آ گئی؟‘‘۔
وائس ایڈمرل راجہ رب نواز نے 11 مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ پریس کانفرنس میں جب یہ جملہ بولا تو اس کا ایک پورا پس منظر تھا۔ دراصل آٹھ مئی کی شام کو بھارتی نیوز چینلز پر پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے جب جھوٹی خبریں دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک سے زائد چینلوں نے یہ خبر بار بار چلائی کہ بھارت کے بحری بیڑے ''وکرانت آئی این ایس‘‘ نے لاہور کی بندرگاہ پرقبضہ کر لیا ہے۔ ویسے تو اُس رات بھارتی چینلوں کی تمام ٹرانسمیشن ہی مضحکہ خیز تھی مگر لاہور میں بندرگاہ کی موجودگی کا دعویٰ سن کر سب چونک گئے کہ لاہور میں بندرگاہ کہاں سے آ گئی۔ اب تو لاہور کا دریا بھی سوکھ چکا ہے اور صرف نہر ہی میں پانی نظر آتا ہے تو کیا بھارت کا بحری بیڑا خشکی پر چل کر لاہور پہنچا ہے؟ پھر کہاں سمندر اور کہاں لاہور، یہ کیسے ممکن ہے کہ راتوں رات بحری بیڑہ لاہور پہنچ جائے۔ شاید بھارتی چینلوں کے رپورٹروںاور تجزیہ کاروں نے اپنی چشم تصور سے بحری بیڑے کو واہگہ کے راستے لاہور میں داخل ہوتے دیکھا ہو۔
تفنن برطرف! آج یقینا لاہور میں بندرگاہ نہیں ہے، البتہ ایک ڈرائی پورٹ ضرور ہے مگر وہ زیادہ سٹرٹیجک اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ کسی دور میں لاہور بھی بندرگاہ یعنی فیری پورٹ کی سہولت سے مالا مال تھا، البتہ یہ فیری پورٹ کسی سمندر پر نہیں بلکہ دریائے راوی پر قائم تھی۔
یہ تب کی بات ہے کہ جب راوی دریا لاہور شہر کی فصیل کے ساتھ بہتا تھا۔ اُس زمانے کے دریا کے روٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ شاہی قلعے کے شمال مغرب سے بہتا ہوا موری گیٹ کے بالکل باہر (آج کے اردو بازار کے ساتھ) جنوب مغرب کی طرف بڑھتا اور پھر اس ٹیلے کے گرد گھومتا جہاں آج کل ڈسٹرکٹ عدالتیں ہیں۔ اکبر کے چچا کامران مرزا جو لاہور کے حاکم تھے‘ کی بارہ دری جو آج سوکھے ہوئے دریا کے ایک جزیرے پر ہے، اُس زمانے میں دریا سے ڈھائی کلومیٹر دور تھی۔ ''لاہورکی یادیں‘‘ از اے حمید میں اُس کی پوری منظر کشی کی گئی ہے۔ قلعہ لاہور کی حالت اس زمانے میں کچھ اچھی نہ تھی۔ اس لیے کامران نے دریا کے پار اپنے لیے وسیع و گل ریز باغ کے درمیان ایک عالی شان محل (بارہ دری) تعمیر کرایا۔ تب ٹھٹھہ اورلاہری بندر (گاہ) سندھ‘ ملتان اور پنجاب کو ہرمز‘ بشہر (ایرانی شہر صفی آباد) اور بصرہ سے جوڑتے اور مغربی ہندوستان کا فارس سے تجارتی رابطہ بناتے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں خضری دروازہ دریا کے گھاٹ کے ساتھ تھا اور کشتیاں یہیں سے چلا کرتی تھیں۔ اسی دور لاہور کے خضری دروازے کی بنائی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ راوی شہر کی دیواروں سے ٹکراتا گزرتا تھا۔
اکبر کے دور میں لاہورمیں دو بحری جہاز بھی تعمیر ہوئے تھے۔ تاریخ میں ان جہازروں کی تعمیر کا سنہ 1594ء اور 1596ء درج ہے۔ ''آئین اکبری‘‘ میں ایک باب ''آئین میر بحری‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں لکھا ہے کہ مشرق‘ مغرب اور جنوب کے ساحل پر بڑے بڑے جہاز بنائے گئے جو مسافروں کیلئے راحت کا سامان ہیں۔ بندرگاہوں پر خوشحالی آگئی ہے اورعلم کو فروغ ملا ہے۔ ابو الفضل نے ''اکبر نامہ‘‘ میں لکھاہے کہ شہنشاہ اکبر نے سمندر کا تجربہ 1572ء میں تب کیا جب گجرات پر قبضہ کیا۔ سورت‘ جسے خلیج کیمبے کی بڑی بندرگاہ بننا تھا‘ کو فتح کرنے کے بعد اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کے نام پر دو بحری جہاز 'سلیمی‘ اور 'الٰہی‘ تیار کرائے۔
معروف بھارتی محقق پروفیسر شیریں موسوی طاہر محمد سبزواری کی کتاب روضۃ الطاہرین کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ سندھ کی لاہری بندرگاہ کے قریب جنگلات نہیں تھے، سو جہاز گجرات میں تیار اور مرمت ہوتے اسی لیے اکبر کو لاہور میں جہاز بنانے کی سوجھی۔ انہیں ہمالیہ کی لکڑی سے تیار کیا گیا اور دریائے سندھ کے نظام کے ذریعے لاہری بندرگاہ لے جایا گیا۔ موسوی کے مطابق ''نجانے یہ لاہورسے ٹھٹھہ کی دوری کے باعث تھا یا اکبر کے 1598ء میں دکن کی مہم کیلئے لاہور چھوڑنے کی وجہ سے کہ جہاز سازی کا یہ تجربہ جاری نہ رہا‘‘۔ 1598ء میں لاہور میں بحری جہاز بننا تو بند ہو گئے مگر بڑی‘ چھوٹی کشتیاں بنتی رہیں کیونکہ کوئی پل نہ ہونے کے باعث یہ دریا کے پار جانے، دریائی سفر اور تجارت کی ضرورت تھیں۔
شہنشاہ جہانگیر کے دور میں جب لاہور بین الاقوامی تجارت کا ایک حب بن چکا تھا، مغربی ایشیاسے یورپ تک کے تاجروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس وقت شہر کے بیوپاری مختلف اشیا کو کشتیوں میں راوی کے ذریعے ملتان اور ٹھٹھہ پہنچاتے۔ سولہویں صدی کے ڈچ تاجر Francisco Pelsaert کی یادداشتوں میں بھی اس حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ''جٹمل ناہر‘‘ نے جہانگیر کے دور میں پچپن اشعار پر مشتمل ''لاہورکی غزل‘‘ میں لکھا ہے کہ راوی لاہورکے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ یہاں ہمیشہ بہت سی کشتیاں ہوتیں اور صاف شفاف پانی میں بطخیں اور بگلے تیر رہے ہوتے۔
سترھویں صدی کے برطانوی تاجر William Finch کے مطابق لاہور سے راوی اور سندھ دریائوں کے راستے 60 ٹن یا اس سے اوپر کی کئی کشتیاں سندھ میں ٹھٹھہ تک جاتی تھیں اور یہ تقریباً 40 دنوں کا سفر تھا۔ اسی دور کے برطانوی سفارتکار Thomas Roe نے بھی یہ نشاندہی کر رکھی ہے کہ دریائے سندھ زیادہ آسان راستہ تھا، جس میں لاہور سے کوئی بھی چیز پانی کے ذریعے جا سکتی تھی۔ البتہ ملتان اور سندھ کے شہروں کی نسبت لاہور سے نقل وحمل مارچ کے شروع سے اکتوبر میں ٹھنڈ شروع ہونے تک ہی جاری رہتی تھی۔ اس دور کے مؤرخین اور تاجروں کی یادداشتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لاہور میں قندھار جانے والے یا دریا کے ذریعے سندھ جانے والے تمام سامان پر کسٹم ڈیوٹی 2.25 فیصد تھی۔ گھاٹ یا گزرگاہ پر 0.25 فیصد ٹیکس اس کے علاوہ تھا۔
اے حمید کے مطابق بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں عہد مغلیہ میں دریا کے پار امرا نے بہت سے باغات اور مکانات تعمیر کروا رکھے تھے مگر جب دریا نے اپنا رخ لاہور سے شاہدرہ کی طرف کر لیا تو (بیچ میں آنے والے) بہت سے باغ دریا برد ہو گئے اور جو باقی بچے وہ زمانے کی دستبرد سے مٹ گئے۔
سکھ دور میں بھی دریا کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کا ثبوت ملتا ہے اور مشہورِ زمانہ زمزمہ توپ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور سے کشتی میں لاد کر ہی ملتان کی جنگ کیلئے بھیجا تھا۔ اس وقت فیری پورٹ شیخوپورہ میں بیگم کوٹ کے پاس جا چکی تھی۔ سکھوں کے زمانے میں جب دریا مزید آگے بڑھ گیا تو فیری سٹیشن خاموش ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں برطانوی دور کے مؤرخین نے سندھ سے پنجاب تک کسی بھی قسم کی دریائی تجارت کی نفی کی ہے۔ گویا انیسویں صدی کے اوائل میں لاہور میں تجارتی کشتیوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔