قطب جنوبی برف سے ڈھکا براعظم
اسپیشل فیچر
66درجے عرض بلد جنوبی سے نیچے جو علاقہ ہے اسے قطب جنوبی انٹارکٹیکا کہتے ہیں۔ قطب جنوبی تقریباً 53لاکھ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تمام تر وسعتوں میں جمی ہوئی برف کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دنیا کی 90فیصدبرف یہاں جمع ہے۔ قطب جنوبی عالمی موسم پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے سمندروں کو ہزاروں میل تک متاثر کرتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ یہاں زندہ رہنا ناممکن تھا لیکن مختلف سائنسی ایجادات اور اختراعات نے یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ اب جاپان، آسٹریلیا، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، بیلجئم، ناروے، ارجنٹینا، چلی اور فرانس نے یہاں اپنے اڈے اور تجربہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ ماہرین طبقات الارض کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں قطب جنوبی، امریکہ، افریقہ، ہندوستان اور آسٹریلیا سے ملا ہوا تھا لیکن کروڑوں برس پہلے زمین کی داخلی قوتوں نے اس کی سطح کو کچھ یوں تہ و بالا کردیا کہ مختلف براعظم ایک دوسرے سے پرے ہٹ گئے اور ان کے درمیان سمندر حائل ہو گئے۔
قطب جنوبی میں کوئلے، لوہے، کرومیم، تانبے، سرمے، ٹین اور یورینیم کی موجودگی کا سراغ بھی ملا۔ قیاس ہے کہ یہاں تیل کے ذخائر بھی موجود ہیں لیکن ان معدنی وسائل سے استفادہ کرنا مشکل ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دوسرے براعظموں میں جب معدنی وسائل کماحقہ ختم ہو جائیں گے تو ہم اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے قطب جنوبی کے معدنی وسائل بروئے کار لانے کی فکر کریں گے۔
قطب جنوبی پر پانی کمیاب ہے اور اسی سبب سے گراں قیمت بھی۔ اس کے باوجود یہاں کی برفانی چوٹیوں میں ٹھوس شکل میں پانی کا اتنا ذخیرہ موجود ہے جو دنیا بھر کے دریائوں اور جھیلوں کے پانی کی مجموعی مقدار سے بھی زیادہ ہے۔ صحرائے اعظم میں تو پھر بھی کہیں نہ کہیں پانی مل جاتا ہے لیکن یہاں پانی کا ملنا محال ہے۔ جب ذرا گرمی کا موسم آتا ہے تو کہیں کہیں چھوٹے تالاب نمودار ہو جاتے ہیں لیکن گرمی کے رخصت ہوتے ہی پھر برف میں بدل جاتے ہیں۔ سائنسدان اپنے پینے اور دوسرے استعمال کیلئے برف پگھلا کر پانی حاصل کرتے ہیں۔
یہاں پر جنوبی سمندر میں کئی ایک جزیرے ہیں جو بالکل بنجر اور ہر وقت طوفانی ہوائوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان میں سینٹ اکینز سینڈوچ آ ئی لینڈ، آئس لینڈ، پیٹر آئی لینڈ اور کرجیلین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
قطب جنوبی کی دریافت کیلئے سب سے پہلے برطانوی مہم جو کیپٹن جیمز کک نے 1772-73ء میں بحری سفر کیا اور اس دشوار گزار حلقے کو عبور کیا۔1889ء میں ولیم سمتھ نے چند ایک جزائر کا پتہ لگایا اور ان کا نام جنوبی شیٹ لینڈ رکھا۔ اسی زمانے میں ایک روسی جہاز رواں بلنگ شوسن بھی قطب جنوبی کی طرف معلومات حاصل کرنے کیلئے روانہ ہوا۔ اس نے سینڈوچ کے جزیرے کا کھوج لگایا۔ ان کے نام اپنے بادشاہوں کے اعزاز میں پیٹر اوّل اور الیگزینڈر اوّل رکھے۔
1823ء میں ایک مہم جو ویڈل 74درجے عرض بلد تک چلا گیا۔1830ء کے لگ بھگ گراہم لینڈ کا انکشاف ہوا۔1840ء میں کیپٹن جے سی اور کیپٹن ہو کر نے ایک جزیرے کا انکشاف کیا جس کا نام وکٹوریہ لینڈ رکھا گیا۔ اس جزیرے میں سب سے پہلے بلجیئم کے جہاز راں گرلاشے نے سردیوں کے دن گزارے تھے جو 1898ء میں موسم سرما میں یہاں پر رہا۔1901ء میں ڈسکوری نامی جہاز کے ذریعے آر ایف اسکاٹ نے ایک جزیرہ ایڈورڈ ہفتم لینڈ دریافت کیا۔ انہیں دنوں ایک جرمن جہاز راں نے بحرویڈل کی مہم شروع کی اور بحرویڈل کے جنوب مشرقی کنارے کی طرف ایک برفانی دیوار کا انکشاف کیا جہاں پر شیکلٹن 1908ء یا 1909ء میں برف کے دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہنچا۔ وہاں سے قطب جنوبی صرف 111میل دور رہ جاتا ہے۔
14ستمبر1911ء کو ورلڈ ایمنڈسن قطب جنوبی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور جنوری 1912ء میں اسکاٹ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں تک پہنچ گیا۔ اس نے ایمنڈسن کے خیمے کو وہاں دیکھا۔ ایمنڈسن واپسی پر برفانی تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کر سکا تھا اور مارا گیا تھا۔ شیکلٹن قطب جنوبی کے دوسرے سفر پر نکلا اور راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ویلکنس نے ہوائی جہاز کے ذریعے قطب جنوبی کا سفر کیا اور یہ انکشاف کیا کہ یہ جزیرہ نما نہیں بلکہ چند جزائر کا مجموعہ ہے۔
ایڈمرل بانٹرڈ نے طیارے کے ذریعے 19 گھنٹوں میں قطب جنوبی کے گرد چکر لگایا۔ 1931ء میں ایس لارنس نے کوئین موڈ لینڈ کا انکشاف کیا اور قطب جنوبی کے جزائر کا مکمل چکر لگایا۔1936ء میں لنکن السورتھ نے اس کی پیمائش کی۔ اس کا طیارہ راستے میں ہی ٹوٹ کر تباہ ہو گیا مگر ایک انگریز جہاز راں نے اس کی جان بچائی۔ اس طرح قطب جنوبی کی مکمل دریافت ہوئی۔