یاد رفتگاں ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘کے خالق اصغر سودائی
اسپیشل فیچر
ہمہ پہلو شخصیت کے مالک شاعر، ماہر تعلیم ، ادیب اور افسانہ نگاربھی تھے
اصغر سودائی ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے افسانہ نگار بھی تھے۔ طالب علمی کے دور میں انہوں نے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کیا، گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور ان دنوں تحریک پاکستان کا سب سے بڑا مرکز تھا جہاں وہ زیرتعلیم تھے۔
اسلامیہ کالج کے جلسوں میں اصغر سودائی اپنے ولولہ انگیز کلام سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے۔ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔انہیں قائد اعظمؒ سے بے پناہ محبت تھی۔ ایک بار قائد اعظم ؒ نے خود یہ کہا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں 25فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔
پروفیسر اصغر سودائی تحریک پاکستان کے ممتاز اراکین میں سے ایک ہیں، جن کا نعرہ ''پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ ابھی تک زندۂ جاوید ہے اور یہ نعرہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔پروفیسر سودائی نے 1944ء میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم ''ترانہ پاکستان‘‘کہی تھی اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ مذکورہ بالا نعرہ پاکستان کی مذہبی شناخت بن گیا۔
26ستمبر1926ء کو سیالکوٹ میں جنم لینے والے اصغر سودائی کا اصل نام محمد اصغر تھا اور تخلص سودائی تھا۔ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے مختلف حوالہ جات ملتے ہیں۔ وہ مرے کالج میں بھی زیر تعلیم رہے ،یہ وہی درس گاہ ہے جس میں علامہ اقبالؒ اور فیض احمدفیض جیسی قد آور شخصیات نے اپنی علمی پیاس بجھائی۔انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے شعبہ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا، اسلامیہ کالج سیالکوٹ اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کے پرنسپل کے طور پر کام کرتے رہے اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزی کونسل کے رکن بھی رہے۔ دوران ملازمت انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ان کانعتیہ مجموعہ ''کلام شہ دوسرا‘‘ اور شعری مجموعے ''کرن گھٹا کی طرح‘‘، ''چلن صبا کی طرح‘‘ اور ''بدن حنا کی طرح‘‘ اشاعت پذیر ہوئے۔ انہیں ان کی خدمات حکومت کی طرف سے ''تمغۂ حسنِ کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔
انہیں سیالکوٹ کی ادبی فضا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ عمر بھر شعر و ادب سے وابستہ رہے۔ ہمعصروں سے محبت اور جونیئرز سے شفقت ان کا معمول تھا۔ اصغر سودائی سیالکوٹ کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں اکثر جایا کرتے تھے، یہ لاہور کے پاک ٹی پائوس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے،جہاں عموماًشعراء ، صحافی اورادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے تھے۔ پروفیسر اصغر سودائی وہاں آنے والے لوگوں کو تحریک پاکستان، قائداعظم ؒ کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔اسی وجہ سے لوگ انہیں تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا ''انسائیکلوپیڈیا‘‘ بھی کہتے تھے۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ یہ مصرع ''پاکستان کا مطلب کیا‘‘ آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ جب لوگ پوچھتے تھے پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہئے کہ ''پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ اس نعرے نے بہت مقبولیت حاصل کی اور پھر سب کو تسلیم کرنا پڑا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہیں۔
کردار سازی اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا وہ شرافت اور سادگی کا مجسمہ تھے۔ اکثر پیدل سفر کرتے تھے۔ پروفیسر اصغر سودائی کے شاگردوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ ان شاگردوں میں زیادہ تر نے سودائی صاحب کا اسلوبِ حیات اپنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصغر سودائی نے اپنے بہت سے شاگردوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے زندگی کو نئے معانی دیئے اور فکر کے ایسے چراغ روشن کئے کہ بعد میں آنے والے لوگوں نے ان سے روشنی پائی۔
اصغر سودائی کی عادت تھی کہ وہ اپنی قمیض کا اوپر والا بٹن بھی بند رکھتے تھے۔ ان کا موقف تھا وضع داری کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کے سامنے قمیص کے سارے بٹن بند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے ساری زندگی تعلیم و ادب کی آبیاری میں گزاری۔ اصغر سودائی کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔
اس کا انداز دلربا میں تھا
دیکھتا وہ تھا آئینہ میں تھا
رات دل کھول کر کئے ہیں سخن
ایک میں اور دوسرا میں تھا
ایک اور غزل کے خوبصورت اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
جب آنکھ میں تری صورت سمائی لگتی ہے
مجھے خود اپنی نظر ہی پرائی لگتی ہے
یہ تیرا قحطِ تبسم میں کھلھلا دینا
مجھے تو صورتِ رنج آشنائی لگتی ہے
لگی ہیں تہمتیں اصغر تری شرافت پر
نظر میں شر ہو تو نیکی برائی لگتی ہے
17مئی 2008ء کو اصغر سودائی اس جہانِ رنگ و بو سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 81برس تھی۔وفات سے تقریباً چار پانچ سال پہلے ان پر فالج کا حملہ ہواتھا۔ اپنی گراں قدر علمی و ادبی خدمات کی بدولت ان کا نام تادیر زندہ رہے گا ۔
ایک غزل کے چند اشعار
باندھا ہے اس شوخ سے پیمان محبت
پل بھر میں جو دروازے کو دیوار کرے ہے
پھول کو یوں نہ لگا منہ کہ غضب ہو جائے
برگ گل کو تو ہوس ہے ترا لب ہو جائے
یہ بھی امکاں ہے کہ دیوار کا پہلا پتھر
ساری دیوار کے گرنے کا سبب ہوجائے
عقل کا پردہ تہذیب کہاں تک اصغر
آدمی اصل میں دیوانہ ہے ، جب ہو جائے
اصغر سودائی کا لافانی ترانہ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
پنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسولؐ اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
زرق زیب شعبہ درس و تدریس سے
وابستہ ہیں، ان کے تحقیقی و معلوماتی مضامین
مختلف جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں