رانی ایک ناقابل فراموش اداکارہ!
اسپیشل فیچر
پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کچھ ایسے ناموں سے جگمگا رہی ہے جنہوں نے اپنے فن، خوبصورتی اور جذباتی اداکاری سے لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ ان ہی میں سے ایک درخشندہ نام رانی کا ہے۔اپنی دلکش مسکراہٹ، اداکاری، جذباتی مکالموں اور منفرد رقص کی بدولت رانی نے کئی دہائیوں تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔
رانی کا اصل نام ناصرہ تھا۔ وہ 8 دسمبر 1946 ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام ملک محمد شفیع تھا جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معروف گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ رانی کی فنی تربیت کا آغاز بھی اسی توسط سے ہوا جب مختار بیگم نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں رقص و موسیقی میں باقاعدہ تربیت دینا شروع کی۔ یہی بنیاد بعد میں ان کے فلمی کریئر کا سنگِ میل بنی۔
رانی نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز 1962 ء میں ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم ''محبوب‘‘سے کیا۔ ابتدائی چند فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں جس کی وجہ سے انہیں ''منحوس اداکارہ‘‘کا داغ بھی سہنا پڑا، لیکن رانی نے ہمت نہ ہاری اور اپنی لگن اور فن کی بدولت بالآخر 1967 ء میں فلم ''دیور بھابھی‘‘سے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ 1970ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''انجمن‘‘نے انہیں سپر اسٹار کے درجے پر فائز کر دیا۔
رانی نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں کام کیا۔ ان کے کریڈٹ پر 168 فلمیں ہیں، جن میں سے 103 اردو اور 65 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی مشہور فلموں میں ''انجمن، دیور بھابھی، شمع اور پروانہ، امرائو جان ادا، دیدار، ایک گناہ اور سہی، بہارو پھول برسائو‘‘ شامل ہیں۔رانی کا اندازِ گفتگو، جسمانی تاثر اور رقص کا انداز انہیں دیگر اداکاراں سے ممتاز کرتا تھا۔ ان کی اداکاری میں نسوانیت، درد، جذبہ اور رومان کا حسین امتزاج دکھائی دیتا تھا۔
پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کے فلمی کریئر کی دوسری فلم ہدایتکار اسلم ایرانی کی ایک پنجابی فلم ''موج میلہ‘‘ تھی جو 1963ء میں ریلیز ہوئی، جس میں وہ نیلو کے مقابل ثانوی کردار میں تھیں۔ ڈیڑھ درجن فلموں کے بعد اس کی دوسری فلم ''گونگا‘‘ 1966ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
رانی کو پنجابی فلموں میں فلم ''چن مکھناں‘‘ 1968ء سے بریک تھرو ملا تھا اور بھٹی بردران کی فلموں کا ایک لازمی حصہ بن گئی تھیں۔ اس کی دیگر مقبول پنجابی فلموں میں ''سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، گبھرو پت پنجاب دے، کوچوان، چن سجناں، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور، بابل، اچا ناں پیار دا، جی او جٹا، غیرت تے قانون اور سونا چاندی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پنجابی فلموں میں رانی ، اپنی معصوم ، سادہ اور حقیت سے قریب تر اداکاری کی وجہ سے جانی جاتی تھیں اور نغمہ اور فردوس کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھیں۔
رانی ، پاکستانی فلموں کی واحد اداکارہ تھیں جن کی جوڑیاں اپنے عہد کے سبھی چھوٹے بڑے اردو اور پنجابی فلموں کے فنکاروں کے ساتھ بنی تھیں۔ اردو فلموں کے بڑے ہیروز میں سے سنتوش، درپن، کمال، محمدعلی، وحیدمراد، ندیم، شاہد اور غلام محی الدین ہوں یا پنجابی فلموں کے بڑے ہیروز، سدھیر، اکمل، اعجاز، حبیب، عنایت حسین بھٹی، کیفی، یوسف خان، سلطان راہی اور اقبال حسن، رانی سب کی ہیروئن بنیں جو ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اور تو اور رتن کمار، ہارون، علاؤالدین، اسد بخاری، مظہرشاہ، نصراللہ بٹ، بدرمنیر، ننھا اور علی اعجاز کے علاوہ غیر معروف اداکاروں زاہدخان، عادل، شہباز وغیرہ کی ہیروئن بھی رانی ہی تھیں۔رانی کی فلمی جوڑیوں میں اردو فلموں میں کمال، وحیدمراد اور شاہد کے ساتھ زیادہ پسند کی گئی تھی جبکہ پنجابی فلموں میں عنایت حسین بھٹی، یوسف خان اور علی اعجاز کے ساتھ کامیابی ملی تھی۔ رانی نے زیادہ تر اپنے خاوند حسن طارق کی فلموں میں کام کیا تھا۔
1980 ء کی دہائی میں جب فلمی صنعت زوال کا شکار ہونے لگی تو رانی نے ٹیلی ویژن کی طرف رجوع کیا۔ پی ٹی وی پر ان کے مقبول ڈراموں میں ''خواہش‘‘اور ''فریب‘‘شامل ہیں، جن میں ان کی اداکاری کو ناظرین نے بے حد سراہا۔
رانی کی ذاتی زندگی اتنی مستحکم نہ رہی جتنی ان کی فلمی کامیابیاں تھیں۔ ان کی پہلی شادی ہدایتکار حسن طارق سے ہوئی،اس شادی سے ان کا ایک بیٹا علی رضا پیدا ہوا۔ حسن طارق کی شخصیت جاذب اور تخلیقی تھی لیکن ان کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔رانی نے پاکستانی کرکٹر سرفراز نواز سے بھی شادی کی ۔ یہ رشتہ نہ صرف میڈیا میں موضوعِ بحث بنا بلکہ بہت متنازع بھی رہا۔ سرفراز نواز اور رانی کے تعلقات میں ابتدا میں بہت گرم جوشی تھی، مگر جلد ہی ان کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔ یہ شادی بھی طلاق پر منتج ہوئی۔رانی کا واحد بیٹا علی رضا ان کے ساتھ رہتا تھا اور وہی ان کی آخری زندگی کا سہارا تھا۔ شادیوں کی ناکامی، کینسر کی بیماری اور فلمی دنیا سے دوری نے انہیں تنہا کر دیا، مگر انہوں نے کبھی شکوہ نہ کیا۔
رانی کو بریسٹ کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ انہوں نے طویل عرصہ علاج کروایا مگر بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ 27 مئی1993 ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی عمر اس وقت صرف46 سال تھی۔ انہیں لاہور کے مسلم ٹائون کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
رانی کی زندگی کے نشیب و فراز، فلمی سفر، کامیابیاں اور ناکامیاں سب کچھ ایک فلمی کہانی کی طرح ہیں۔ ان کی اداکاری، انداز، گفتگو اور فنی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔