مینگروز کے جنگلات،حسن ،سیاحت اور ضرورت

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : ماجد حسین لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:ڈاکٹر معین احمد، ماہر نباتیات ۔ڈاکٹر طاہر رشیدریجنل ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف۔ڈاکٹر کنول ناظم ، ماہر ماحولیات اور صدر سوسائٹی فار انوائرمنٹ اینڈ مینگروز پروٹیکشن ویلفیئر ایسوسی ایشن۔ڈاکٹر محمد عذیر خان، ماہر نباتیات و صنفیات( ٹیکسومونسٹ )جامعہ کراچی ۔ عبدالرحمن ،انچارج ڈبلیو ڈبلیو ایف ویٹ لینڈ سینڈپٹ سینٹر

پاکستان میں مینگروز کی اعلیٰ قسم ہے، گھروں میں بھی لگائے جاسکتے ہیں:  ڈاکٹرمعین احمد،3 دہائیوں میں ان جنگلات میں300فیصد اضافہ ہوا:   ڈاکٹر طاہر رشید 

حکومت تباہی سے بچانے کیلئے اقدامات کرے:  ڈاکٹر کنول ناظم،پہلے جنگل جلیبی ، بڑ ،بوندی کے درخت ہوتے تھے جن پر پرند ے گھونسلے بناتے تھے:   ڈاکٹر محمد عذیر

 

موضوع:’’ پاکستان میں مینگروز کی ضرورت‘‘

 

 

 

سندھ اور خصوصا ً کراچی میں مینگروز کے جنگلات تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں،صنعتی فضلے ،بڑی عمارتوں کی تعمیرات اور دیگر مقاصد کیلئے قدرت کے اس عظیم کارنامے کو نقصان پہنچایاجارہا ہے ،مینگروز وہ پودے ہیں جہاں سمندری حیات پرورش پاتی ہیں،جو طوفان اور سیلاب روکتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی نباتاتی سائنسدان ڈاکٹر معین احمد نے امریکہ سے چلنے سے پہلے ہی مجھے فون کرکے خواہش کااظہار کیاتھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور جنگلات پر دنیا فورم میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر معین احمد جیسے لوگ نایاب ہیں جو اپنی ریٹائرمنٹ کی زندگی پاکستان کیلئے وقف کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر معین پاکستان آئے تو میں نے فوراً دنیا فورم ترتیب دیا ،موضوع تھا مینگروز کے جنگلات،ڈاکٹر معین کی شاگرد ڈاکٹر کنول کے ذریعے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تعاون سے سینڈز پٹ پر مینگروز کے جنگلات پہنچے تو پہلا خیال ہی یہ آیا یہ قدرت کا اتنا حسین منظر سیاحوں کیلئے کس قدر پرکشش ہے پھر کیوں حکومت اس بارے میں نہیں سوچتی؟مینگروز کے جنگل میں 40سال پہلے پکڑی گئی وہیل کا ڈھانچہ بھی دیکھا ،ڈبلیو ڈبلیو ایف کے دفتر تک جانے کیلئے جو راستہ ہے وہ اتنے خوبصورت پل کے ذریعے بنا ہے کہ جیسے ہم کراچی میں نہیں بلکہ مری یا اسلام آباد کے کسی مقام پر ہوں۔

موضوع پر تو یقینا بات ہوگی ،مگر ساتھ ہی یہ تجویز بھی ضروری ہے کہ قدرت کے اتنے عظیم حسن کو کراچی والوں سے نہ چھپایا جائے اور اسے سیاحتی مقاصدکیلئے استعمال کرکے ذریعہ آمدنی کیساتھ تفریح کا موقع بھی فراہم کیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح آ پ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

(مصطفیٰ حبیب صدیقی ،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ (واٹس ایپ یا کال)

03444473215ای میل : 

mustafa.habib@dunya.com.pk

 

 دنیا: کراچی میں مینگروز کتنے رقبے پر ہیں ؟کیا ساحلی پٹی پر آبادی سے مینگروز کو نقصان پہنچ رہا ہے؟

ڈاکٹر معین احمد: مینگروزسندھ سے لے کر بلوچستان کے ساحل تک موجود ہیں۔ پورٹ قاسم میں مینگروز کے گھنے جنگلات پائے جاتے ہیں یہاں بھی ایک کمپنی نے باقاعدہ شجرکاری کی تھی اسے ختم کرکے کمپنیاں بنادی گئی ہیں جس سے ان جنگلات کو بہت نقصان پہنچا۔تجاوزات ہر جگہ ہورہی ہیں۔نیوزی لینڈ میں قانون ہے کہ جہاں زیادہ مینگروز ہیں انہیں خراب اور ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ حفاظت کی جائے گی کیونکہ یہ آلودگی کوختم کرتے ہیں اس لیے ان کی حفاظت ضروری ہے، ان مقامات پر کوئی قبضہ کرکے عمارت نہیں بنا سکتا۔ ہاکس بے پر مینگرو ز کے جنگلات میں بیرون ممالک کے پرندے بھی آتے ہیں ان کی افزائش بھی ہوتی ہے۔مینگروز میں 600 اقسام کے جاندار ہوتے ہیں ۔پاکستان میں مینگروز کی اعلیٰ قسم پائی جاتی ہے ۔پاکستان کے ساحلی علاقے مینگروز کی وجہ سے خوبصورت او رحسین نظرآتے ہیں حکومت چاہے تو ان مقامات کو صاف ستھرا کر کے اور سہولتیں فراہم کرکے سیاحت کیلئے استعمال کرسکتی ہے اس سے لوگوں کو تفریح کی بہتر جگہ کیساتھ حکومت کو بڑے پیمانے پر آمدنی ہوسکتی ہے۔ مینگروز کی خاص بات ہے ا س کے بیج درخت پر لگے لگے تیار ہوجاتے ہیں اور گرنے کے بعد اگنے شروع ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر کنول ناظم :مینگروز پہلے 0.6ملین ہیکٹر پر تھے۔مینگروز میں قدرتی طور پرتخلیق نو(Regeneration)ہورہی ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق مینگروز کے جنگلات 30سال میں 471اسکوائر کلو میٹر سے بڑھ کر اب 1472 اسکوائر کلو میٹر ہوگئے ہیں۔پانی میں صنعتی تیل اور گندگی آنے سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مینگروز میں افزائش کے عمل میں رکاوٹیں ہوتی ہیں اور جاندار ختم ہوجاتے ہیں۔ پوری دنیا میں مینگروز میں 110 اقسام کے پودے ہوتے ہیں جن کی شکلیں اور افادیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔مینگروز کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے سائنسی مطالعہ ضروری ہے۔ہمارے یہاں شجرکاری کیلئے مطالعہ نہیں کیا جاتا ۔حکومت اور اداروں کو اس طرف کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت مینگروز کے جنگلات کو تباہی سے بچانے کیلئے اقدامات کرے۔تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ماہر ماحولیا ت ہونے چاہییں جو پودوں کو محفوظ اور فائدے کے متعلق آگہی دیں۔سندھ فاریسٹ اس ضمن میں اہم کردار ادا کررہاہے۔

دنیا :مینگروز میں مچھلی کے علاوہ کتنے جانداروں کی افزائش ہوتی ہے؟

ڈاکٹر طاہر رشید: مینگروز میں200 سے زائد مچھلیوں کی اقسام پرورش پاتی ہیں۔ اس کی لکڑی سے مختلف اقسام کی کشتیاں بنائی جاتی ہیں ۔ 6بڑے میملزMammals کے اقسام بھی ہوتے ہیں۔3 قسم کے کچھوے پائے جاتے ہیں۔17بڑے Creeks ہیں۔انڈس ڈیلٹا میں مینگروز کا مجموعی طور پر رقبہ ایک لاکھ 39ہزار ہیکڑز ہے۔انڈس ڈیلٹا میں پائی جانے والی مینگروز کی 4 اقسام پاکستان میں موجود ہیں، یہ ایشیاء میں ساتواں اور دنیا میں 13ویں نمبر پر بڑامینگروز کا جنگل ہے ،انڈس ڈیلٹا میں مینگرو ز Aridیعنی خشک ہیں ،جہاں مینگروز ٹراپیکل شکل میں ہوتے ہیں وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔سائنسدان کہتے ہیں دیگر درختوں کی نسبت مینگرو ز درخت کاربن دو سے تین گناہ زیادہ جذب کرتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کہتا ہے جب تک مقامی کمیونٹی کو شامل نہیں کریں گے ماحولیاتی تحفظات کے منصوبے کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ایسے ماحولیاتی پروجیکٹ کو ہم لوگ ہی تباہ کرتے ہیں ۔ جب تک سب مل کر مینگروز کے تحفظ کی کوشش نہیں کریں گے یہ تباہ ہو جائیں گے۔ سب کو مل کر ڈبلیو ڈبلیو ایف،آئی یو سی این اور دیگر ادارے جو ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں ان کیساتھ تعاون کرنا ہوگا ، ڈبلیو ڈبلیو ایف بھی اسی پر کام کررہاہے، 22سال سے انوائرمنٹ کی تحفظ کی کوشش کررہے ہیں لوگ اعتماد کرتے ، بات مانتے ا ور عمل بھی کر رہے ہیں اسی وجہ سے د و سے تین دہائیوں میں 300 فیصد مینگروز کے جنگلات میں اضافہ ہوا ہے۔جو بڑی بات ہے۔

سندھ حکومت کا محکمہ جنگلات ڈبلیو ڈبلیو ایف اور دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کررہاہے ۔ مینگروز سے معاشی طورپربھی بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں،ایک ہیکڑ مینگروز سے 100کلو شرمپ پیدا ہوتے ہیں جو 150 کلوکی مختلف مچھلیاں کی پیداوار میں مدد دیتے ہیں ،50کلو کیکڑے (Crabs) حاصل ہوتے ہیں،200 کلو صدفیہ (Molluses) ملتاہے جس سے تجارت کر کے ڈالروں میں پیسے کما ئے جاسکتے ہیں ۔ ایک ہیکڑ میں مینگروز1.5 سے لے کر 10 میٹرک ٹن تک کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتاہے ۔مینگروز کا درخت جتنا بڑاہوگا اس کی چھتری (Canopy) اتنی بڑی ہوگی جو زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرکے آکسیجن فراہم کرے گی ۔ انڈس ڈیلٹا اور ساحلی علاقوں میں 20سال سے ڈبلیو ڈبلیو ایف مختلف پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے، ہمارا دارہ آفت زدہ علاقوں،کمیونٹی کی سطح اور سماجی سرگرمیوں پر بہت کام کر رہا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا پختہ یقین ہے کہ فطری طورپر قدرتی حل کی طرف جائیں گے تو چیزو ں کو بہتر کر سکتے ہیں۔حکومت سندھ کے ساتھ 14ہزار ہیکڑز پر مینگروز کے جنگلات کی بحالی Rehabilitation کرچکے ہیں اور مزید کام کررہے ہیں۔اس کے علاوہ کمیونٹی کی سطح پرآگہی کا بھی کام کررہے ہیں۔ڈبلیو ڈبلیو ایف نے2003 میں مینگروز کے ایک پروجیکٹ پر کام شروع کیا جس کا نام Tackling Poverty in Coastal Area of Sindh and Balochistan تھا۔2006سے 2012 تک Pakistan Wetlands پروگرام چلا۔2012 سے 2016 تک Building Capacity on Climate Change Adaptation in Coastal Areas.Indus for All programme پرکام ہوا۔ Indus Ecoregion community 

lively hud Project۔اور Sustainable managment of mangroves for Ecosystem Services and Community resilliance پرکام ہوا۔مینگروز کے نہ ہونے کا نقصان اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آکسیجن جی بی نے 2009 میں ریسرچ کی تھی کہ 30سال پہلے روزانہ 120کلو فی افرد مچھلیاں پکڑیں جاتی تھی وہ کم ہوکر صرف 6 کلورہ گئی ہیں، 1993 میں پورے انڈس ڈیلٹا میں پکڑی گئی مچھلیاں 3 لاکھ 48ہزار679 میٹرک ٹن تھی جو2000 ء میں کم ہوکر 64 ہزار 400 میٹرک ٹن پر رہ گئی ہیں، مینگروز کی حفاظت اور آگہی میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے ، 74ہزار 180 مینگروز خود خواتین نے لگائے،90خواتین مینگروز کی شجر کاری، حفاظت اور نرسری بنانے میں نمایاں کام کر رہی ہیں جو ان کی خریدوخروخت بھی کرتی ہیں اور اس کے روزگار سے وابستہ ہیں، ڈیولپنگ سیکٹر آرگنائزیشن اور حکومت کے پاس بھی محدو دبجٹ ہوتا ہے اسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں ایک نئے خیال پر کام کررہی ہے ، ڈبلیو ڈبلیو ایف نیدر لینڈ اور ڈبلیو دبلیو ایف انٹرنیشنل کی مدد سے 300 ملین یوروز کے پراجیکٹس شروع کرائے ہیں ۔

جس سے پاکستان بھی فائدہ اٹھائے گا۔اگر پرائیویٹ سیکٹر کو ئی اچھا پروجیکٹ لا تا ہے تو وہ بھی انڈس ڈیلٹا میں اپنے پروجیکٹ پر کام کرسکتاہے۔ان کو گر ا نٹ اورآسان قرضے بھی دیئے جاتے ہیں۔ڈبلیو ڈبلیو ایف بہت سرگرم ہے،اگر یہ آئیڈیاز کامیاب ہوجاتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کرتاہے تو مینگروز او ر اس کے ساتھ دیگر چیزیں کو پروان چڑھانے کیلئے بہت اچھا آغاز ہوگا۔

ڈاکٹر کنول ناظم : سوسائٹی برائے ما حولیات اینڈ مینگروز پروٹیکشن ویلفیئر ایسوسی کے تحت مینگروز کے ماحولیاتی اثرات پر یونیورسٹیوں او ر کالجوں میں لیکچر دینے بھی جاتے ہیں تاکہ طلباء میں مینگروز سے متعلق آگہی ہو۔ ہماری تحقیق کے مطابق پاکستان میں زیادہ عمر کے مینگروز کے درخت بھی موجود ہیں لیکن و ہ اندر سے کھوکھلے ہوجاتے ہیں جس سے ان پر تحقیق کرکے ان کی عمر معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق ابھی تک جن مینگروز پر ریسرچ کی گئی ہے ان کی عمر 39سال ہے ۔مزید پرانے درختوں پر تحقیقات جاری ہے۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے جو درخت پرانے ہوجاتے ہیں وہ کمزور ہوکر گر جاتے ہیں بعض مرتبہ انہیں کاٹ بھی دیا جاتاہے۔عمر جاننے کیلئے درخت کے تنے سےCore یعنی پنسل نما نمونہ لیا جاتاہے جس کے اندر رنگز ہوتے ہیں جس سے عمر کا اندازہ لگایاجاتا ہے۔

مختلف ممالک میں مینگروز میں مختلف قسم کے رنگز ہوتے ہیں ،ہمارے تمر میں ہر سال دو رنگزبنتے ہیں۔مینگروز میں ایک فوڈ چین ہوتی ہے جس سے جانداروں میں افزائش جاری رہتی ہے۔ Avicennia marina کو سیم و تھور زدہ زمین کو دوبارہ کارآمدکرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔جس کا باقاعدہ کامیاب تجربہ بھی کیا گیاہے ، میرپور ساکھرو کی زمین کو دوبارہ کارآمد بنالیاگیا۔بنیادی طورپر مینگروز آلودگی کو جذب کرکے ماحول پر فضا بناتے ہیں لیکن بدقسمتی سے صنعتی فضلا ان کوتباہ کررہا ہے۔ہم ان کو استعمال کرنے کے بجائے آلودہ اور ختم کر رہے ہیں۔ معاشرے میں ماحولیاتی سیاحت نہیں ہے جو ہونی چاہیے ۔ مینگروز موسم کی تبدیلی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، دوسرے جنگلات کے مقابلے میں مینگروز میں دیگر درختوں کی نسبت18 گنا زائد کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، سینڈز پٹ پراس حوالے سے کی گئی تحقیق کے مطابق اس علاقے میں تمر کے درختوں کی تعداد 3875فی ہیکڑ ہے جو تقریبا 184ٹن کاربن فی ہیکڑ جذب کررہے ہیں۔مینگروز کے حوالے سے آگہی نہیں ہے ،میڈیا اہم کردار ادا کرے تو بہتری آسکتی ہے۔دنیا اخبار کی اچھی کاوش جنہوں نے اس موضوع پر دنیا فورم کرکے لوگوں میں آگہی دی۔مینگروز شہر میں کسی بھی جگہ اور گھروں کے باہر بھی کیاری میں آسانی سے اگائے جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد عذیر : ہمارا نظام تعلیم بہت محدود ہے جس میں طلباء کو ماحولیات خاص طور پر مینگروز کے حوالے سے آگہی نہیں دی جاتی۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے یہاں مختلف کمپنیوں ا ور اداروں کو شجرکاری کے لئے جگہ دی ہوئی ہے جہاں مینگروزکی نشوونما کی جاتی ہے۔ پورٹ قاسم کے قریب رشیئن بیچ میں قریبی صنعتوں کا زہریلے کیمیکل کا فضلہ ڈال دیا جاتا ہے جس سے آلودگی ہونے سے مینگروز کے جنگلات تباہ ہوگئے ہیں وہاں کثیر تعداد میں مینگروز تھے جو اب نظر نہیں آتے بد قسمتی سے حکومت کی اس طرف توجہ نہیں ہے۔ مینگروز سمندری حیات کی افزائش نسل کیلئے اہم ہوتے ہیں۔ انڈسٹریز کے فضلے اورکیمیکلز کی وجہ سے پورٹ قاسم ،سینڈز پٹ اور دیگر جگہوں پر مینگروز کے جنگلات تباہ ہورہے ہیں۔

انچارج ڈبلیو ڈبلیو ایف عبدالرحمن : مینگروز میں موسم سرما میں سانپ بھی نظر آتے ہیں ۔ یہاں 460ایکڑ پر مینگروز کے جنگلات ہیں۔ مینگروز کی شجرکاری زیادہ کیچڑ میں اچھی ہوتی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مینگرو ز کی شجر کاری کیلئے مقامی کمیونٹی کے تعاون سے Forest Peace Nursaryقائم کی ہیں۔ جس سے بڑی شجرکاری میں مدد ملتی ہے۔شجرکاری کیلئے ان نرسری سے نمونے خریدے جاتے ہیں جومقامی لوگوں کیلئے روزگار کا ذریعہ بھی بنتاہے،اورجو کمیونٹی نرسری بنارہے ہیں حقیقت میں وہی مینگروز کی حفاظت اور نشونما بھی کررہے ہیں،عام طورپر مقامی لوگ ماحولیات کے بارے اور آلودگی کے نقصانا ت سے نہ واقف ہوتے ہیں انہیں ڈبلیو ڈبلیوایف سمیناراورورکشا پ کے ذریعے آگہی اور معلومات فراہم کرتا ہے، Mangrove Forest Transit walk کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جسے خواتین اور بچے بہت انجوائے کرتے ہیں اور مینگروز کے متعلق بنیادی باتیں اور چیزیں بھی سیکھتے ہیں،ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سامنے ٹرٹلز بیچ کہلاتاہے جو ساڑھے 3 کلومیٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے، ہر سال اکتوبر سے جنوری میں گرین ٹرٹلز آتے ہیں جس کی وجہ سے اس مقام کی بہت اہمیت ہے، بنیادی مقصد ماحولیات سے متعلق انفارمیشن اور حفاظت سے متعلق تحفظات سے آگاہ اور حل بتانا ہے۔ڈبلیوڈبلیوایف ایک انسٹی ٹیوشن ہے جو آگہی اور تعاون کرسکتا ہے لیکن بزور طاقت کسی سے زبردستی عمل نہیں کروا سکتا۔مقامی لوگوں کو کام کرنے میں کئی مسائل کا سامناہوتاہے جسے حکومت کو حل کرنا چاہیے ۔ مسائل حل نہ ہو نے سے روز بروز صورت حال بد تر ہوتی جارہی ہے۔ماہی گیر مچھلیوں کے سیزن آف ہونے پر مینگروز میں جاکر فشنگ کرتے تھے جس سے ان روزگار چلتا رہتا تھا ۔صنعتی فضلہ کی وجہ سے مینگروز میں مچھلیوں کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ مینگروز تباہ ہوگئے جس سے ماہی گیروں کو معاشی نقصان ہوا۔

دنیا: تعلیمی اداروں میں مینگروز اور شجر کاری کے حوالے سے آگہی کیوں نہیں دی جاتی ؟ کیا بڑے جہاز نقصان پہنچاتے ہیں ِ؟

ڈاکٹر معین احمد:بالکل تعلیمی اداروں میں بات ہونی چاہیے، مینگروز کیلئے سمندر ی حدود ہی ضروری نہیں اس کی شجرکاری تعلیمی اداروں میں آسانی سے ہوسکتی ہے، مینگروزبنیادی طور پر تازہ پانی کا پودا ہے، گھروں میں بھی لگائے جاسکتے ہیں جہاں افزائش بھی اچھی ہوتی ہے،دنیا کا کوئی درخت ایسا نہیں جو آکسیجن نہ دے۔مچھلی اور دیگر جانداروں کے انڈے مینگروز کی جڑوں میں جڑ جاتے ہیں جس سے افزائش ہوتی ہے اگر کھلے سمندر میں مچھلی انڈے دے گی تو وہ بکھر جائیں گے،مینگروز زمین اور سمندر کے درمیان پل کا کردار ادا کرتاہے جو زمین سے غذائی اجزاء کو جذب کرکے سمندر میں مچھلی اور دیگر جانداروں کو غذا فراہم کرتاہے،جہاں مینگروز ہوتے ہیں وہاں سمندری وسائل بھی بہت زیادہ اور معیاری ہوتے ہیں۔

مینگروز کیچڑ میں ہوتے ہیں جہاں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اگر جہازوں سے آئل بھی داخل ہوجائے تو آکسیجن بند ہوجاتی ہے اور جانداروں کی افزائش بھی رک جاتی ہے اور یہ تباہ ہوجاتے ہیں، زہریلا فضلا مینگروز کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پر عام طور پر لوگ مثبت پہلوؤں کے بجائے منفی پہلوؤ ں پر زیادہ بات کرتے ہیں، مینگروز نہ ہونے سے جو موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں اس میں کئی خطرات ہیں،کچھ لوگ کہتے ہیں مینگروز سے درجہ حرارت بڑھ جا تا ہے جس سے سمندر سے بخارات اٹھیں گے، نمک زیادہ بڑھ جائے گا،جس سے مینگروز کو نقصان ہوسکتا ہے،اس کا مثبت پہلو بھی ہے کہ مینگروز کی وجہ سے بارشیں اور طوفان بھی آتے ہیں،جب بارشیں اور طوفان آتے ہیں تو اپنے ساتھ میٹھا پانی بھی لاتے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں دنیا بھر میں گلیشیئر پگھلنے سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہوگا جس سے مینگروز کی جڑیں ڈوب جائیں گی اور مینگروز تباہ ہوسکتے ہیں، لیکن قدرتی طور پر ہمارے مینگروز میں یہ صلاحیت ہے جب پانی کی سطح بلند ہوتی ہے تو اس کی جڑیں بھی سطح کے ساتھ اوپرہوجاتی ہیں،مینگروز کو بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے سامنے کھلا میدان ہوا۔اس جگہ قبضہ ہوجائے یا جگہ استعما ل ہوجائے تو مینگروز بڑھ نہیں سکے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ڈاکٹر عذیر :مینگروزکی خاصیت ہے کہ جب یہ کیچڑمیں لگائے جاتے ہیں توان میں پنسل نما جڑیں Pneumatophoresزمین سے باہر نکلتی ہیں تاکہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ان درختوں کو سانس لینے میں دشواری نہ ہوسکے ۔ جبکہ اگر انہی درختوں کو عام زمین میں لگادیا جائے تو یہ دیکھا جا سکتاہے کہ اس وقت اس میں جڑیں Stilt Roots اور Pneumatophores غائب ہوجاتے ہیں۔بد قسمتی سے ہم ان چیزوں کو فوکس نہیں کرتے جو ہماری ضرورت اور ترجیحات میں شامل ہوں،شہروں میں شجرکاری کرنا بنیادی طوپر پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے حکومت چاہتی ہے آج جو کام کریں کل تیار ہوکر کھڑا ہوجائے، تاکہ لوگ واہ واہ کریں ۔شہر میں کونو کارپس لگانے کی وجہ بھی یہی تھی یہ پودا بہت تیزی سے بڑھتا ہے، جس نے چند ماہ میں کراچی کو ہرا بھر کردیا جس سے حکومت کی واہ واہ ہوگئی اس کا نقصان یہ ہوا کہ مقامی چیزوں کو چھوڑ دیا گیا اور ایک ہی چیز کو پورے شہرمیں لگا دیا۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی باہر کا پودا لگایا جاتا ہے تو مقامی پرندوں کو درخت کو تسلیم کرنے میں وقت لگتا ہے آہستہ آہستہ مانوس ہوں گے تب گھونسلے بنائیں گے۔

پہلے جنگل جلیبی ، بڑ ،بوندی اور مختلف اقسام کے درخت ہواکرتے تھے جو اب ختم ہوگئے ہیں،جن پر پرندے کی چہہ چہاہٹ ہوتی تھی جو اب نظر نہیں آتی ۔بد قسمتی سے ہماری طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ محکمہ جنگلا ت کے علاوہ پرائیویٹ ادارے بھی موجود ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں کام کررہے ہیں، قدرتی طور پر مینگروز کی افزائش تو اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ مختلف ادارے ، سندھ کا شعبہ جنگلات بڑے پیمانے پر مصنوعی شجر کاری بھی کررہے ہیں، شجر کاری میں سندھ کے شعبہ جنگلات میں دو مرتبہ ورلڈ ریکارڈ بنایا ہے۔

ڈاکٹر کنول : دنیا کے 8ممالک کے ماہرین ہمارے ساتھ مینگروز پر کام کررہے ہیں لیکن میڈیا کوریج نہیں ہے۔ سوسائٹی فار انوائرمنٹ اینڈ مینگروز پروٹیکشن ویلفیئر ایسوسی ایشن بنائی ہے جو مینگروز کے حوالے سے پاکستان کی پہلی سوسائٹی ہے،جس کے پلیٹ فارم سے یونیورسٹی ،کالجوں میں جاکر لیکچرز دے رہے ہیں اور ورکشاپس بھی کرا رہے ہیں اور بیروں ملک بھی جاکر ماہرین کے ساتھ ریسر چ بھی کررہے ہیں۔

دنیا فورم کے دوران ڈاکٹرمعین ،ڈاکٹر کنول ناظم،ڈاکٹر عذیر اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے انچارج عبدالرحمن نے دنیا فورم کی ٹیم کو مینگروز کے جنگلات ۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کے دفتر جہاں سمندر کا نقشہ اور مینگروز کے متعلق تحریری اور تصاویر کی شکل میں معلومات تھی دکھایا، مینگروز کی نرسری بھی دکھائی جہاں مختلف کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے مینگروز کی شجرکاری کی جارہی تھی او روہ مقام بھی دکھایا جہاں وہیل مچھلی کا 40سال پرانا ڈھانچہ رکھا ہوا تھا ۔سروے کے دوران ڈاکٹر معین نے ایک مینگروز کے چھوٹے سے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسےAvicennia marinaکہتے ہیں۔ یہ پودا بہت فائدہ مند ہوتا ہے ا س سے ادویات بھی بنتی ہیں۔ا س کی جڑیں چاروں طرف 50میٹر تک پھلی ہوئی ہیں ۔گھر میں پانی کی بوتل میں بھی اگاسکتے ہیں۔

مینگروز کی وجہ سے دیگر ممالک کے پرندے بھی آکر بسیرا کرتے اور انڈے دیتے ہیں،جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو واپس چلے جاتے ہیں، پاکستان میں 600 جانوروں کی Species مینگروز پر انحصار کرتی ہیں۔ڈاکٹر کنول ناظم نے کہا کہ ڈاکٹر معین نے یہاں ایک لیبارٹری قائم کی جس میں مینگروز کے رنگز سے عمرکا معلوم کیاجاسکتا ہے،اس سے پہلے اس پر کام نہیں ہوا تھا ہم اس پر بھی کام کررہے ہیں،مختلف ممالک میں مینگروزکے مختلف رنگز بنتے ہیں ،تجربے سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے مینگروز میں ایک سال میں دو رنگر بنتے ہیں ،جتنے رنگز بڑھتے جائیں گے اس سے عمر معلوم ہوجائے گی ۔ جس درخت کا تنا جتنا موٹا ہو جاتا ہے وہ خراب ہوجاتا ہے، پاکستان میں ابھی تک 39سال کا مینگروز کے درخت کا معلو م ہو سکاہے اس درخت میں 78رنگز تھے،ڈاکٹر معین نے کہا کہ ایسے علاقے جہاں موسموں میں واضح فرق ہوتا ہے جیسے سردی ،گرمی ،بہار اور خزاں ہوتی ہے ان مقامات پر بہار کے موسم میں تنا بڑھنا شروع ہوتاہے جسے جیسے موسم خزاں کی طرف جاتا ہے موسم ٹھنڈ ا ہونا شروع ہوتا ہے جس سے ا س کے رنگز چھوٹے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور جن علاقوں میں برف باری ہوتی وہاں بڑھنے کا عمل رک جاتاہے جب بہار کا موسم آتا ہے تو اس رنگ کے آگے دوسری رنگ بننا شروع ہوجاتی ہے، جبکہ ٹراپیکل علاقوں میں جس میں کراچی بھی شامل ہے یہاں پورا سال ہی سیزن ایک رہتاہے اس میں بڑھنے کا عمل مستقل ہوتا ہے۔

ایڈیٹرفورم نے کہا ہم ان علاقوں میں کئی مرتبہ آئے ہیں لیکن آج پتہ چلا ہے یہ علاقہ مینگروز کی وجہ سے اتنا خوبصورت ہے جو سیاحت کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے ، سندھ کے لوگ مری اور اسلام آباد گھومنے جاتے ہیں حالانکہ یہ علاقہ بھی ان سے کم نہیں،کیا یہ علاقہ باقاعدہ پکنک پوائنٹ بن سکتا ہے،ہمیں ملک میں ماحولیاتی سیاحت لانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عذیر نے کہا کہ موسم سرما میں پرندوں کی ہجرت ہوتی ہے جواتنا خوبصورت منظر پیش کررہا ہوتاہے آپ تصور نہیں کرسکتے کہ یہ علاقہ پاکستان کا حصہ ہے۔سروے کے دوران ڈاکٹر عذیر نے پانی میں تیل کی تہہ دکھاتے ہوئے کہا کہ سائٹ کے صنعتی علاقوں سے آئل بہتا ہوا آرہا ہے جو مچھلیوں کی افزائش میں میں رکاوٹ ہے اور مینگروز کو نقصان پہنچارہا ہے، تازہ پانی خاص طور پر بارش کا پانی تو مینگرو ز کیلئے بہت مفید ہے،

ڈاکٹر معین نے کہا کہ مینگروز سمندرکے نمکین پانی کو جذب کرتا ہے اور پتوں کے ذریعے میٹھا پانی خارج کرتاہے،انچارج ڈبلیو ڈبلیو ایف عبدالرحمن نے کہا کہ یہاں سانپوں کی اطلاعا ت ہیں ، آفس کے دروازے کے پاس بھی سانپ دیکھا گیا ہے،موسم سرما میں یہ جانور دھوپ کیلئے باہر نکلتے ہیں،گیدڑ کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس دوران وہاں شجر کاری کے لئے آئے ایک کمیونٹی رکن عبداللہ نے بتایا کہ گزشتہ چار پانچ روز قبل جنگلی بلی بھی دیکھی گئی ہے جو ’’گو ‘‘raptile monitorکے ساتھ لڑ رہی تھی اس کی تصاویر بھی لی ہیں۔یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ مینگروز کے حوالے سے دنیا اخبار میں شائع ہونے والی خبر میں مذکورہ واقع غلطی سے عبدالرحمن کے حوالے سے شائع ہوگیا تھا جبکہ جنگلی بلی اور مگر مچھ کی لڑائی لکھ دی گئی تھی جبکہ حقیقی واقعہ اب درج کردیاگیا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔