قوموں کی ترقی کا راز ،آسان اور سستا انصاف

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :عمران علی لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء: انور کاشف ممتاز،ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔مبشر نعیم صدیقی، ڈائریکٹر جنرل وفاقی انشورنس محتسب ۔ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ، چیئر پرسن ول فورم ۔ایڈووکیٹ روبینہ جتوئی جنرل سیکریٹری ول فورم ۔پروفیسر ڈاکٹر منصور الظفروائس چانسلر علماء یونیورسٹی ۔ فراز الرحمن ،صدرکورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(کاٹی ) ۔راشد احمد صدیقی ،چیئرمین عفیف گروپ ۔ فیکلٹی ممبران اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

 آسان انصاف کیلئے تنازعات کے حل کا متبادل نظام بہترین ہے:  ایڈووکیٹ انورکاشف

ریاست تحفظ نہیں دیتی اس لئے گواہ عدالت میں گواہی سے ڈرتا ہے:  پروفیسرڈاکٹر منصور الظفر

 محتسب انشورنس میں متبادل تنازعاتی حل کے تحت مقدمات 2ماہ میں حل ہوتے ہیں:  مبشرصدیقی

معاشی مشکلات ،صنعت کار پریشان اورایل سیز بند ہیں،عدلیہ سوموٹولے:  راشد صدیقی

ول فورم نے اے ڈی آر میں ترامیم کیلئے کئی تجاویز پیش کی ہیں:  ایڈووکیٹ طلعت یاسمین

کچھ وکلاء نے خدمت کو کاروبار بنالیا،حکمران عدل کا نظام نافذ کریں:  ایڈووکیٹ روبینہ جتوئی

جب تک خود احتسابی نہیں اپنائیں گے معاشرہ بہتر نہیں ہوگا:  فراز الرحمٰن

 

موضوع: ’’انصاف کی فراہمی میں آسانی کیسے ؟‘‘

 

قتیل شفائی نے کہا تھا کہ ’’کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک،جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے،جس غلے کے نگہبان ہیں وہ گیدڑجن سے،قحط اور افلاس کے بھوتوں نے امان چاہی ہے‘‘پاکستان میں نظام انصاف پر اکثر انگلیاں اٹھتی رہتی ہے،عالمی انصاف کی رینکنگ میں بھی ہماری پوزیشن بہت خراب ہے،عام آدمی انصاف کے حصول کیلئے تقریباً مایوس ہوچکا ہے۔طاقت ور اور کمزور کیلئے ہر جگہ مختلف حالات ہیں،نظام تعلیم ہو یا نظام انصاف کمزور اور پسا ہوا طبقہ عموماً کچھ حاصل نہیں کرپاتا،لیکن ملک میں موجود قوانین اور غریبوں کیلئے قانون کی کتابوں میں لکھی سہولتوں کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کاش ان پر عمل بھی ہوجائے۔وفاقی محتسب انشورنس مبشر نعیم صدیقی نے ایک ملاقات میں اے ڈی آر یعنیAlternative Dispute Resolutionکا ذکرکیا۔متبادل تنازعاتی حل ایک ایسا نظام جس میں بہت تیزی سے اور نہایت آسانی سے پیسے خرچ کئے بغیر سائلین کو انصاف مل جاتا ہے ۔

پھر کیا وجہ ہے کہ اس بہترین نظام کو وہ پزیرائی نہیں مل رہی جو اس کا حق ہے؟بس یہی وہ سوال تھا جس نے دنیا فورم کیلئے وجہ پیدا کیااور علماء یونیورسٹی کے وی سی پروفیسر ڈاکٹر منصور الظفر کے تعاون سے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں دنیا فورم کا اہتمام کیاگیا۔دنیا فورم میں ماہرین قانون،تعلیم اور صنعتکاروں نے کہا ہے کہ ملکی عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کیلئے متبادل تنازعاتی حل(Alternative Dispute Resolution)پر عمل کیاجائے۔یہ حقیقت ہے کہ ہماری عدلیہ پر مقدمات کا بہت زیادہ بوجھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے سائلین بھی پریشان رہتے ہیں۔یہ نظام کتنا سود مند ہوسکتا ہے اس کا فیصلہ قارئین دنیا فورم کی مکمل رپورٹ دیکھ پر کریں اور ہمیں بھی بتائیں کہ اس فورم سے انہیں کیا حاصل ہوا۔آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔شکریہ

مصطفیٰ حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:   0092-3212699629۔0092-3444473215

ای میل:  mustafa.habib@dunya.com.pk

 

 اے ڈی آر نظام کو سمجھنے کیلئے دنیابھرمیں مقابلے ہو رہے ہیں۔بھارت سے ٹیمیں پیرس جارہی ہیں۔ جامعات طلباء کی ٹیم بنائیں ہم تربیت کریں گے تاکہ وہ پاکستان کا نام روشن کریں،وکیل سپریم کورٹ

 قانون کی کتابوں میں عدالتی نظام بہت بہتر ہے لیکن جب یہ نظام ہمارے ہاتھوں میں آتاہے توغلط ہو جاتا ہے ہمیں خود کو صحیح کرنا ہوگا۔جج صاحبان سے درخواست ہے کہ یہ مسائل حل کریں،وی سی علماء یونیورسٹی

  یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں نہ دیں ،ملکی قوانین اور نظام عدل کے بھی کورسز کرائیں تاکہ طلباء کو قانونی پیچیدگیوں کے بارے میں آگہی اور قانون کی بنیادی باتوں کے متعلق معلومات ہوں،ڈی جی وفاقی محتسب انشورنس

  70 سال پہلے امریکا  میں نظام انصاف کا وہی حال تھا جو آج پاکستان کا ہے۔ امریکا میں انقلاب نظام انصاف میں انقلاب کے بعدآیا،پاکستان میں بھی اسکی ضرورت ہے،معروف صنعت کار

 خاندانی معاملات میں ججوں کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مسائل عدالت سے باہر ہی حل کرلیے جائیں جو اچھا عمل ہوتاہے۔ثالثی کا باقاعدہ کورس کیا جاتا ہے جس کے اچھے نتائج آتے ہیں،چیئرپرسن ول فورم

 انصاف کی راہ میں رکاوٹ دور کریں۔ ناانصافی دور کر نے کیلئے قانون موجود ہے لیکن عمل نہیں ہوتا کسی طالب علم کے ساتھ زیادتی ہو توعدالت میں پٹیشن دائر کرسکتا ہے،سیکرٹری جنرل ول فورم

صنعتی اداروں میں کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ بھیٹر بکریوں جیسا سلوک ہوتاہے۔باقاعدہ ٹرانسپورٹ نظام بھی نہیں۔ خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک سیل قائم کیا ہے،صدر کاٹی 

 

 دنیا: اے ڈی آر نظام کیا ،انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں کیوں ہیں؟

ایڈووکیٹ انورکاشف : اے ڈی آر نظام میں خاندانی ایشوز پرثالثی ہورہی ہے۔اے ڈی آر نظام کو سمجھنے کیلئے دنیابھرمیں مقابلے ہورہے ہیں۔کئی ممالک سے طلبا ء کی ٹیمیں بیرون ملک جارہی ہیں ،پیرس میں ایک مقابلہ ہورہاہے جہاں بھارت سے 10 سے 12 ٹیمیں جارہی ہیں۔دنیا فورم کے توسط سے یونیورسٹیوں کو پیش کش کرتا ہوں وہ طلباء کی ٹیم بنائیں ہم تربیت کریں گے تاکہ وہ بیرون ملک جاکر پاکستان کا نام روشن کریں۔Mediation(ثالثی )صرف وکلاء کیلئے خاص نہیں طلباء اپنے گھروالوں میں رہتے ہوئے اس نظام کو سمجھتے ہوئے مسائل حل کرسکتے ہیں،پنچایت میں بھی تھرڈ پارٹی فیصلہ کرتی ہے،خاندانی ایشوز،لیبر قوانین اور عدالتوں میں بھی پر Mediation ہورہی ہے،طلباء سے درخواست کروں گااس میں حصہ لیں آگہی ہوگی او رمسائل حل ہوں گے۔ لیگل ایڈ سوسائٹیاں غریبوں کوقانونی مشورے اور مدد کررہی ہیں۔ عدالتی نظام میں خرابی نہیں راہ میں ہم خود رکاوٹ ڈالتے ہیں۔مالیاتی سمیت خاندانی تنازعات کا آسان حل متبادل تنازعاتی نظام ہے۔

 وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور الظفر : دنیا فور م نے اہم موضوع اٹھایا ہے۔ اس سے لوگوں میں آگہی ہوگی۔معاشرے میں مسائل اور ناانصافیاں ہیں ہمیں ان سے بچنا ہوگا۔ موجودہ نظام میں اکثر انصاف نہیں ملتا۔ہمارا نظام عدل غریبوں کیلئے نہیں بااثر افراد کیلئے ہے۔ گواہ عدالت میں گواہی دینے سے ڈرتا ہے کیونکہ ریاست گواہ کو تحفظ دینے میں ناکام ہے ۔عدالتی نظام گواہوں پر ہوتا ہے جہاں جھوٹے گواہ مل جا ئیں وہاں انصاف کیسے ممکن ہے؟جب تک گواہ اور شہادت صحیح نہیں ہوگی نظام بہتر نہیں ہوسکتا۔جج صاحبان سے درخواست ہے کہ ان مسائل کو حل کریں۔قانون کی کتابوں میں عدالتی نظام بہت بہتر ہے لیکن جب یہ نظام ہمارے ہاتھوں میں آتاہے توغلط ہوجاتاہے ہمیں خود کو صحیح کرنا ہوگا۔

دنیا : اے ڈی آر پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے کیا وجہ ہے ؟

 مبشر نعیم صدیقی : عدالتی نظام بڑا موضوع ہے اس پر طویل گفتگو ہوسکتی ہے۔ کسی بھی نظام کو کامیاب بنانے اور چلانے کیلئے آگہی ہونا ضروری ہے جو نظر نہیں آرہی ۔ اے ڈی آر عدالتی نظام میں خود ایک بڑا فورم ہے اس کو استعمال کرنے کیلئے آگہی ہونی چاہیے۔ مسائل معلوم ہوں گے تو حل ہوں گے۔اے ڈی آر کو استعما ل کرنے کیلئے اصل عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے ،میڈیا اور پیمرا دونوں کے قوانین میں عوام کی آگہی کیلئے بہت کچھ ہے اس کو دیکھتے ہوئے میڈیا اپنا کردار ادار کرے اور عوام کواس نظام کے بارے میں بتائے تاکہ معاشرے میں بہتری اور آگہی ہو۔دنیا فور م کو مبارک باد دوں گا یہ معاشرے کے مسائل کو اجاگر اور حل کرنے کیلئے اپنے حصے کا کام کررہاہے۔ طلباء بھی قانون کی بنیادی باتوں سے لاعلم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں دینا اپنا فرض نہ سمجھیں ،تعلیمی اداروں میں ملکی قوانین اور نظام عدل کے بھی کورسز ہونے چا ہئیں تاکہ طلباء کو تعلیم کے ساتھ معاشرے میں ہونے والی قانونی پیچیدگیوں کے بارے میں آگہی اور قانون کی بنیادی باتوں کے متعلق معلومات ہو۔عام طورپر طلباء اس عمر میں دھوکے کھاکر مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے مستقبل کی راہیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔وفاقی محتسب انشورنس میں اے ڈی آر کے تحت ہونے والے کیسز دو ماہ کے اندر حل ہوجاتے ہیں۔

اس میں وکیل کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔درخواست گزار خود معلومات اور آگہی کی بنیادپر مقدمہ لڑتا ہے اور فیصلہ بھی جلد ہوجاتا ہے۔ہمیں یہ فورم استعمال کرنا چاہیے۔اداروں کو اے ڈی آر نظام پرکام کرنا چاہیے۔ ملکی عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کیلئے متبادل تنازعاتی حل(Alternative Dispute Resolution)پر عمل کیاجائے۔ وکلاء کو اے ڈ ی آر نظام کے تحت کیس لینے چا ہئیں اور کچھ مقدمات میں اگر سائل فیس نہ دے سکے تو مفت میں بھی لڑنا چاہیے۔ اس شعبے کو خدمت کے جذبے سے آگے بڑھانا ہوگا۔کئی مرتبہ مقدمات برسوں چلتے رہتے ہیں ان میں جہاں عدالتوں کا وقت اور پیسہ ضائع ہوتا ہے وہیں سائلین بھی پریشان رہتے ہیں۔وکلاء اے ڈی آر کے بھرپور نفاذ کیلئے کردار اداکریں۔کئی مرتبہ خود نظام انصاف ہی انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے ۔اس نظام کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں کمزور اور طاقتور کیلئے یکساں نظام انصاف ملکی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

دنیا: کاروباری برادری انصاف کی فراہمی او ر اے ڈی آرنظام کوپروان چڑھانے میں کیا کردار ادا سکتی ہے؟

 راشد احمد صدیقی : جب تک ملک میں عدالتی انقلاب نہیں آئے گا۔ انصاف کی فراہمی میں آسانیاں نہیں ہوں گی اور ملک کی بقاء خطرے میں رہے گی۔جب تک اوپر کی سطح پر بہتری نہیں آئے گی نچلی سطح کے لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ہمیں کھل کر خراب چیزوں پرتنقید کرنی چاہیے تاکہ چیزیں بہتر ہوں۔نظام انصاف بہتر ہوتا توآج کاروباری برادری کو وہ مسائل نہیں ہوتے جوہورہے ہیں اور معیشت تباہی کی دہانے پرکھڑی نہ ہوتی ۔ ملک میں معاشی مشکلات ہیں ۔صنعتکار پریشان ہیں،ایل سیز بند ہیں،عدلیہ کو ان مسائل پر سوموٹو لینا چاہئیے۔عام طورپر تاثر ہے کہ ملک میں ڈالر کا فقدان ہے،ملکی معاشی حالات اچھے نہیں ہیں ایسا کچھ نہیں۔1988 میں ہمارے ذخائر 500ملین رہ گئے تھے اسکے باوجود کسی کی ایل سی بند نہیں ہوئی اور نہ کسی کے کاغذات روکے گئے اور کسی کو معلوم بھی نہیں تھا ۔ 2014ء میں ذخائر دوبلین رہ گئے تھے اس پر بھی ایسے مسائل نہیں تھے اور پورے پاکستان کی معیشت چل رہی تھی ۔آج 5بلین ڈالر کے ذخائر موجود ہیں اس کے باوجود بھی کسی کی ایل سیز نہیں کھل رہی ہیں، کاغذات جاری نہیں ہو رہے ہیں،جن کی مشینریاں بندرگاہ پر موجود ہیں وہ کہہ رہے ہیں مشینریاں واپس کردینگے لیکن ڈالر نہیں دیں گے۔ 10،10 کروڑ کی گاڑیاں آج بھی کلیئر ہورہی ہیں، عدلیہ کو ان چیزوں پر ایکشن لینا چاہیے۔ تمام اداروں کو سیاسی دبائو سے آزاد کئے بغیرملک اچھے راستے پر نہیں جاسکتا۔ 70 سال پہلے امریکا میں نظام انصاف کا وہی حال تھا جو آج پاکستان کا ہے۔ امریکا کی ترقی اورانقلاب اس وقت آیا جب وہاں نظام انصاف میں انقلاب آیا۔پاکستان میں بھی ایسے ہی انقلاب کی ضرورت ہے ۔ معیشت کی بہتری کیلئے صنعتی انقلاب کی اشد ضرورت ہے۔جب تک ان دونوں میں انقلاب نہیں آئے گا پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر نہیں ہو گی ۔ اے ڈی آر میں بھی کئی جگہ پر شخصیت پسندی ہوتی ہے۔

دنیا: متبادل تنازعاتی حل کے نظام سے بہتری آئی ہے؟

 ایڈووکیٹ طلعت یاسمین : دنیا فورم معاشرے میں بہتری کیلئے اچھا کام کررہا ہے۔اے ڈی آر بنانے کا مقصد سول معاملا ت حل کرنا تھا۔ کئی معاملات حل بھی ہوتے ہیں ۔ول فورم نے اے ڈی آر میں فیملی قانون شامل کرنے کیلئے ترمیم پیش کی ہے۔ خاندانی معاملات میں ججز کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مسائل عدالت سے باہر ہی حل کرلیے جائیں جو اچھا عمل ہوتاہے۔ثالثی کا باقاعدہ کورس کیا جاتا ہے جس کے اچھے نتائج آتے ہیں، عدالتی مسائل سے آگہی کی بہت کمی ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے نصاب میں بھی یہ چیزیں نہیں ہیں۔ مسائل حل نہ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ آگہی کا نہ ہونا ہے۔آرٹیکل 25کے تحت تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔آج عملی طور پر دیکھیں تو شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔آرٹیکل 37 میں ریاست کی تعریف کی گئی ہے کہ معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ سستے اور آسان انصاف کو یقینی بنایا جائے گا، حکومت سب کیلئے اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنائے گی ۔ بچوں او رعورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے جو ان کی عمر اور جنس کیلئے نا مناسب ہو۔بچوں کو جبری مشقت کے حوالے سے قانون میں ترمیم آئی ہے کہ ان کی سزا بڑھادی جائے گی اورجہاں کمر عمر بچوں کو نوکری یا جبری مشقت ہورہی ہے ان لوگوں کو سزا د ی جائے گی ۔

حکومت غریبوں اور یتیموں کیلئے سہولت یا طریقہ کار بنائے جو ان کو ماہانہ دیا جائے ۔قانون میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے وقت کوبھی مد نظر رکھا جائے گا۔ قانون میں سب چیزیں موجود ہیں عمل نہیں ہوتا۔معاشرے کی بہتری کیلئے ان چیزوں کو ترجیح دینی ہوگی۔فورم کے توسط سے ایک مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گی کہ کچھ یونیورسٹیوں میں طلباء نشہ آور ادویات استعمال کررہے ہیں ۔ حال ہی میں ایک یونیورسٹی کے طلباء میں نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہوئے ایک ہنگامہ ہوگیا تھا ۔ حکومت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان چیزوں کو کنٹرول کرے۔تعلیمی اداروں میں طلباء کو آگہی دینی چاہیے۔جب تک غریب عوام کو سستے اور آسان طریقے سے انصاف نہیں ملے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہراساں کئے جانے کے شکار طلبہ وطالبات پریشان نہ ہوا کریں ہم سے رابطہ کریں ان کی رہنمائی کریں گے۔ معاشرے میں بہتری اور اخلاقیات کی تربیت کیلئے ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے۔طلباء سے کہنا چاہوں گی حقوق اور فرائض ادا کریں گے تو مسائل حل ہوں گے ۔اسلام بھی یہی کہتا ہے اپنا حق چھوڑ دو اور دوسرے کا حق اد ا کردو۔ہم اگر اس میں پہل کریں تو معاشرہ بہتر ہوتا چلاجائے گا ، یونیورسٹیاں نصاب میں ان چیزوں کو شامل کریں تو طلباء کی اچھی تربیت ہوسکتی ہے۔

ایڈووکیٹ روبینہ جتوئی : انصاف کے ساتھ عدل کا لفظ لازمی آتاہے۔ ہم اپنے حصے کا کام نہیں کررہے جس کی وجہ سے معاشرے میں انصاف کے بجائے ناانصافیاں بڑھتی جارہی ہیں۔حکمرانوں کا کام عدل او ر ججز کا کام انصاف کرنا ہے ۔ جو چیزیں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں انہیں دور کرنا چاہیے۔قانون میں ہر ناانصافی کو دور کر نے کیلئے قانون موجود ہیں عمل نہیں ہوتا۔کسی طالب علم کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ عدالت میں پٹیشن دائر کرسکتا ہے ، Mediation کاعمل بہت اچھا ہے اس پرمکمل طورپرعمل نہیں ہوسکا۔ آج کچھ وکلاء نے خدمت کے پیشے کو کاروبار بنالیا۔فیس لینا منع نہیں لیکن اتنی زیادہ مانگی جاتی ہے جس سے سائل پریشان ہوجاتا ہے ۔ول فورم کوشش کررہا ہے جو چیزیں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں انہیں دور کیا جائے۔

دنیا: انڈسٹری میں ملازمین خاص طور پر خواتین ملازمین کے مسائل حل کرنے کیلئے کاٹی کیا کردار ادا کررہی ہے؟

 فراز رحمن : دنیافورم کی اچھی کاوش ہے یہ تعلیمی اداروں میں طلباء کو جوڑے رکھتا ہے۔انصاف کی فراہمی ہم سب نے کرنی ہے۔سب سے پہلے انصاف خود کرنا ہے۔ہم دوسروں پر تو انگلی آسانی سے اٹھا لیتے ہیں لیکن اپنی طرف نہیں دیکھتے ۔خود شروعات کریں گے تو معاشرے میں انصاف ہوتا نظر آئے گا۔ حکمران بد قسمتی سے جس نظام پرعمل کرتے آرہے ہیں اس نے ملک کو تباہ کردیا ہے ۔جب تک ملک میں عدل قائم نہیں ہوگا ہم بہتر نہیں ہوسکتے۔ہمارا دین کہتاہے تم میں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں مگر تقوی کے لحاظ سے ہر ایک کا مقام منفرد ہے۔جس کا تقویٰ اچھا ہوگا وہی عدل اور انصاف کی مثال ہوگا۔جب تک خود احتساب نہیں کریں گے معاشرہ بہتر نہیں ہوگا۔ملک میں دو تعلیمی نصاب کی وجہ سے ہم خود ہی غلام اور حکمران بنارہے ہیں ۔ہمیں نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہوگا۔خواتین کی ملازمت کے حوالے سے ہمیں اس بات کی بھی آگہی ہونی چاہیے کہ کون سی ملازمت خواتین کیلئے موضو ع ہے اور کون سی نہیں ۔خواتین پہلے بھی گھروں میں سلائی کڑھائی کے کام کرتے ہو ئے گھرا ور شوہر کا ساتھ دیتی تھیں ،آج بھی ملازمت کرکے گھر کوسپورٹ کررہی ہیں۔ہمیں ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ خود کرنا ہے،

یہ بات حقیقت ہے صنعتی اداروں میں کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیاجاتا ہے ، ملازمین کیلئے باقاعدہ ٹرانسپورٹ نظام اور دیگر سہولتیں نہیں ملتی جو ملنی چاہییں۔ انڈسٹری میں خواتین ملازمین کیلئے باقاعدہ نظام ہونے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔کاٹی کے دفتر کے سامنے خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک سیل قائم کیا گیا ہے جس میں خواتین کے ساتھ ہراسانی اور دیگر مسائل حل کرنے پر غور کیاجارہا ہے۔سیل کی خاتون ڈی ایس پی سے ملاقات ہوئی ان کو مدد کی یقین دہانی کرائی ۔ان سے کہا ہے سیل کے بینرز انڈسٹری میں مختلف مقامات اور انڈسٹریز میں بھی لگائے جائیں کوئی اعتراز کرے تو ان سے کہنا کاٹی کے صدر نے لگوائے ہیں ۔

 

دنیا فورم میں طلبہ وطالبات اور فیکلٹی ارکان کے سوالات

دنیا فورم میں علماء یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر او ر طلبہ و طالبات نے سوالا ت کیئے اورتجاویز دیں ۔میڈیا سائنس کی طالبہ شازیہ انصار ی نے کہا کہ خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو وہ اپنے حق کیلئے عدالت جانا چا ہئیں تو رشتے دار کہتے ہیں لوگ کیا کہیں گے بدنامی ہوگی۔باتیں باہر نہ نکالنااس کیس کواپنے تک محدود رکھیں۔اس حوالے سے میڈیا بھی آگہی نہیں دیتا۔جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں لڑکیوں سے یہی کہا جاتاہے کچھ بھی ہوجائے صبر کرو بات باہر نہیں جانی چاہیے۔عام طورپر لوگ بدنامی کے ڈر سے عدالت نہیں جاناچاہتے۔نوجوان نسل اپنے مسائل والدین سے بھی شیئر نہیں کر تی وہ کیسے عدالت جائیں گے کیونکہ انہیں انصاف کا یقین نہیں ہوتا اس طرح کے منفی تاثر کو کون دورکرے گا۔فورم سے اندازہ ہوا اپنے مسائل کے حل کیلئے عدالت جانا چاہیے جدوجہد کریں تو انصاف ضرور ملتا ہے۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین نے کہا کہ معاشرے میں تربیت کیلئے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتاہے،بدقسمتی سے میڈیا جو ڈرامے دکھارہاہے وہ ہماری روایات کے عکاس نہیں۔جو دکھایاجارہا ہے اس سے نوجوان خاص طورپر لڑکیاں بھی اپنا طرز زندگی تبدیل کرتی نظر آرہی ہیں،ہمیں ان چیزوں کوسمجھنے اوربہتر کرنے کی ضرورت ہے۔معاشر ے کے بگاڑ کو سب نے مل کر سدھارنا ہے۔سوفٹ ویئر انجینئرنگ کے طالب علم نوید احمد نے کہا کہ اے ڈی آر او ر ثالثی کیا ہیں ان کی قانونی حیثیت کیاہے؟

بحیثیت مسلمان ہم لوگ اپنے معاملات میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ،بد قسمتی سے اکثر ہمارے عدالتی نظام میں طاقت ور اور پیسے والا گواہ اور شہادت دونوں اپنے کیس کیلئے تیار کرلیتا ہے جس سے غریب کو انصاف نہیں ملتا۔غریب کو مفت میں انصاف کہاں سے ملے گا؟ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ انور کاشف نے کہاکہ قانون کے تحت Mediation اوراے ڈی آر کا بنیاد ی مقصد بھی ثالثی ہی کرنا ہوتاہے۔آج معاشرے میں حقوق العباد کی حق تلفیاں عام ہوتی جارہی ہیں جس سے معاملات خراب ہوتے جارہے ہیں،ہمیں خود ان چیزوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں لیگل ایڈ سوسائٹیوں سمیت مختلف ادارے غریبوں کوقانونی مدد اور سہولتیں فراہم کررہے ہیں،غریب بھی ملک کا شہری اور اس کے بھی حقوق ہیں جو اسے ملنے چا ہئیں۔فیکلٹی ممبر مدثر سعید صدیقی نے کہا کہ ملک کا المیہ ہے عوام کو عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ کئی مرتبہ کیس کا عرصہ اتنا زیادہ ہوجاتا ہے جس سے کیس کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے،بعض مرتبہ کرپشن کی وجہ سے بھی انصاف نہیں ملتا۔انصاف کی فراہمی آسانی سے رسائی کیلئے ججز صاحبا ن کو اہم کردار ادا کرناہوگا،یہ ممکن نہیں تو سارے فورم بے کار ہیں۔عدالتی نظام کیسے بہتر ہوگا یہ کام کون کرے گا؟۔علماء یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر منصور نے کہا کہ، عدالتی نظام میں خرابی نہیں ،رکاوٹ ہم خود ہیں جو ایک دوسرے کے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

ایسے بھی خاندانی ایشوز ہوتے ہیں جو جلد حل ہونے والے ہوتے ہیں اسے وکلاء اور سائلیں رکاوٹیں ڈال کر پیچیدہ بنا دیتے ہیں ۔ایک کیس 2 سال پہلے داخل ہوچکا آج تک اس پر بحث ہی شروع نہیں ہوئی ،ان چیزوں کو بہتر کرنے کیلئے خو د کو بہتر کرنا ہوگا جب ہی مسائل حل ہوں گے اور انصاف ہوتا نظر آئیگا۔امجد ایڈووکیٹ کی لیگل سپورٹ اور واقعات پر مشتمل کہانیاں شائع ہوا کرتی تھی ۔ان کے متعلق کہا جاتاہے جب تک وہ کیس کی پوری طورپر تحقیق کرکے مطمئن نہیں ہوجاتے کیس نہیں لیتے تھے۔ اس کے بعد کیس لڑتے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیس جیتا کرتے تھے،ان کی کہانیاں اور کیسز ہمارے وکلاء کیلئے بہترین رہنمائی ہے ۔کیا ہمارے وکلاء آج وہ سب کچھ کرتے ہیں جو امجد ایڈووکیٹ کرتے تھے۔ انسان ہی انسان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ملک میں خواہ کتنے ہی اے ڈی آر یا نظام آجائیں اس وقت تک بہتری نہیں ہوگی جب تک ہم خود بہتر نہیں ہوں گے۔ ایڈووکیٹ انور کاشف نے کہا کہ معاشرے میں سماجی رویئے بہت خراب ہوگئے ہیں،کرپشن بڑھتی جا رہی ہے پہلے لوگ سماجی طوررپر کرپٹ لوگوں اور دیگر چیزوں کا بائیکاٹ کرتے تھے جس سے چیزیں بہتر ہوجاتی تھیں، اب یہ چیزیں چھوڑ دی ہیں جس سے خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔