نواز شریف کی لندن روانگی، وزیراعظم قوم کو اعتماد میں لیں
رحم کی بنیاد پر کیا گیافیصلہ کبھی مشروط نہیں ہوتا،ورنہ وہ رحم نہیں کہلاتا کیا عوامی اجتماع میں خاص کیس میں عدالتی کردار کو زیر بحث لاناچاہیے تھا
تجزیہ: سلمان غنی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قانون کو طاقتور قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ عدالتیں قانون کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں لہٰذا ججوں پر اعتراض کرنے والے احتیاط کریں اور طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، یہ عدالت عظمیٰ ہی تھی جس نے ایک وزیراعظم کو ان کے عہدے سے ہٹایا ایک وزیراعظم کو سزا سنائی جبکہ ایک آرمی چیف کے خلاف کیس کا فیصلہ آنے والا ہے ،چیف جسٹس کو طاقتور اور کمزور کے حوالے سے عدلیہ کی جانب سے وضاحت کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟ انصاف کی فراہمی کے عمل کے حوالے سے عدالتوں کا کردار کتنا مؤثر اور نتیجہ خیز ہے اور یہ کہ عوامی اجتماع میں عدالتی کردار کو زیر بحث لاناچاہیے تھا،کیا واقعتا ملک میں طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قانون ہے ؟ جہاں تک چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے مذکورہ ریمارکس کا تعلق ہے تو وہ اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتے تھے کہ جس میں وزیراعظم نے انہیں اور آنے والے چیف جسٹس گلزار کا نام لیتے ہوئے اس تاثر کو ختم کرنے کی بات کی تھی کہ طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قانون ہے ۔وزیر اعظم نے کہا تھا کہ نوازشریف کا فیصلہ میں نے رحم کی بنیاد پر کیا اور رحم کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی مشروط نہیں ہوتا بعد ازاں انہوں نے اسے مشروط بنا کر اپنے رحم کو بھی وہم میں تبدیل کر کے کئی سارے سوالات کھڑے کر دیئے ، جہاں تک کورٹ کا سوال ہے تو لاہور ہائیکورٹ میں تو طریقہ کار پر بات ہو رہی تھی وزیراعظم نے اس معاملے کے اصول خود طے کئے تھے ۔ ملک کی بڑی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ یہاں طاقتور اپنی طاقت کی بنیاد پر اپنے مفادات کو یقینی بناتا رہا جبکہ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں اور آج ہمارا معاشرہ بھی اس امر کا ثبوت فراہم کرتا نظر آتا ہے کہ طاقتور کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں اور یہ تاثر صرف پاکستان میں ہی نمایاں نہیں ہے بلکہ دیگر ممالک میں بھی یہ رجحانات ملتے ہیں ۔کسی بھی معاشرے میں عدلیہ آخری امید کے طور پر ہوتی ہے جہاں سے کمزور کو انصاف مل سکتا ہے اور انصاف کی فراہمی کا عمل بروقت ہو تو ہی یہ کارآمد اور نتیجہ خیز قرار پاتا ہے ۔ ہماری عدالتی تاریخ اتنی روشن نہیں ،نظریہ ضرورت نے بھی ہماری عدالتی تاریخ میں ہی جنم لیا ،البتہ یہاں یہ سوال ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان نے اس فیصلے کا وزن عدلیہ پر ڈالنے کی کوشش کی تو عمران خان سے بھی اس حوالے سے جواب طلبی ہو سکتی تھی۔ اب ایک آرمی چیف کے حوالے سے آنے والا فیصلہ بھی عدلیہ کی تاریخ کے حوالے سے اہم ہوگا جہاں تک اس فیصلہ کے اثرات کا تعلق ہے تو اصل بات یہ ہے کہ ایک جانب تو وزیراعظم عمران خان یہ کہتے نظر آئے ہیں کہ فیصلہ انہوں نے انسانیت کی بنیاد پر رحم کھاتے ہوئے کیا اور دوسری جانب وہ اس فیصلہ سے فاصلہ ظاہر کرتے نظر آتے ہیں تا کہ ان کا ووٹ بینک متاثر نہ ہو اور خود ان کی جماعت میں رد عمل پیدا نہ ہو۔