قرارداد تاسیس یوم سیاہ کی بنیاد

تحریر : جسٹس (ر) منظور گیلانی


سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد کشمیر کی روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے لئے خصوصی تحریر

1947ء کی جس قرار دادکو آزاد کشمیر کے یوم تاسیس کے طور منایا جاتا ہے اس کے اغراض و مقاصد کی مختصر تلخیص اور ’’اساس‘‘ یہ الفاظ ہیں۔ ’’عبوری حکومت ریاست کی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے ہندو، مسلم اور سکھوں کی اجتماعی آواز کے ترجمان ہے، جس کا مقصد امن و امان قائم کر کے لوگوں آزادانہ ووٹ سے قبول عام حکومت قائم کرے۔ عبوری حکومت ہمسایہ ممالک ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کے جذبات اور ان سے کشمیری عوام کی فطری آرزوئے آزادی کے ہمدردی کی خواہش مند ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ غیر جانبدار مبصرین کی موجودگی میں آزادانہ رائے شماری کے ذریعہ ہوگا‘‘۔

ریاست جموں و کشمیر کی ایک باغی حکومت کی بنیاد چار اکتوبر 1947ء کوانور نامی ایک شخص نے ڈالی تھی۔ پاکستان کے معتبر   اخبارات نے اسے شائع بھی کیا۔

22 اکتوبر 1947ء کو صوبہ سرحد کے قبائل لشکر کی مدد سے مقامی لوگوں نے  مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج کو دست بدست جنگ کے ذریعہ ان علاقوں سے پسپا کیا۔ جن پر 24اکتوبر 1947ء کو با ضابطہ طور پر آزاد حکو مت ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کے پہلے صدر، ریاستی اسمبلی کے ممبر سردار محمد ابراہیم منتخب کئے گئے۔ ان کے  انتخاب کی توثیق آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے ان علاقوں میں رہنے والے ارکان نے کی۔

آزاد کشمیر اور پوری دنیا میں بسنے والے ریاستی باشندے اس دن کو ’’آزاد کشمیر کے یوم تاسیس کے طور‘‘ پر مناتے ہیں۔ میرے نزدیک اس ’’یوم تاسیس کی تاسیس‘‘ فی الواقع اس قرار داد کے الفاظ ہیں۔ 

 ہندوستان کے 27 اکتوبر کو سرینگر میں فوجیں اتارنے کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔ ہندوستانی فوج کے آزاد علاقوں کی طرف پیش قدمی کے تدارک کے طور پر پاکستانی فوج نے آزاد فوج کے دستوں کی کمان سنبھال لی اور جنگ بندی کے بعد اس کی تنظیم بندی اور بالآخر اس کا پاکستانی فوج کے اندر انضمام ہوگیا۔ اس طرح آزاد کشمیر کے یوم تاسیس کی’’ تاسیسی دستاویز‘‘ جس کے تحت آزاد کشمیر کی حکومت ریاست بھر کے عوام کے ترجمان کے طور، آزاد، خود مختار اور سیکولر ریاست کے طور عمل میں لائی گئی تھی، کسی رسمی اعلان کے بغیر ہی تحلیل ہوگئی اور آزاد کشمیر کا نمائندہ کردار بھی اختتام پذیر ی کے مراحل میں داخل ہوگیا۔ 

اس کی تحلیل کے ساتھ ہی ہندوستان نے  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو رجوع کرلیا جس نے رائے شماری کے ذریعہ مسئلہ کے حل کی قرار داد پاس کی۔یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی کا معاہدہ عمل میں آیا جس کے تحت دو ملکوں کے کنٹرول والے علاقے کی حد بندی کو’’جنگ بندی لائن‘‘ قرار دیا گیا۔ 1972ء کے شملہ معاہدہ کے تحت ’’جنگ بندی لائن‘‘ کو ’’لائن آف کنٹرول‘‘ میں بدل دیا گیا۔ ہندوستان نے اگست 2019ء کو ہندوستانی آئین کے تحت ریاست کو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی اس کو ختم کرکے ریاست کو تحلیل اور ہندوستانی اقتدار اعلیٰ کے تحت مرکزی کنٹرول میں لے لیا۔

ادھر جنگ بندی معاہدے کے فوراً بعد آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان 28 اپریل 1949ء کو کراچی معاہدہ طے پایا جس کی خصوصی بات گلگت بلتستان، جو پہلے   پاکستان کے کنٹرول میں تھا، مکمل طور پاکستان کے نظم و نسق میں آگیا۔ 

کراچی معاہدہ کے تحت ہی حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان آزاد کشمیر کے نظم و نسق کے بارے میں    اختیارات کے حدود کی تقسیم بھی عمل میں آئی۔ کراچی معاہدہ1950ء کے رولز آف بزنس کے نافذ ہونے کے بعد ختم ہوگیا۔ 1958ء میں رولز آف بزنس میں ترمیم ہوئی اس کے ساتھ ہی 1960ء،1964ء، 1968ء ، 1970ء ،1974ء کی آئینی دستاویزات کے ذریعے بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ اختیارات کی تقسیم عمل میں آتی رہی۔ اس وقت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے تحت عمرانی معاہدہ جملہ ترامیم کے ساتھ صرف عبوری آئینی1974ء ہے۔

آزاد کشمیر کے آئین میں تیرہویں ترمیم کے ذریعہ کشمیر کونسل کے مالی اور انتظامی اختیارات تو ختم کئے گئے لیکن کشمیر کونسل اپنی جگہ موجود ہے جس پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات حکومت آزاد کشمیر برداشت کرتی ہے۔ گوکہ ’’ٹیکس‘‘ اور ان سے جڑے معاملات  حکومت آزاد کشمیر کی حدود میں آگئے ہیں، لیکن کشمیر کونسل کے قانون سازی اور ان کے تحت تمام انتظامی اختیار وزیر اعظم پاکستان کو منتقل کئے گئے ہیں۔ یہ سب مرکزی نوعیت کے معاملات ہیں جو پاکستان کے متعلقہ اداروں کے پاس ہی رہنے چاہئیں، وزیر اعظم پاکستان کے پاس نہیں۔ تاہم ان کے تحت پالیسی سازی، فیصلہ سازی، قانون سازی اور نفاذ میں آزاد کشمیر کے لوگوں کو نمائندگی کا حق ملنا چاہئے۔ 

کشمیر کا متنازعہ ہونے کا مطلب جمہوری حقوق کا بھی متنازعہ ہونا نہیں، 24 اکتوبر 1947ء کی آزاد کشمیر اور اس کی حکومت کی تاسیسی قرار داد کی تحلیل بہتری پہ منتج ہونی چاہئے، جمہوری حقوق کے انحراف پہ نہیں۔ نئی نسل کو ریاست کی تاسیسی مقام سے موجودہ سیاسی سطح پر پہنچانے کی وجوہات سمجھانے کی ضرورت ہے جو اس سلسلے میں ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ سطحی اور جذباتی نعرہ بازی سیاسی، سفارتی اور آئینی دلائل کا جواب نہیں ہو سکتے۔ اس میں پاکستان اور آزاد کشمیر کا مفاد، آزاد کشمیر کے بہتر نظم و نسق، ملازمین کی استعداد کار اور مجموعی طور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے  ایک بہتر قدم ہے۔ اکیسویں صدی میں اس کا ادراک کرنا ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔