ناپ تول پورا کیا کرو!

تحریر : علامہ عماد الدین عندلیب


لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر مت دیا کرو : (سورہ ہود : 85)ناپ تول میں کمی بیشی کرنے سے قحط اس طرح پڑ جاتا ہے جس طرح زنا کی کچتر سے طاعون مسلط ہو جاتا ہے ۔ (ابن ماجہ : 4009)

تجارت اور سوداگری کے باہمی لین دین کے معاملات میں کمی بیشی کرنے یعنی لیتے ہوئے تول کو بڑھا دینے اور دیتے ہوئے تول کو گھٹا دینے کو اصطلاح میں ’’ناپ تول میں کمی بیشی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی کو اسلام سمیت دُنیا بھر کے تمام مذاہب میں انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام نے اپنی کامل اور گراں قدر تعلیمات کی رُوشنی میں اپنے ماننے والوں کو  تمام شعبہ ہائے زندگی میں احکاماتِ الٰہی کا پابند بنایا ہے۔ تجارت و سوداگری بھی ہماری زندگی کا ایک اہم ترین شعبہ ہے جس سے ہر وقت ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

گزشتہ اقوام میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ’’اہل مدین‘‘ تجارت وسودا گری میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ’’مدین ‘‘ ایک قبیلے کا نام تھا، اور اس کے نام پر ایک بستی بھی تھی، جو اُردن میں واقع تھی، اور انتہائی سرسبز و شاداب تھی، جس کی بدولت اہل مدین خاصے خوش حال اور پُر امن طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ رفتہ رفتہ جب اُن میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں کفر و شرک، رہزنی و چوری اور لوگوں سے ظالمانہ طور پر ٹیکس لینے کے علاوہ بالخصوص ناپ تول میں کمی بیشی جیسی بدعنوانی کی بہتات ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی زبانی اُنہیں ناپ تول میں کمی بیشی سے منع فرمایا۔

قرآن پاک میں ہے ’’اور مدین کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا، اُنہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو! اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک رُوشن دلیل آچکی ہے، لہٰذا ناپ تول پورا کیا کرو! (سورہ اعراف:41)۔جب وہ لوگ ناپ تول میں کمی بیشی جیسی بدعنوانی سے باز نہیں آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ظالم فرمایا۔ ’’اور ایکہ کے باشندے (بھی) بڑے ظالم تھے‘‘ (سورۃ الحجر:78)۔ 

اہل مدین کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے زاویے سے یوں سمجھایا ہے۔ ’’ایکہ کے باشندوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ شعیب نے اُن سے کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ یقین جانو کہ میں تمہارے لئے ایک امانت دار پیغمبر ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو، پورا پورا ناپ دیا کرو! اور اُن لوگوں میں سے نہ بنو جو دوسروں کو گھاٹے میں ڈالتے ہیں۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو! اور لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو‘‘(سورہ شعراء:176 تا 183)

جب کسی طرح بھی اُن لوگوں نے اللہ اور اُس کے برگزیدہ پیغمبر کے حکموں کو نہیں مانا اور اپنی بدعنوانیوں سے باز نہیں آئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن پر زلزلے کا عذاب بھیجا جس میں وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ قرآن پاک میں آتا ہے ’’اور مدین کی طرف ہم نے اُن کے بھائی حضرت شعیبؑ کو بھیجا۔ چنانچہ اُنہوں نے کہا میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور آخرت والے دن کی اُمید رکھو! اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔ پھر ہوا یہ کہ اُن لوگوں نے حضرت شعیبؑ کو جھٹلایا۔ زلزلے نے اُن کو آپکڑا اور وہ اپنے گھر میں اوندھے پڑے رہ گئے‘‘ (سورہ عنکبوت:36 ،37)

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اخلاقی نصیحتیں فرمائی ہیں،’’اور جب کسی کو کوئی چیزپیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو اور تولنے کے لئے صحیح ترازو استعمال کرو! یہی طریقہ درُست ہے اور اسی کا انجام بہتر ہے‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل: 35)۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو فرمایا کہ تم ایسا کام کر رہے ہو جس سے پہلی اُمتیں ہلاک ہو چکی ہیں(جامع ترمذی:1233)۔

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی بیشی کرنے سے قحط اِس طرح پڑ جاتا ہے، جس طرح زنا کی کثرت سے طاعون مسلط ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ: 4009)

قرآنِ کریم اور احادیث  کی رُوشنی میں اگر ہم آج کل کے اپنے معاشی و اقتصادی حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ آج ہماری زندگیوں سے جو راحت و سکون اُٹھ گیا ہے، ہماری آمدنیوں سے جو خیر و برکت نکل گئی ہے، اور ہمارے معاشی و اقتصادی حالات جو زوال پذیر ہوگئے ہیں، من جملہ دیگر وجوہات کے اُن کی ایک اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ سوداگری و بیوپاری میں ناپ تول میں کمی بیشی سے کام لیتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ لوگوں کے ناپ تول میں کمی کرنے والے لوگوں کے حالات و واقعات سنا کر ہمیں اُن سے عبرت حاصل کرکے صحیح  ایمان داری کے ساتھ تجارت کرنے کی تعلیم دی ہے۔

 (علامہ عماد الدین عندلیب معروف عالم دین اورتقریباً 20 کتابوں کے مصنف ہیں اور ’’الندوہ‘‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد سے بطورِ اسلامک ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں) 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟