حکمرانوں کے حقوق و فرائض سیرت نبویﷺ کی روشنی میں

تحریر : ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان


تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہوگا (صحیح بخاری : 2554)

برصغیر کے مشہور عالم، فقہیہ، محدث اور مؤرخ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے سیرت کا مفہوم حسب ذیل لکھا ہے۔وہ احادیث جو آقا کریمؐ کے وجود سے متعلق، ولادت با سعادت سے وصال شریف تک، صحابہ کرام اور اہل بیت اظہار سے متعلق ہوں، ان سب کو اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کہتے ہیں (عجالہ نافعہ، ص 97)۔اسی طرح آقا کریمﷺ کے اقوال، افعال، احوال اور خصائص وشمائل بھی سیرت کا حصہ ہیں۔

علامہ ابن قیم جوزیہؒ لکھتے ہیں کہ علم سیرت حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، کیونکہ سعادت دارین رسول اللہﷺکی لائی ہوئی ہدایت و رہنمائی پر مبنی ہے، اس لیے جو شخص نجات چاہتا ہے وہ آپؐ کی لائی ہوئی ہدایت، آپؐ کی سیرت اور معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کا پابند ہے (زاد المعاد، ج1، ص63)۔

بنیادی حقوق انسانی سے مراد وہی حقوق ہیں، جنہیں اسلامی علوم وفنون کی اصطلاح میں حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور آقا کریمﷺنے اپنے اقوال و سیرت سے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ حقوق العباد کی ادائیگی سے معاشرے سنورتے ہیں اور اس میں افراط و تفریط سے انسانی معاشروں میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ 

حقوق انسانی کی بہت ساری جہتیں ہیں، جن میں اساتذہ اور طلباء کے حقوق، والدین کے حقوق ، اولاد کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق، زوجین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں کے حقوق، فقراء و مساکین کے حقوق، افسران اور ماتحتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، حکمرانوں اور رعایا وغیرہ کے حقوق شامل ہیں۔ چونکہ بنیادی انسانی حقوق کا تعلق فردومعاشرہ سے ہے اور معاشرے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں،ایک حکمران دوسرے رعایا۔ان دونوں کے حقوق وفرائض کے تعین اور ادائیگی سے ہی معاشروں کا عروج وزوال جڑا ہوتا ہے۔ سیرت النبیﷺ میں ان دونوں کے حقوق وفرائض کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جنہیں ہم دو حصوں میں بیان کریں گے۔ اس مضمون میں ہم ’’حکمران کے حقوق وفرائض، سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں ‘‘ بیان کریں گے۔

علامہ شبلی نعمانی نے سیرت النبی ﷺ کے مقدمہ میں سیرت نگاری کے جو اصول ذکر کیے ہیں، ان میں پہلا اصول حسب ذیل ہے۔ سب سے پہلے واقعہ کی تلاش قرآن مجید میں، پھر احادیث صحیحہ میں، پھر عام احادیث میں کرنی چاہیے ، اگر نہ ملے تو روایات سیرت کی طرف توجہ کی جائے۔پھر تیسرا اصول بیان کیا کہ ’’سیرت کی روایتیں بااعتبار پایۂ صحت، احادیث کی روایات سے فروتر ہیں، اس لیے بصورت اختلاف احادیث کی روایات کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔(مقدمہ سیرت النبی، ص64) ۔ 

کسی ملک میں کا نظام چلانے اور اس میں امن وسکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دوباتیں ضروری ہیں۔(1) حکمران کا عادل ومنصف اور عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہونا۔(2) عوام کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنا ۔ حکمرانوں کے بارے میں فرمان رسولؐ ہے کہ ’’ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے (عرش) کا سایہ دیں گے، جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا،ان میں سے ایک عادل حکمران ہے‘‘۔ (صحیح بخاری:1423)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا‘‘(صحیح بخاری:2554، 5188، 7528)

رعیت کے حقوق میں خیانت کرنے سے مراد ہے کہ حاکم کے لیے اپنی رعیت کے دین اور دنیا دونوں کی اصلاح ضروری ہے، پھر اگر اس نے لوگوں کا دین خراب کیا اور حدود شرعیہ کو ترک کیا، یا ان کی جان و مال پر ناحق زیادتی کی، یا اور قسم کی ناانصافی کی، یا ان کی حق تلفی کی، تو اس نے اپنے فرض منصبی میں خیانت کی، اب وہ جہنمی ہوا۔ اگر اس کام کو حلال جانتا تھا تو ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم ہوا۔( حقو ق انسانیت اسلام کی نظر میں، ص 234)

سید نا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ہرحاکم کے دو راز ہوتے، ایک ہم راز اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کی ہلاکت و تباہی کیلئے کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کرتا۔ جو حاکم اس کے شر سے بچ گیا وہ تو محفوظ ہوگیا۔ (سنن النسائی:2270)

حضرت علقمہ بن وائل بن حجرؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہمارا حق نہ دیں، لیکن اپنا حق مانگیں (تو ہمارے لیے کیا حکم ہے )؟رسول اللہؐ نے فرمایا : ’’تم ان کی بات سننا اور ماننا، ان کے ذمے وہ بوجھ ہے جو انہیں اٹھوایا گیا (یعنی عدل وانصاف)‘‘(ترمذی :2220)

سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے، ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے، اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اطاعت ضروری نہیں ہے۔(صحیح بخاری : 7144)

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے اپنی امت کے سلسلے میں سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے اماموں اور حکمرانوں سے ہے۔‘‘یہ حدیث سیدنا عمر بن خطابؓ ، سید نا ابودرداؓ ، سیدنا ابوذر غفاریؓ ، مولائے رسول سیدنا ثوبانؓ، سید نا شداد بن اوسؓ اور سیدنا علی بن ابوطالبؓ سے مروی ہے۔ (بیت الافکارالدولیۃ،ج1، ص42)

 سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اس کا ایک اقتباس یہ ہے’’ آگاہ رہو !قریب ہے کہ مجھے بلا لیا جائے اور میں اس بلاوے کا جواب دے دوں۔ میرے بعد مختلف حکمران تمہاری ذمہ داری اٹھائیں گے، وہ جو کچھ کہیں گے اس پر عمل بھی کریں گے ، ان کی اطاعت حقیقت میں اطاعت ہے ۔ تم لوگ کچھ زمانہ اسی طرح رہو گے۔ پھر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں گے، جو اپنے کہے پر عمل نہیں کریں گے اور اگر عمل کریں گے تو اسے پہچانتے نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں نے ان کی ہمدردی کی، ان کے مشیر مصاحب بنے اور ان کی پشت پناہی کی تو وہ خود بھی ہلاک ہوں گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کریں گے۔(المعجم الاوسط،رقم الحدیث :6984)

حکمرانوں کے لیے اصول وضوابط

مذکورہ بالا قرآنی آیات ، احادیث طیبات اور تصریحات آئمہ سے حکمرانوںکے لئے حسب ذیل اصول و ضوابط مترشح ہوئے ہیں  ٭حکام  کوکردار وعمل اورعلم میں تفوق حاصل ہوناچاہیے،حکام کاجسمانی اورذہنی طورپربھی درست ہونا ضروری ہے۔٭تمام حکومتی عہدیداروں کا امانت دارہوناضروری ہے۔٭حکمرانوں کو اپنے ماتحتوں کی ظاہری ،معاشی اورعائلی حالت کے علاوہ نفسیاتی اورذہنی صورت حال کاخیال رکھناچاہیے ۔٭حاکم ،قاضی، جج کوفیصلہ کرتے وقت ظاہری شہادتوں کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ویڈیو ،آڈیو ،میڈیا، میڈیکل رپورٹ، ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر ذرائع سے بھی استفادہ کرناچاہیے۔  ٭حاکم، عدالت ،قاضی یاجج کوبراہ راست فریقین کے دلائل سن کرفیصلہ کرناچاہیے،فیصلہ نافذ بھی ہوناچاہیے اور اپیل دراپیل کاحق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ ٭تقرریاں اورفیصلے میرٹ پر ہونے چاہئیں۔٭حکومت جمہوری اورشورائی اندازمیں ہونی چاہیے۔ ٭حکام کو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کافریضہ ہرحال میں سرانجام دیناچاہیے۔٭اہل حکومت کو علمی لوگوں کوخصوصی عزت واکرام سے نوازنا چاہیے۔٭مذہب ،مسلک ، پارٹی یاکسی اور اختلاف کی وجہ سے ظلم وستم نہیں کرنا چاہیے۔ ٭:حکومتی معاملات مذاکرات اورحسن تدبیر سے چلانے چاہئیں۔

(مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب

 کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی

 سے منظور شدہ25 آرٹیکلز بھی 

شائع ہو چکے ہیں)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟