اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو‘‘ (صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 955)

محبوبِ کبریا احمد مصطفیﷺ نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد خود بھی ادا فرمائے اور ایمان والوں کو بھی ان کے ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپﷺ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو اس وقت اُم المُومنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آپﷺ کی صفات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرمایا! ’’بے شک آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں (کمزوروں، یتیموں اور غریبوں)کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کیلئے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں مددکرتے ہیں‘‘ (صحیح البخاری، باب بدِ الوحی)

آج ہمیں کثیر تعداد میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو ظاہری عبادت پہ اکتفا کرتے ہیں۔ وہ نہ تو عباد ت کے باطنی پہلو کا خیال رکھتے ہیں اورنہ حقوق العباد کو خاطر میں لاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات سے تسلی و دلاسہ دیتے ہیں کہ چونکہ ہم ظاہری ارکانِ اسلام (نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج) کو ادا کر رہے ہیں اور یہی ہماری نجات کیلئے کافی ہے۔

بلاشبہ ظاہری ارکانِ اسلام پہ عمل پیرا ہونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رہے کہ ہر ظاہری عبادت کا ایک باطنی پہلو بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ناصرف اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی عبادت (حقوق اللہ) پہ اخلاص سے عمل پیرا ہونا سکھایا بلکہ حقوق العباد کی مکمل آگاہی و اہمیت سے بھی روشناس فرمایا۔ حقوق العباد میں سے تین حقوق ایسے ہیں جن کا اس وقت بہت زیادہ فقدان پایا جاتا ہے (1) غرباء کی امداد،(2) بھوکوں کو کھانا کھلانا، (3) ہمسایوں کا خیال رکھنا۔

غرباء کی امداد

محتاجوں، غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے، ان کیلئے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنا دین اسلام میں کار ثواب اور اپنے رب کو راضی کرنے کا نسخہ ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: ’’بیوہ اور مسکین (کی مصلحتوں )کیلئے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثل ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو رات کوقیام کرتا ہو اور دن کو روزہ رکھتا ہو‘‘(صحیح البخاری ،کتاب النفقات)

حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: ’’میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، نبی کریمﷺ نے یہ ارشاد فرماتے ہوئے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملا کر ارشاد فرمایا یعنی بالکل قریب ہوں گے‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الادب)۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا، جو شخص کسی تنگ دست کیلئے آسانی پیدا کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کیلئے آسانی پیدا فرمائے گا، جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘(صحیح مسلم، کتاب الذروالدعاء والتوبۃ والاستغفار)۔

حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے سلسلے میں چلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار فرشتوں کا سایہ کر دیتا ہے وہ فرشتے اس کیلئے اگر دن ہو تو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں، اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کیلئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے‘‘(شعب الایمان،باب التعاون علی البر والتقویٰ)۔

نبی کریمﷺ نے ایسے تمام لوگوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی تھی جو قرض کی حالت میں انتقال کر جاتے اور اپنے پیچھے اپنی بیوہ اور یتیم بچے چھوڑ جاتے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں مومنوں کی جانوں سے زیادہ ان پہ متصرف ہوں، پس مومنین میں سے جو فوت ہو گیا اور اس نے قرض کا بوجھ چھوڑا تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے‘‘(صحیح البخاری کتاب النفقات)۔ کتنے  خوش نصیب ہیں وہ جن کی قسمت میں اس سنت مبارکہ کی ادائیگی ہے کہ وہ کسی غریب کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی قرض کی ادائیگی کا بندوبست کرتے ہوں گے۔ یہ حدیث مبارکہ تمام مسلمانوں کو دعوت فکر بھی دے رہی ہے۔

ہمسایوں کا خیال

حقوق العباد میں ہمسایوں کے حقوق کا قرآن و حدیث میں بارہا ذکر آیا ہے، خود مالک کائنات نے ہمسایوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اور اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور حسن سلوک سے پیش آ ئو، والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی ، نیز آس پاس کے بیٹھنے والے مسافروں کے ساتھ اور جو (لونڈی یا غلام یا ملازم)تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ (کیوں کہ) اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں۔ (سورۃ النساء:36)

احادیث مبارکہ میں بھی ہمسایوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ: ’’ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی، یارسول اللہﷺ! فلاں عورت کی نماز،روزے اورصدقہ کی کثرت کا خوب چرچا ہے مگر وہ اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا وہ دوزخی ہے۔ اس شخص نے دوبارہ عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! فلاں عورت کی نماز، روزے اورصدقہ میں کمی ہے،(یعنی ان اعمال میں اس کی شہرت نہیں ہے) اور وہ پنیر کے چھوٹے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنے پڑوسی کو زبان سے تکلیف نہیں دیتی، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جنتی ہے (مسند امام احمد بن حنبل)۔

حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کیلئے برابر مجھے وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے (صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 953)

ابوشریح ؓکہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، پوچھا گیا کون یا رسول اللہﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو‘‘ (صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 955)

حضرت ابوذرؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابوذرؓ! جب تم شوربا پکائو تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو‘‘ (صحیح البخاری، باب الوصایا بالجار)۔

 ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہے کہ پڑوسی صرف گھر کے ساتھ والا ہوتا ہے۔ امام طبرانی ؒ کی روایت ہم سے ہماری اس سوچ پہ نظر ِ ثانی کاتقاضاکرتی ہے۔ حضرت کعب بن مالکؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اورحضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہم کو مسجد کے دروازے پہ بھیجا اور وہ اس کے دروازے پہ کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرماتے: خبردار! پڑوسی (دائیں، بائیں، آگے، پیچھے)چالیس گھر تک ہے اور وہ جنت میں نہیں جائے گا، جس شخص کی ایذا رسانی(تکلیف پہنچانے) سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے (المعجم الکبیرللطبرانی)۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو(صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 959 )

یہ ایک آزمودہ طریقہ ہے کہ اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے پڑوسی کو مناسب مواقع پر تحفے تحائف بھیجے جائیں۔ تحفے بھیجنے میں پڑوسی، ساتھی یا دوست کی پسند اور ذوق کا خیال رکھا جائے۔کچھ ممکن نہ ہوتو گھر میں پکا ہوا کھانا ہی پڑوس میں بھجوادیا جائے۔ 

یہ بات ذہن نشین رہے کہ پڑوسی کا اطلاق صرف گھر کے ساتھ والے پر نہیں ہوتا بلکہ مفسرین کرام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نشین یا پہلو کا ساتھی بھی پڑوسی ہے۔ یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔اس اصطلاح سے مراد ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ، دفتر، فیکٹری یا کسی اور ادارے میں ساتھ کام کرنے والے افراد، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ساتھی، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے احباب شامل ہیں۔

بھوکوں کو کھانا کھلانا

بھوکوں کو کھانا کھلانے کے دنیا میں بے شمار فائدے ہیں بھوکوں کو کھانا کھلانے سے معاشرے کے مالدار اور غریبوں کے درمیان نفرت وکدورت کی دیوار کھڑی نہیں ہوتی۔ چوری ڈکیتی کی وارداتیں، قتل کے واقعات نہیں ہوتے، رشتے ناطے خراب اور ٹوٹتے نہیں ہیں۔ بھوکوں کو کھاناکھلانے سے معاشرے میں محبت و ا لفت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ تعاون و ہمدردی کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔ بھوکوںکو کھانا کھلانا اسلام کے نزدیک بہت ہی بڑی نیکی ہے اس کے ذریعے بندہ رب سے قریب ہوتا ہے، جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ آخرت کی کامیابی ، بلند درجات، اللہ کی نصرت و مدد آتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا:یارسول اللہ!(ﷺ )مجھے سخت بھوک لگی ہے، آپﷺ نے اپنی ازواج کی طرف کسی کو بھیجا (تاکہ وہ کھانے کی کوئی چیز لائے)پس اس نے آپ ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے پاس کوئی چیز نہ پائی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کوئی شخص ہے جو اس رات اس کی مہمان نوازی کرے تو اللہ پا ک اس پر رحم فرمائے گا‘‘۔ انصار میں سے ایک شخص نے عرض کی: میں یارسول اللہﷺ!اس کی مہمان نوازی کروں گا(پھر اس نے اپنی بیوی کے پاس جا کر کہا: رسول اللہﷺکے مہمان کی خاطر مدارت کرو، کوئی چیز چھپا کر نہ رکھو۔ اس نے کہا: (واللہ) میرے پاس تو صرف اس بچی کا کھانا ہے۔ صحابی ؓنے فرمایا جب یہ رات کے کھانے کا ارادہ کرے تو اس بچی کو سلا دینا، اس چراغ کو بجھا دینا اور ہم یہ رات بھوکے گزاریں گے۔ اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا ۔پھر وہ شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :بے شک اللہ تعالیٰ خوش ہوا یا ارشادفرمایا اللہ تعالیٰ فلاں مرد اور فلاں عورت کی کارگزاری سے ہنسا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارک نازل فرمائی: ’’اور یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ یہ خود سخت ضرورت مند ہوں، اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لئے گئے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘(سورۃ الحشر)، (صحیح البخاری، کتاب التفسیر)

سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہِ اقدس میں عرض کی گئی یارسول اللہﷺ!اعمال میں سے سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟تو آپ ﷺ نے ا رشادفرمایا : ’’سب سے افضل عمل یہ ہے کہ تم اپنے مومن بھائی کو خوشی پہنچائو یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلائو‘‘(شعب الایمان،باب التعاون علی البر والتقوی)۔

حضرت علی المرتضی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا، ( یہ سن کر)ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے حبیب ﷺ !یہ کس کیلئے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’ جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں‘‘(سنن الترمذی،ا بواب البر والصلۃعن رسول اللہ )۔

اسی طرح حضرت ہانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی ،اے اللہ کے رسولﷺ!مجھے ایسا عمل بتائیں جو جنت واجب کر دے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تو اچھی بات کرنے اور کھانا کھلانے کو اپنے اوپر لازم کرلے (یعنی یہ کام کیاکر)‘‘(مصنف ابن شیبہ، کتاب الادب)۔

قارئین کرام !رسول اللہﷺ نے اپنی امت کے غرباء و فقراء اور دیگر ضرورت مندوں کے لئے زکوۃ و صدقات کی صورت میں ایسا مضبوط و مستحکم نظام قائم فرمایا کہ اگر ہر مسلمان اپنے حصہ کا فریضہ ادا کرے تو دنیائے اسلام کے طول و عرض میں کہیں بھی محتاج اور گدا گر نظر نہ آئیں ۔اپنے حصے کے فرائض ادا نہ کرنے کے سبب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تنگ دستی سے پریشان لوگ بد مذہبوں کی امداد کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں، جس کا بھرپور فا ئدہ اٹھایا جارہا ہے-کاش کہ مسلمان اپنے فرائض کی ادائیگی پہ سوچتے، اس کی طرف توجہ دیتے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم حقوق العباد میں سے ان امور کی طرف بھی توجہ دیں اور نبی کریم ﷺ کے نقش قدم کے اوپر چل کر جنت کی راہ اختیار کر لیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمارے باطن کو نورِ معرفت و حقیقت سے منور کرے اور جذبہ خدمت خلق کو جلا بخش کرہمارے مکارمِ اخلاق کی تکمیل فرمائے (آمین یارب العالمین)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭