تنظیمی دورے کارگر ہو پائیں گے؟

پشاور پولیس لائن مسجد میں دہشت گردی کے واقعہ اور 100سے زائد شہادتوں نے جہاں پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑا دی وہاں پنجاب بھر میں بھی اس حوالے سے افسوس اور رنج و غم کے اظہار کا سلسلہ جاری رہا۔پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی جانب سے جہاں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اعظم خان سے ٹیلی فون کے ذریعہ اہل پنجاب کی جانب سے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
وہاں پنجاب کی جانب سے زخموں کے علاج معالجہ کیلئے میڈیکل ٹیموں کو پشاور بھجوائے جانے کے عمل کا آغاز کیا گیا۔خیبر پختونخوا میں رونما ہونے والا یہ سانحہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کا شاخسانہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ اس حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کراقدامات کرنے چاہئیں تاکہ اس جن کو بوتل میں بند کیا جا سکے۔
دوسری جانب مریم نواز اپنی جماعت کی تنظیم کیلئے دوروں کا آغاز کر چکی ہیں۔ دوروں کا بظاہر مقصد تو جماعت کی تنظیموں، عہدیداروں اور کارکنوں کو متحرک و فعال بنانا ہے، مگر اسے آنے والے انتخابات کی تیاری بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) جو 2018ء کے انتخابات میں پنجاب میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی اور یہ وہ دور تھا جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شدید مشکلات اور مقدمات کا سامنا تھا اور اب جبکہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکوت قائم ہے تو اس مرحلہ پر خود مریم نواز کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہ بڑے سیاسی عزائم کے ساتھ میدان میں اتری ہیں اور مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں ۔ اگرزمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو آج کی صورتحال ن لیگ کیلئے ماضی کی صورتحال سے یکسر مختلف ہے ۔ماضی میں مریم نواز نے اس وقت کی حکومت کو چیلنج کیا اور عوام کی آواز بنتی گئیں لیکن آج ملک میں مہنگائی، بے روزگاری کی لگی ہوئی آگ میں انہیں اس وقت میدان میں آنا پڑ رہا ہے جب خود ان کے چچا وزیراعظم کے منصب پر ہیں۔ حکومتی کارکردگی اور بالخصوص معاشی بدحالی اور بڑے سیاسی دعوئوں میں ناکامی کا ملبہ مسلم لیگ(ن) نے اٹھایا ہوا ہے ۔آنے والے چند روز میں آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے نتیجہ میں جو مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکے گا؟ مریم نواز کو خود معلوم ہے کہ اصل انتخابی معرکہ پنجاب میں ہونا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے اور آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی بھی پنجاب کی سیاست میں حصہ لینا چاہے گی جو یقینا مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک مشکل صورتحال ہو گی۔ لہٰذا اس حوالے سے ن لیگ کی قیادت کیا فیصلہ کرتی ہے یہ دیکھنا پڑے گا ۔البتہ بڑی اور بنیادی بات یہ ہو گی کہ ن لیگ اور خصوصاً مریم نواز کس بیانیہ کے ساتھ میدان میں آتی ہیں۔
ایک طرف انہیں اپنی پارٹی کو مضبوط بنانا ہے تو دوسری طرف انہیں عمران خان کی سیاست کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ جو بھی جماعت حکومت میں ہوتی ہے اس کیلئے اپنا سیاسی کیس لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، اسے اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوامی ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مسلم لیگ( ن) کو اگر واقعتاً انتخابی سیاست میں کچھ بڑا کرنا ہے تو نوازشریف کی وطن واپسی ناگزیر ہے۔ آج کی صورتحال میں دیکھا جائے تو گیند نوازشریف کی کورٹ میں ہے ۔ مسلم لیگ( ن) اور اتحادیوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود ان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں اور جب تک مسلم لیگ( ن) کسی قابل قبول سیاسی بیانیہ کو نہیں اپناتی تب تک ان کی اصل مقبولیت عوام میں بحال نہیں ہو گی۔
ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کا جماعتی طور پر اگر کسی کو نقصان پہنچا ہے تو وہ مسلم لیگ( ق) تھی جو عملاً دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ق لیگ دراصل چوہدری صاحبان کی سیاست کا دوسرا نام تھا اور ساری جماعت کا مستقبل اس خاندان کے اندرونی اتحاد سے جڑا ہوا تھا جو ان کے درمیان ہونے والی تقسیم سے بکھر گیا۔ الیکشن کمیشن نے ق لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی کارروائی کوغلط قرار دیتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کو ہی پارٹی کا قانونی صدر قرار دیا ہے۔ مذکورہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ برس اگست میں محفوظ کیا تھا جبکہ دوسری جانب 16جنوری کو ق لیگ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں چوہدری شجاعت حسین کی جگہ چوہدری وجاہت حسین کو ق لیگ کا صدر اور کامل علی آغا کو سیکرٹری جنرل نامزد کیا گیا تھا جبکہ ق لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کے اعلان پر چوہدری شجاعت حسین نے چوہدری پرویزالٰہی کی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی ۔ مذکورہ صورتحال کا جائزہ لینا اب خود چوہدری صاحبان کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی تبدیلی کے عمل نے جس طرح ان میں تقسیم پیدا کی ہے کیا بدلے ہوئے حالات میں ان کے خاندانی معاملات کو مزید بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے ؟