قیام پاکستان:لہو رنگ تاریخ ناقابل فراموش
14اگست کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ عظیم اور اہم ترین دن ہے جس میں ہمارا یہ وطن عزیز ملک پاکستان عدم سے وجود میں آیا اور مسلمانانِ ہند نے انگریزوں کے چنگل سے آزادی کا پروانہ حاصل کرکے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی ۔
بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ عظیم دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر نہایت ہی اہم اور ضروری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نئی نسل کو قیام پاکستان کے حوالے سے اِس کی الم ناک داستانوں ، جگر خراش واقعات اور جاں گداز حالات کے پس منظر میں اس کے وہ اہداف و مقاصد بھی مکمل طرح بیان کریں کہ جن کی بنیاد پر ہمارے اکابرین نے آگ و خون کے دریا عبور کرکے حصولِ پاکستان کی نعمت کو یقینی بنایا اور ہمیں ایک الگ خطہ ، ایک علیحدہ ملک اور ایک جدا گانہ مملکت کا نہایت ہی گراں قدر تحفہ پیش فرمایا ، تاکہ کہیں وہ اس کی پیش منظر رونقوں ، سجاوٹوں، آسائشوں ، آرائشوں اور زیبائشوں میں گم ہوکر اِس کے پس منظر کی لہو رنگ تاریخ ساز داستان کا انکار کرکے اس کے ڈھانچے سے اس کی رُوح کوہی عنقاء نہ کردیں ۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو ہندوؤں ، سکھوں اور انگریزوں کی دسیوں مخالفتوں اور بیسیوں سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ، لاکھوں جانوں ، کروڑوں عصمتوں اور اربوں کی جائیداد کی قربانی دے کر بانیانِ پاکستان کے اِن تمام تر حالات و واقعات سے قطعاً نا آشنا رکھاہے ، جس کے نتیجہ میں وہ آج نہایت ہی معصومی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ انڈیا کو کیوں توڑا گیا اور پاکستان کیوں بنایا گیا؟ کیا اچھا ہوتا اگر ہم اکٹھے رہتے، یا دوبارہ اکٹھے کر دیئے جاتے؟ لہٰذا ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو قیام پاکستان کے اہداف و مقاصد اور اُس کی لہو رنگ، الم ناک داستان سے خبر دار کریں۔
1680ء میں برصغیر میں انگریز نے اپنا ناپاک قدم رکھا اور 1857ء میں برصغیر سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ کردیا،اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانا شروع کردئیے۔ لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا ، اُن کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں، اُن کو اپنا غلام بنالیا گیا، نتیجتاً مسلمانوں کا کاروبار تباہ ہوگیا ، غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال دیئے، انگریزوں نے ملک میں انگریزی تعلیم لازمی قرار دے دی ، سکولوں سے عربی اور فارسی کو نکال دیا اور ساتھ ہی جمعہ کی نماز کیلئے چھٹی دینے سے انکار کردیا۔ جواباً مسلمانوں نے بھی انگریز کی بود و باش، رہن سہن اور اُن کی تعلیم و تربیت کا مکمل طور پر بائیکاٹ کردیا اور اس طرح مسلمانوں کو انگریز سرکار کی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان تعلیم و تربیت ، معاشرت و معیشت اور سیاست و حکومت کے لحاظ سے مکمل طرح رُو بہ زوال ہو گئے۔
دوسری طرف ہندو،انگریزوں کی خایہ برداری ا و ر اُن کی چاپلوسی کرکے انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگے ، اُن کی وضع قطع ، بود و باش ، ہیئت و کیفیت ، حرکات و سکنات غرضیکہ زندگی گزارنے کے تمام طور طریقے انگریز آقاؤں کے سانچوں میں ڈھالنے لگے۔ اس کے صلہ میں انگریز وں نے اپنی تمام تر عنایتیں ان پر نچھاور کردیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلی حزب اختلاف اور ہندو مفاد پرست جماعت کی تشکیل کیلئے انگریز قانون دان ہیوم نے ’’آل انڈیا نیشنل کانگریس‘‘ کی بنیاد رکھ دی، جو بظاہر تو ’’ہندو ،مسلم‘‘ دونوں کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی تھی مگر اصل میں درِ پردہ وہ صرف ہندومت کی نمائندہ جماعت تھی۔جس کا مقصد ہندو راج قائم کرکے مسلمانوں کو غلام بنانا تھا ۔
جنگ آزادی 1857ء کے زخم ابھی تازہ تھے کہ 1867ء میں ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کردی ، جس کا مقصد یہ تھا کہ اردو زبان کی جگہ ہندی زبان کو سرکاری و عدالتی زبان کے طور پر رائج کیا جائے اور عربی رسم الخط کی جگہ دیونا گری رسم الخط کو اپنایا جائے ۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کو سمجھانے کی کوشش کی اور اُن پر واضح کیا کہ اردو زبان انڈو اسلامک آرٹ کا لازمی جزو بن چکی ہے ، کوئی چاہے بھی توجنوبی ایشیاء کے ثقافتی ورثہ سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کرسکتا ، مگر ان دلائل کا ہندوؤں پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے بھی اپنی تمام تر مصالحتی کوششیں کیں ، لیکن وہ بھی ناکام رہے ، اردو اور ہندی کے درمیان اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کی صورت میں رُونما ہوا ۔
1927ء میں ہندو رہنما پنڈت بال گنگا دھر تلک نے گاندھی کو پیغام بھجوایا کہ ’’ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا کہ جس طرح بھی ہوسکے ہندوستان کی سب جائیدادیں ہندوؤں کے قبضہ میں آجائیں ، پھر صرف حکومت حاصل کرنے کا ایک مسئلہ باقی رہ جائے گا ، جس کا حل بالکل آسان ہو گا‘‘۔1929ء میں راشٹریا سیوک سنگھ کے سربراہ گوالکر نے کہا کہ ’’تمام بدیشی (یعنی غیر ہندو) اقوام کو ہندو تہذیب اور ہندو زبان اختیار کرنی پڑے گی ، اُنہیں اپنی انفرادیت ختم کرکے ہندو نسل میں گم ہونا پڑے گا‘‘۔
23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی کا باضابطہ مطالبہ کیا ۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں ہوا، جس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا کہ ’’مسلمان ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں ، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اُنہیں غلطی سے اقلیت سمجھا جاتا ہے ‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ، دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے ، دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے ، اِن میں باہم شادیاں نہیں ہو سکتیں، یہ دوالگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘۔یہی وہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ تھا کہ جس کی بنیادپر بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک آزاد و خود مختار ریاست کی بنیاد رکھی۔
دوسری جنگ عظیم (یکم ستمبر 1938ء تا 2ستمبر 1945ء ) کے بعد اگرچہ تاجِ برطانیہ اپنے زیر تسلط علاقوں سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تھا اور اُس وقت کی ملکہ برطانیہ کی یہ خواہش تھی کہ حسب روایت ہندوستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے، لیکن صورت حال کچھ اس طرف جاچکی تھی کہ اب یہ قبضہ مزید برقرار رکھنا کسی بھی طرح ممکن نہ تھا ۔ چنانچہ جب انگریزوں نے دیکھا کہ ہندوستان پر اب مزید تسلط دُشوار ہوگیا ہے، تو اِن حالات میں فروری 1947ء میں ملکہ برطانیہ نے سرلارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند بناکر دہلی بھیجا اور اُسے یہ ہدف دیاکہ برصغیر (ہندوستان) سے قابض انگریزوں کا انخلاء اِس طرح سے عمل میں لایا جائے کہ ہندوستان کو تقسیم کرتے ہوئے 1948ء تک یہ تسلط ختم کردیا جائے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اہل ہند ہنود کے ساتھ مل کر ایک گھناؤنی سازش کے تحت 14 اگست 1947ء کو برصغیر کو اچانک تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔
مؤرخہ 3 جون 1947ء کو یہ تو سب کو معلوم تھا کہ امسال اگست کا مہینہ رمضان المبارک میں آئے گا، لیکن یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب کو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہوگی۔ 13اور 14 اگست کی درمیانی شب کو پہلے ریڈیو ڈھاکہ سے اور اُس کے ایک گھنٹہ بعد ریڈیو لاہور سے یہ اعلان نشر ہوا کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘اور اس طرح 14 اگست 1947ء بمطابق 27رمضان المبارک کو ہمارا یہ پیارا وطن عزیز ملک پاکستان وجود میں آیا۔
ہندوؤں نے وحشیانہ طریقے سے لاکھوں مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا یا ، عورتوں اور بچوں کو گھروں کے اندر بند کرکے زندہ جلادیا گیا ، عورتوں کو اُن کے رشتہ داروں کے سامنے موت کے گھاٹ اُتارا گیا، ہزاروں نوجوان عورتوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگاکر خود کشی کرلی، بعض علاقوں میں آٹھ لاکھ تینتیس ہزار مسلمانوں میں سے تقریباً ستر، اسی فیصد لوگوں کو بالکل ہی نیست و نابود کردیا گیا ،بعض علاقوں میں شاید ہی کوئی مسلمان زندہ بچا ہو۔ 15 ستمبر 1947ء کو اردیسہ سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے ایک لاکھ کے قافلے میں سے صرف چار ہزار مسلمان زندہ بچ کر پاکستان پہنچ سکے۔ 4سے 14 ستمبر 1947ء تک نئی دہلی میں پچیس ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
وہ تمام دن وہ تمام غم جو گزر گئے
ہمیں یاد ہیں
وہ رہِ وفا کے تمام زخم جو بھر گئے
ہمیں یاد ہیں
وہ لُٹے سہاگ وہ عصمتیں
جو فسانہ ہیں وہ حقیقتیں
وہ تمام گھر جو اُجڑ گئے
وہ عزیز سب جو بچھڑ گئے
ہمیں یاد ہیں
وہ عجیب لوگ وہ قافلے
جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے
جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام دن وہ تمام غم جو گزر گئے
ہمیں یاد ہیں
وہ رہِ وفا کے تمام زخم جو بھر گئے
ہمیں یاد ہیں