14 اگست یوم تجدید عہد:جب قربانیوں کی بدولت پاکستان حاصل ہوا

تحریر : سید حسن ریاض


مسلمانوں کی کوشش سے بر صغیر ہندوستان کی تقسیم اور خود مختار اعتقادی دولت کی حیثیت سے پاکستان کا قیام ایسا واقعہ ہے کہ اس پر ہمیشہ گفتگو رہے گی کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود یہ کیسے ہو گیا۔ بر صغیر پر انگریزوں کے تسلط کے ساتھ ہی مسلمان ایسی سخت سیاسی الجھن میں مبتلا ہوگئے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی دوسری قوم نہیں ہوئی۔

 وہ بر صغیر میں ، جسے بڑے اہتمام اور بڑی بد نیتی سے ایک ملک کہا جاتا تھا ، تنہا ایک قوم نہیں تھے، بلکہ ہندو دوسری قوم تھے جن کی آبادی میں کثرت تھی ، جنہوں نے مسلمانوں کی فیاضانہ حکومت میں سات سو برس دولت سمیٹی تھی اور اپنے توہمات اور تعصبات کو ترقی دینے کے لئے بالکل آزاد رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کی مخالفت کے لئے کھل کر سامنے آگئی۔ انہوں نے ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط قائم کرنے میں انگریزوں کا پورا ساتھ دیا۔ ہندوؤں کے اس تعاون سے انگریزوں اور ہندوؤں کے مفاد ایسے مشترک اور متحد ہو گئے کہ مسلمانوں کی طرف سے ایک کے مقابلے میں اپنے مفاد کی حفاظت کی کوشش دونوں کی مخالفت ہوجاتی تھی۔ اس سے اندامی عمل کے تمام مواقع مسلمانوں کے ہاتھوں سے یک لخت نکل گئے۔ مسلمانانِ بر صغیر کی سیاسی فراست کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ انہوں نے ہر مرحلے پر دفاعی عمل سے اقدامی عمل کے مقاصد حاصل کئے۔

مسلمانوں کے لئے دوسری مصیبت وہ سیاسی مسلمات تھے، جو صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں وضع ہوئے، انگریزوں کے ساتھ آئے اور انگریز اور ہندو دونوں اس پر مصر رہے کہ ہندوستان کا مستقبل ان ہی کے مطابق معین ہوگا - وہ ہندووں کے لئے مقید تھے۔ حکومت اور ہندوؤں کے ارادوں اور افعال کی تعبیر و تشریح ان ہی کے مطابق ہونے لگی اور مسلمان خرابی میں تھے۔ مگر مسلمانوں نے یہ کمال کیا کہ ان پر فریب مسلمات کے گرد و غبار میں اپنا مقصد نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ جب سر سید کی قیادت میں انہوں نے تعلیمی خود اختیاری کے لئے جدوجہد شروع کی، جب وہ جدا گانہ انتخاب کے حق کا دعویٰ کرنے کے لئے لارڈ منٹو کے پاس وفد لے گئے ، جب تحفظِ خلافت کے لئے انہوں نے انگریزوں سے جنگ کی اور ہندوؤں سے اتحاد کیا ، جب صوبوں کی کامل خود اختیاری کے لئے انہوں نے ایجی ٹیشن کیا اور ہندوؤں سے بگاڑ ہوا ، اور جب ملک کی تقسیم کا انہوں نے تہیہ کیا اور واقعی پاکستان قائم کردیا ۔ مسلمانوں کا بنیادی مقصد اور مطمح نظر مسلسل یہ ہی رہا کہ آزاد ہندوستان میں اسلام آزاد ہو اور مسلمانوں میں یہ طاقت ہو کہ وہ اس آزادی کی حفاظت کر سکیں۔ انہوں نے اسلام کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑا۔

اخبار نویس کی حیثیت سے ، میں نے پوری خلافت کی تحریک دیکھی اور اس پر لکھا۔ پھر وہ سیاسی اختلال دیکھا جس میں نہرو رپورٹ پیش ہوئی۔ نہرو رپورٹ کی مخالفت کے لئے مسلمانوں نے آل پارٹیز مسلم کانفرنس قائم کی۔ میں اس میں عملاً شریک ہو گیا۔ یو پی مسلم کانفرنس کے بورڈ اور ورکنگ کمیٹی کا رکن ہونے کے علاوہ میں مسلم کانفرنس کے آل انڈیا بورڈ کا بھی رکن تھا۔ 1936 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا پارلیمنٹری بورڈ قائم ہوا، مسلم لیگ نے الیکشن لڑے اور 1937ء سے عوامی پیمانے پر مسلم لیگ کی تنظیم ہوئی۔ اس میں میں نے وہ تمام تفصیلی کام کئے جو عوام میں گھس کر کیے جاتے ہیں۔ ممبر سازی سے لے کر الیکشن لڑنے تک۔ میں یوپی مسلم لیگ کے پارلیمنٹری بورڈ ، پر ہی مسلم لیگ کی کونسل اور ورکنگ کمیٹی کا ممبر رہا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کا ممبر۔1938ء کے آغاز میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اخبار منشور جاری کیا اور 3 سمبر 1947ء تک یہ دہلی سے شائع ہوتا رہا - ابتدا سے انتہا تک میں اس کا ایڈیٹر رہااور مسلم لیگ کے لائحہ عمل اور پالیسی کی تشریح و تفہیم میرا کام تھا۔ اس دوران میں جو اشخاص سامنے آئے اور جنہوں نے مسلم سیاست میں امتیازی مقام حاصل کیا ان سے مسائل پر بحث و گفتگو کا مجھے موقع ملا۔ مسلم سیاست اور خصوصاً تحریک پاکستان سے اس واقفیت کی بنا پر ، تقسیم برصغیر کے فیصلے کے ساتھ ہی میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ جو میرے سامنے گزرا ہے اور جو میں نے سمجھا ہے اس کے اہم پہلو لکھ دوں تاکہ لوگوں کو تحریک پاکستان اور مقاصد پاکستان سمجھنے میں سہولت ہو۔ تحریک پاکستان ایسی کھلی ہوئی ، برملا اور ڈنکے کی چوٹ پر تھی کہ اس میں راز اور اسرار کا دخل ہی نہیں۔ اس لئے اہم واقعات میں کی توقع فضول ہے۔ البتہ مخالفین نے اپنے پروپیگنڈا کے طاقتور وسائل سے ان کی ایسی پر فریب تعبیرات کی میں کہ ان سے بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور حقائق کے رخ تبدیل نظر آنے لگتے ہیں۔ میں نے واقعات کے بہان میں اس کا خیال رکھا ہے کہ وہ اسی طرح نظر آئیں جس طرح کہ وہ گزرے ہیں۔اس حوالے سے اقتباسات بہت ہو گئے ہیں اور کہیں کہیں خاصے طویل ہیں۔یہ اس وجہ سے کرنا پڑا کہ بحث و استدلال کے لئے میرے نزدیک یوں بہتر ہے کہ وہ اصل الفاظ پیش نظر ہوں جن پر گفتگو ہے۔ اختلافی مسائل پر بحث و گفتگو کے لئے میں نے اکثر مخالفین ہی کے اقوال کو بنیاد قرار دیا ہے۔

اس مبارک دن کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل کو مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے پس منظر سے پوری طرح روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں اس بات کا کاقمل ادراک ہونا چاہیے کہ آزادی سے پہلے ہم تمام کلمہ گو مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب کے سب غیر مسلموں کے قبضے میں تھے۔ ہماری تہذیب و تمدن، ہماری ثقافت و شرافت، ہماری عزت و ناموس، ہمارا قرآن، ہمارا ایمان، ہمارا اسلام، سرورِ کائنات کا پیغامِ تزک و احتشام، تمام کا تمام غیر مسلموں اور استبدادی طاقتوں کا غلام تھا۔ پاکیزہ و غیر پاکیزہ معاشرے کا باہمی ادغام تھا، مسلمانوں کیلئے باعثِ غم وآلام تھا۔ 

ہماری نوجوان نسل کو یہ باور کرانا ہوگا کہ انگریز دور میں برصغیر میں صبح مسلمانو ں کیلئے پیغامِ صبا نہ لاتی تھی پیغامِ بلا لاتی تھی۔ یہاں کا دن ان کیلئے نرک دن تھا۔ ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ ہر سو جابرانہ ہتھکنڈوں کی برسات تھی۔ ہماری نشستن، خوردن، برخاستن، آمدن اور رفتن ہمارے اپنے بس میں نہ تھا۔ حاکم ظالم تھے۔ ہر بات ان کے رحم و کرم پر تھی۔ ہماری نہ معیشت تھی نہ تجارت تھی۔ سفاکانہ سلوک میں غلامانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لب کشائی کی تاب تک نہ رکھتے تھے۔ بے قصور مسلمان مارے جاتے تھے اور بہت مشکل کے اوقات گزارے جاتے تھے۔ آج بھی بھارت میں جھانک کر دیکھیں تو مسلمانوں کا بچہ چاہے وہ عقیل ہے یا شکیل ہے مگر زندگی اس کی ذلیل ہے۔ اگرچہ اس کے اندر صلا حیتیں موجود ہیں مگر ہندو اپنے ظالمانہ رویہ سے مفلوج اور مجروح کردیتے ہیں۔ جبراً مشقت لینے پر کوئی پابندی نہیں۔ رکشہ کھینچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔کسی مسلمان کی بیوی، بہن، بہو یا بیٹی کسی ہندو کو پسند آجائے تو اسے پامال کر دینے کی کھلی چھٹی ہے۔ آبروریزی پر اتر آئے تو کوئی قید نہیں۔ غرض جب چاہے جو چاہے کر سکتا ہے، کوئی قید و بند نہیں۔

مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کی پچھلی سات دہائیوں سے سارے حالات و واقعات سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ خدانخواستہ اگر وطن عزیز بھی آزاد نہ ہوا ہوتا تو ہم سب لوگوں کا کیا انجام ہوتا۔اس لئے ہم سب کو اس بات کا صحیح ادراک ہونا لازم ہے کہ اس خداداد مملکت کے قیام سے قبل کیا حالات تھے جس کی بناء پر بیسویں صدی کی عظیم الشان تحریک آزادی برپا ہوئی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تحریکِ پاکستان کیا تھی، اصل میں تحریکِ عرفان تھی۔ گویا خدا کی پہچان تھی اسلام کی شمعیں روشن ہونا تھیں جو روشن ہوئیں اور اسلام کا بیج بوتی رہیں۔ شگوفوں نے اس وقت پنپنا تھا جب ہند کی مٹی نے راہ سے ہٹنا تھا۔

 دوسرا بڑا تقاضا اس یومِ آزادی کا یہ ہے کہ ہم اپنی صفوں میں کامل اتحاد پیدا کریں۔ کسی بھی طرح کے گروہی، لسانی وصوبائی عصبیت پسندی یا کسی بھی دیگر بنیاد پر تفریق کا شکار نہ ہوں۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قوم کیلئے رہنما خطوط فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’ اتحاد، ایمان ، تنظیم‘‘ یعنی  کسی بھی قوم کیلئے تر قی و کامرانی حاصل کرنے کیلئے سنہری اصول یہی تین ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے۔ اپنی دیانت داری اور ایمان کو ہمیشہ اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کررکھے اور ساتھ ہی ساتھ پوری قوم نظم و ضبظ پر چابکدستی سے کاربند ہو۔

الحمد اللہ! اب پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے قائم ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ 14 اگست کا دن یوم مسرت بھی ہے اور یوم تجدید عہدبھی۔ اگر ہمیں اپنی آزادی عزیز ہے تو اس کی تعمیر و ترقی اور تحفظ کیلئے ہمیں اپنی تمام تر قوتوں کوایک قوم بن کر صرف اور صرف پاکستان کیلئے وقف کرنا ہو گا۔ 14 اگست کو جب ہم جشن آزادی مناتے ہیں تو اس مبارک موقع پر ہم سب کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم نے اب تک پاکستان کے استحکام کیلئے کتنا کام کیا؟پاکستان بنانے کیلئے علماء کرام، بزرگوں، نوجوانوں، بچوں یعنی مسلمانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ 14 اگست 1947ء کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کیلئے آزادی کا پیام بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندؤوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ کیلئے نجات ملی تھی۔ 

امید ہے اس 14 اگست کا سورج پاکستان میں امن و خوشحالی کا پیغام لے کر طلوع ہوگا ان شاء اللہ۔پاکستان دنیا میں اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ہے اس کے تحفظ، ترقی اور بقائے کیلئے جدو جہد ہر پاکستانی کا قومی و دینی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمّہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ملت کے لئے لطف خدا آج کا دن ہے

اک باب درخشندہ ہے تاریخ اُمم کا

تہذیب کے چہرے کی ضیا آج کا دن ہے

٭٭٭٭٭

اک ولولۂ تازہ سے آغاز ہوئی تھی

تزئین چمن زار کی، تعمیر وطن کی

منزل کی طرف قافلہ شوق چلا تھا

جاگ اٹھی تھی سوئی ہوئی تقدیر وطن کی

٭٭٭٭٭

چھلکائی گئی تھی مئے آزادی افکار

جذبات سے ملت مری سرشار ہوئی تھی

کہتے ہیں جسے لوگ حمیت بھی انا بھی

سینوں میں وہی آگ سی بیدار ہوئی تھی

٭٭٭٭٭

وہ عہد کہ جو آج کے دن ہم نے کیا تھا

لازم ہے کہ اُس عہد کی تجدید ہو ہر آن

اک جذبہ تابندہ ہو بیدار دلوں میں

افسردگی زبست کی تردید ہو ہر آن

 حفیظ تائب    

٭٭٭

اللہ مرے باغ کو توقیر عطا ہو 

اللہ مرے باغ کو توقیر عطا ہو 

جو دِل میں اُتر جائے وہ تاثیر عطا ہو 

ہر طائر خوش لحن چمکتا رہے مولا 

یہ باغِ وطن یونہی مہکتا رہے مولا 

چھائے نہ اُداسی درو دیوار پہ اس کے 

ہو روشنی ہر گنبد و مینار پہ اس کے 

ہر فرد ہو خوش حال و خوش اطوار خدایا

اس خاک پہ آتے رہیں انوار خدایا 

ہر دل میں یہاں خوئے وفا پھیلتی جائے 

ہر گھر میں محبت کی ہوا پھیلتی جائے 

آنگن میں مہکتے رہیں پُرنور سویرے

قائم رہیں دائم رہیں یہاں خوشبوئوں کے ڈیرے

تابش کمال  

٭٭٭

خیر میرے اس چمن کی ہو

یارب! دعا ہے، خیر میرے اس چمن کی ہو

ہر سو مہک اِسی کے گل و یاسمن کی ہو

چرچا ہو ہر جگہ پہ اس کی بہار کا

دنیا میں دھوم اس کے ہی سر و سمن کی ہو

چشمے نہ خشک ہوں کبھی، بہتے رہیں سدا

یہ اِلتجا نہ رد کسی تِشنہ دہن کی ہو

ہوں برف پوش چوٹیاں، موضوعِ گفتگو

ہر جا ہی بات بس انہی کوہ و دمن کی ہو

دھرتی مِری کا جا چھڑے جس جا بھی تذکرہ

وُقعت بھلا وہاں کسی باغِ عدن کی ہو؟

شاداں ہو ہر جوان تو فرحاں ہوں پِیر بھی

یاں مانگ بھی بھری ہوئی ہر گُل بدن کی ہو

رُل جائے کوئی سسی نہ ڈوبے ہی سوہنی

رانجھا ہو اپنی ہیر کا، سجنی سجن کی ہو

دھرتی کا قرض ہم بھی ادا پھر سے کر سکیں

آباد پھر سے ہر جگہ محفل سخن کی ہو

جی لیں اِسی دیار کے گوشے میں ہم ضیاءؔ

مر جائیں تو نصیب میں مٹی وطن کی ہو

(سید ضیاء حسین)

٭٭٭

جیوے جیو ے پاکستان

جیوے جیوے پاکستان

جیوے جیوے پاکستان

مہکی مہکی روشن روشن پیاری پیاری نیاری

رنگ برنگے پھولوں سے اک سجی ہوئی پھلواری

پاکستان جیوے جیوے پاکستان

من پنچھی جب پنکھ ہلائے ،کیا کیا سُر بکھرائے

سننے والے سنیں تو ان میں ایک ہی دھن تھرائے

پاکستان جیوے جیو ے پاکستان

بکھرے ہوئوں کو بچھڑے ہوئوں کو اک مرکز پہ لایا

کتنے ستاروں کے جھرمٹ میں سورج بن کر آیا

پاکستان جیوے جیو ے پاکستان

جھیل گئے دکھ جھیلنے والے اب ہے کام ہمارا

ایک رکھیں گے ایک رہے گا ایک ہے نام ہمارا

پاکستان جیوے جیو ے پاکستان

        (جمیل الدین عالی)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فیض حمید کے خلاف فرد جرم پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونا اور ان پر تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطوں اور ملک کو انتشار کا شکار کرنے کے الزامات تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے جا رہے ہیں۔

مدارس بل،جے یو آئی پسپائی کیلئے کیوں تیار نہیں؟

حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمن مدارس کے حوالے سے منظور شدہ بل میں تبدیلی کیلئے مطمئن نہیں، اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک بڑا ایشوبن چکا ہے۔

سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی

ملک میں سردی آگئی مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ادھر سندھ میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے آگ پر ہانڈی چڑھا دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی چولہے کی لو تیز کردی ہے۔

پی ٹی آئی،جے یو آئی اتحاد کی حقیقت

پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مابین رابطے ایک بار پھر بحال ہورہے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر وفاق سے ناراض ہے ۔

بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون

بلوچستان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت کے صنعتی، تجارتی اور زرعی منصوبے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ترقی کی یقین دہانیاں خوش آئند ہیں مگر ماضی کے تجربات شفافیت اور سنجیدہ عمل درآمد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

مطالبات منظور،احتجاج ختم

آزاد جموں و کشمیر میں حکومت نے ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کو واپس لے لیا جس کے بعد مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج بھی پر امن طریقے سے ختم ہو گیاہے۔