زرعی انکم ٹیکس پر تحفظات کیوں؟

سندھ اسمبلی اس بار تیسرے نمبر پر آئی ہے۔ اس نے زرعی انکم ٹیکس بل پیر کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے صوبوں سے زرعی انکم ٹیکس بل کی منظوری شرائط میں شامل تھی۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سمیت کئی ارکان نے ٹیکس کے نفاذ کے حق میں رائے دی لیکن ساتھ ہی زرعی ٹیکس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بل منظور کیا جارہا ہے لیکن ان کے خیال میں کچھ وقت گزرنے کے بعد بل میں ترامیم کی ضرورت پڑے گی اور اگر ایسا ہوا تو بل پر نظرثانی کریں گے۔ انہوں نے زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔ وجہ یہ بیان کی کہ اگر نفع نہ ہو تو کسان فصل سے اپنا ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔ دو پیسے کمانا تو ہر ایک کا حق ہے، جہاں نفع ہوگا وہی کاروبار کیا جائے گا۔ زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدن پر 45فیصد تک ٹیکس عائد ہوگا۔ لسٹڈ کمپنی بنانے پر زرعی شعبہ سے20 سے 28 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ زرعی آمدن 15 کروڑ سے زائد ہوئی تو سپر ٹیکس کا اطلاق بھی ہوگا۔ زرعی ٹیکس سندھ ریونیو بورڈ جمع کرے گا۔ وزیراعلیٰ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ بات تو طے ہے کہ حکومت چلانے کے لیے پیسہ ضروری ہے اور حکومت کو یہ پیسہ صرف ٹیکس کی صورت میں ہی حاصل ہوتا ہے، ملک میں متعدد ایسے کاروبار ہیں جو کماتے تو کروڑوں اور اربوں میں ہیں لیکن ٹیکس کی بات آئے تو ان بے چاروں کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہوتی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس میں زرعی شعبے کا حصہ تین ارب روپے کے آس پاس ہے اور ڈھائی کروڑ روپے سالانہ آمدنی حاصل کرنے والا چند ہزار روپے ٹیکس دیتا ہے۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے ایسا انکشاف کیا کہ جس پر یقین کیا ہی نہیں جاسکتا، صرف افسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ ملک میں 10ارب روپے سے زیادہ کے اثاثے رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 10ہے۔ اگر واقعی یہ تعداد درست ہے تو صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ٹیکس کون چراتا ہے اور پیسہ کہاں چھپایا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے تحفظات اپنی جگہ پر درست ہیں، ٹیکس کی شرح اگر زیادہ ہے تو اسے کم کرنے کا کوئی راستہ وفاقی حکومت کو ضرور نکالنا چاہیے۔ اسی طرح وفاق کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو مضبوط کرے۔ ایسا نظام بنائے کہ نہ تو افسران ٹیکس چوری کی راہ دکھا سکیں اور نہ ہی عوام میں سے کوئی ٹیکس چوری کرنے کا سوچ بھی سکے۔
پہلے تو صرف عوام ہی پنجاب اور سندھ حکومت کی کارکردگی کا موازنہ کررہے تھے اب سیاستدان بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ اپنی اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ تک بتایا جارہا ہے کہ کون سا کام کس صوبے نے پہلے شروع کیا اور دوسرا اس کی نقل کر رہا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی منصوبہ سامنے آتا ہے، تجاوزات کا خاتمہ، صفائی کے جدید نظام کی طرف قدم بڑھانا، بازاروں میں ایک ہی ڈیزائن کے تشہیری بورڈ لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ بظاہر یکساں تشہیری بورڈز کی تنصیب چھوٹی سی بات لگتی ہے لیکن تصور کریں تو بہت خوبصورت اور باوقار سڑک ذہن میں آ جاتی ہے جہاں نہ کوئی غیرقانونی پتھارا ہوگا، نہ کسی دکاندار نے فٹ پاتھ پر قبضہ کر رکھا ہوگا۔ اس طرح کی چیزوں پر عمل کرانے میں کوئی پیسہ نہیں لگتا، بات صرف حوصلے کی ہے، کچھ ووٹر ضرور ناراض ہوں گے لیکن عوام کی اکثریت اچھے اقدامات کے ساتھ کھڑی ہوگی اور یہی اصل کمائی ہے جو الیکشن کے دوران آپ کو فائدہ دے گی۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ سندھ کو دینے کی معصوم سی خواہش ابھی تک میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ اگلے روز ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے بلاول بھٹو کی تقریر پر تنقید کی اور تاجروں سے گفتگو میں بلاول بھٹو کے لہجے کو دھمکی آمیز قرار دیا۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مسائل حل نہ ہوئے تو پھر نئے صوبے بنانے کی آواز تو اُٹھے گی۔ بھتے کی بات پر خالد مقبول صدیقی ظریفانہ انداز میں بولے: پرچیاں آنا بند ہوگئی ہیں، اب روزانہ کی بنیاد پر بھتا طلب کیا جارہا ہے، نہ دینے پر روز قتل کے واقعات ہورہے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں موجود افسر سے لے کر سڑک پر کھڑا اہلکار تک بھتا وصولی میں ملوث ہے۔ خالد مقبول صدیقی کے بیان پر ردعمل میں شرجیل میمن بولے: متحدہ قومی موومنٹ اپنی مردہ سیاست زندہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے، متحدہ کی تنقید کا مطلب جوابی تنقید کا حصول ہے تاکہ اس کا سیاسی قد بڑھے، ان کے کسی بھی رہنما کے کسی بھی بیان کو ہم سنجیدہ نہیں لیتے۔
ایم کیو ایم کا ذکر ہے تو یہ بھی سن لیں کہ کچھ رہنماؤں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں تاہم مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ ان کی خالد مقبول صدیقی سے کوئی لڑائی نہیں ہے، مسائل پر مشاورت ہوتی رہتی ہے۔ البتہ مصطفی کمال یہ کہنے سے نہیں چوکے کہ ایسی کون سی پارٹی ہے جس میں صرف ایک عہدیدار ہو، باقی سب دائیں بائیں ہوں، ہم سے کوئی یہ پوچھے کہ پارٹی میں کیا عہدہ ہے تو ہم بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ابھی مزا آنا شروع بھی نہ ہوا تھا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اختلافات کی تردید کردی اور کہا کہ خالد بھائی ہی کنوینر ہیں اور رہیں گے، کوئی کہیں نہیں جارہا، مصطفی کمال بھی ساتھ ہیں، یعنی جیسا تھا ویسا ہی رہے گا!