نواز شریف پارٹی کے تنظیمی وسیاسی محاذ پر سرگرم

اہل لاہور کا یکجہتی کشمیر کیلئے بے مثال مظاہرہ
مسلم لیگ( ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی پارٹی کی تنظیمی اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ حالیہ ہفتہ جاتی عمرہ میں مختلف اضلاع کے اراکینِ اسمبلی سے ان کی ملاقاتوں کو اسی تناظر میں لیا جا رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ مریم نوازاورپارٹی کے لیڈر نوازشریف نے مختلف اضلاع میں ترقیاتی عمل اور پارٹی کے تنظیمی معاملات پر تبادلہ خیال کیا ۔ کسی بھی حکومت میں حکمران جماعت کی حیثیت اور اہمیت ہوتی ہے اور حکومتیں عوامی محاذ پر ڈیلیور کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے حالات اور انتخابات کی تیاری بھی کرتی ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ( ن) کی حکومتوں میں پالیسیوں کی تشکیل اور اقدامات میں حکومتی ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کا کردار ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ ان کی حکومتوں کے خاتمہ کے باوجود نوازشریف کی سیاسی مقبولیت نظر آتی تھی۔پارٹی بھی متحرک دکھائی دیتی تھی اور عوام ( ن) لیگ کی طرف دیکھتے تھے لیکن موجودہ کیفیت میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومتوں کا انحصار اپنی جماعت اور اراکین اسمبلی سے زیادہ بیورو کریسی پر ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز پنجاب کے محاذ پر بہت فعال ہیں لیکن مستقبل کی سیاست میں ان کی سیاسی طاقت ان کی جماعت اور ان کے ذمہ داران ہوں گے ۔ اگر پنجاب مسلم لیگ ( ن) کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے سیاسی محاذ پر ہی بروئے کار لایا جاتا تو اچھا تھا لیکن ان کے خدمات وفاقی حکومت نے لیکر انہیں سیاسی محاذ سونپ کر کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور ریلیوں کا انعقاد اس امر کا مظہرہ تھا کہ کشمیر کاز پر ساری قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے۔ لاہور کے مال روڈ پر جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں،ایجرٹن روڈ پر مرکزی مسلم لیگ اور والٹن روڈ پر خواجہ سعد رفیق کی قیادت میں بڑی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا ۔ حسبِ روایت لاہور کے مال روڈ پرتاجروں کی مختلف تنظیموں اور کشمیریوں کی مختلف آرگنائزیشنز کی جانب سے جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے کشمیر سے بھرپور یکجہتی کے اظہار کے طور پر لبرٹی چوک میں ایک علامتی قید خانہ بنایا گیا جس کے ذریعہ دنیا کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ بھارت نے مقبوضہ وادی کو قید خانہ بنادیا ہے۔ یہاں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ انہوں نے یہاں آزادی کی شمع بھی روشن کی۔ مذکورہ تقریب کو یکجہتی ٔکشمیر کے حوالے سے ایک نئی روایت قرار دیا جا سکتا ہے اور پنجاب حکومت کی جانب سے مذکورہ اقدام کو دیکھنے کیلئے رات گئے تک لاہوری یہاں آکر کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہارکرتے نظر آئے۔
ایک طرف پی ٹی آئی مذاکراتی عمل سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد مزاحمتی اور احتجاجی سیاست کی طرف رجوع کرتی نظر آ رہی ہے تو دوسری جانب ان کی لیڈر شپ خصوصاً بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ایسا طرزِ عمل اختیار کیا جا رہا ہے جس سے انہیں تو فائدہ ملنے کا امکان نہیں البتہ وہ ملک میں ایسی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے انتشار اور خلفشار میں اضافہ ہو۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے جانے والے ایک خط کے بعد انہوں نے مسلح افواج کے نام ایک مکتوب بھجوایا ہے البتہ اس کے نہ ملنے کی تصدیق ذمہ دار ذرائع کر چکے ہیں ۔ یہ تاثر ابھرا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت اپنے ممکنہ آپشنز بروئے کار لانے کے بعد مایوسی سے دوچار ہے اور ایسے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں جن کا جواب تو انہیں معلوم ہے مگر وہ اب ریاست اور ریاستی اداروں کا امتحان لینے کے درپے ہیں۔ ویسے ملکی معاملات اور سیاسی معاملات پر مسلح افواج اپنا مؤقف واضح کر چکی ہیں کہ اس حوالے سے جو بات کرنی ہے سیاستدانوں سے کریں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہرنے وضاحت کی ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے یہ مکتوب سابق وزیرعظم کی حیثیت سے لکھا ہے ۔ اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ شاید ان کا آج کوئی آفیشل پوزیشن ہے جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت ایک سزا یافتہ مجرم ہیں ہیں اور ریاستی اداروں کے ذمہ داران کو مخاطب کرنے کا انہیں کوئی آئینی وقانونی جواز نہیں۔ جہاں تک ان کی جانب اٹھائے جانے والے ایشوز کا تعلق ہے تو ان کی جماعت پہلے ہی ان ایشوز پر اپنی حیثیت میں کردار ادا کرتی نظر آتی ہے ۔جہاں تک مسلح افواج سے یکجہتی کا سوال ہے تو اس میں میں دو آرا نہیں کہ دہشت گردی سے نبرد آزما مسلح افواج کے ساتھ یکجہتی کی ضرورت تو ہے لیکن سپہ سالار کو پالیسیوں پر نظرثانی کا کہنا فوج کی ساکھ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے اور آئین اور قانون کسی بھی شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔قانونی ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کے اس مکتوب کو جواز بنا کر کارروائی ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکتوب باضابطہ طور پر بھجوانے کی بجائے اسے میڈیا پر جاری کیا گیا۔ اس لئے کہ مقاصد کچھ اور تھے اور یہ عمل ان مقاصد کے حصول کی بجائے انہیں الٹا پڑتا نظر آ رہا ہے۔ اس حوالے سے خود پی ٹی آئی کے ذمہ داران ڈھکے چھپے انداز میں کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمیں ایسے طرزِ عمل سے احتراز برتنا چاہئے جو ہمیں مزید بحران سے دوچار کر ے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی جانب سے 8فروری کے یوم سیاہ کا تعلق ہے تو یہ پی ٹی آئی کا جمہوری حق ہے اور انہیں یہ ضرور منانا چاہئے لیکن اس حوالے سے حکومتی اقدامات کا تعلق9مئی کے واقعات سے ہے اور وہ اب کسی بھی احتجاجی کیفیت پر الرٹ نظر آتے ہیں۔ لاہور میں مینار پاکستان جیسے مقام پر جلسہ کی اجازت بارے تو ابھی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا لیکن یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جلسہ کی اجازت مل بھی جائے تو پی ٹی آئی کسی بڑے احتجاج کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی۔ البتہ خیبر پختونخوا میں بڑے جلسہ کی تیاریاں جاری ہیں اور وہاں بھی بلند و بانگ دعوئوں کے حامل جنید اکبر خان کے بیانات اور اعلانات سے حکومت سے زیادہ پریشانی خود اُن کے اراکین اسمبلی اور ذمہ داران کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان تیاریوں کیلئے میٹنگز میں جانے سے احتراز برتتے نظر آتے ہیں اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ خود پختونخوا حکومت بھی ایسا نہیں چاہے گی کہ یہاں بڑی احتجاجی قوت کا مظاہرہ ہو کیونکہ اب سیاسی محاذ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے لے کر جنید اکبر خان کو دے دیا گیا ہے اور 8فروری کا احتجاج ان کیلئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔