خیالات کو پاکیزہ بنائیں

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ بدگمانی سے بچو کیونکہ یہ سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے‘‘ (ترمذی)۔ اللہ رب العزت نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 284میں فرمایا ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے اور اگر تم ان باتوں کو ظاہر کرو گے جو تمہارے نفسوں میں ہیں یا ان باتوں کو چھپائو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے ان کا حساب لے گا۔
پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔ اِس آیت کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے گواہی کو ظاہر کرنے کا حکم دیا اور گواہی کے چھپانے سے منع فرمایا۔ اگر کوئی شخص معاملے کو جانتے ہوئے اصل بات چھپائے تو اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے، وہ ضرور حساب لے گا۔
جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے تمام اعمال کا محاسبہ فرمائیں گے، ان اعمال کا جو انسان کر چکا اور اس بات کا بھی کہ جس چیز کے چھپانے اور جس چیز کے ظاہر کرنے کا حکم فرمایا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ عمرؓسے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مومن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے قریب کیا جائے گا ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک گناہ کو یاد دلائیں گے اور سوال کریں گے کہ تو جانتاہے کہ تو نے یہ گناہ کیا تھا؟ مومن بندہ اقرار کرے گا۔ حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے دنیا میں بھی تیری پردہ پوشی کی اور تیرا گناہ لوگوں میں ظاہر نہیں ہونے دیا، آج میں اسے معاف کرتا ہوں اور نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دے دیا جائے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے، جس میں پوشیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے گااور دلوں کے راز کھولے جائیں گے۔ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تو صرف تمہارے وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے، میں ان چیزوں کو بھی جانتا ہوں جن کے بارے میں فرشتے بھی نہیں جانتے اور نہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہ اعمال میں لکھی ہیں، میں وہ سب بتاتا ہوں اور اب ان کا حساب لوں گا۔
جب سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فکر لاحق ہوئی کہ دل میں پتہ نہیں کیا کیا خیالات آتے ہیں۔ اگر ان کا حساب ہونے لگا تو پھر نجات کیسے ہو گی؟ صحابہ کرامؓ نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ۔ آپﷺ نے فرمایا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اسے سن لو اور اس کی اطاعت کرو اور مان لو۔ پھر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی قدرت سے زائد تکلیف نہیں دیتا‘‘۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انسان کی فطرت ہی ایسی ہے اگر اس کے ذہن میں کوئی خیال آئے تو اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا جب انسان خیالات کے خود بخود آنے پر قدرت نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ بھی نہیں فرمائیں گے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ایک ہے خیالات کا آنا، ایک ہے خیالات کا لانا۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔خیالات آجائیں تو ان کو روکنے پر قدرت نہیں لیکن خیالات لانے یا نہ لانے پر تو انسان قادر ہے، لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر برے خیالات کو ذہن میں لائے تو اس پر پکڑ ہو گی۔ جیسے تکبر کا خیال، حسد، بغض، کینہ، دشمنی، لالچ اور دوسرے گناہوں کا خیال لانا اور ذہن میں اسے جگہ دینا ۔ اگر یہ خیالات خود بخود آجائیں تو پکڑ نہیں ہو گی۔ اس لیے کہ ارشاد نبویﷺ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں آنے والے خیالات کو معاف کر دیا ہے جب تک کہ ان خیالات کو زبان سے نہ کہا اور نہ ان پر عمل کیا‘‘۔
برے خیالات انسان کے ذہن میں جب آئیں تو ان کا علاج بہت آسان ہے۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق ایک صحت مند انسان کے ذہن میں ایک وقت میں ایک طرح کا خیال رہ سکتا ہے لہٰذا جب بھی کوئی برا خیال ذہن میں آئے تو اپنے ذہن کو کسی اچھے کام اور اچھے خیال کی طرف مائل کر دیا جائے۔ جب اچھا خیال ذہن میں آئے گا تو برا خیال خود بخود نکل جائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں بعض انسان وہ بھی ہیں جن کا ذہن ہر وقت برے خیالات اور گناہوں،برے وسوسوں سے بھرا رہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کا ذہن ایک کیسٹ کی طرح ہے۔ انسان جو کچھ کانوں سے سنتا ہے وہ آوازیں ذہن میں ریکارڈ ہو جاتی ہیں اور جو کچھ آنکھوں سے دیکھتا ہے وہ تصویر بھی ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ اب اگر انسان کیسٹ میں گناہوں بھری آوازیں محفوظ کرتا رہے اور ممنوعہ مناظر کو ذہن میں نقش کرتا چلا جائے اور جب ذہن میں وہ کیسٹ چلے تو پھریہ انسان پریشان ہو کر چاہتا ہے کہ اس میں سے نیک باتیں سنائی دیں اور اچھے مناظر دکھائی دیں۔ یہ ناممکن ہے، خلافِ فطرت ہے۔
اس لیے اگر انسان اپنے سننے کی چیزوں کو پاکیزہ بنا لے۔ دیکھنے اور پڑھنے کی چیزوں کو پاکیزہ بنا لے تو انشاء اللہ دل میں آنے والے برے خیالات سے چھٹکارا ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ چونکہ ہمارے ذہن میں چھپائی جانے والی اور ظاہر کی جانے والی باتوں کا بہرحال حساب لے گا۔ اس لیے ہمیں زندگی اس طرح گزارنی ہو گی کہ اگر کچھ باتیں ہمارے ذہن میں دوسروں کے فائدہ کی ہوں وہ ضرور بتائیں، انہیں نہ چھپائیں۔ جیسے گواہی چھپانے سے منع فرمایا اور ایسی باتیں جن سے دوسروں کی اصلاح ہو سکتی ہو اور بہت سی ایسی باتیں جن سے کسی کو دینی یا دنیاوی فائدہ پہنچ سکتا ہو اور اگر کسی کے بارے میں بری باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے چھپایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی ہدایت دی ہے کہ جو کوئی دوسرے مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب کو چھپائے گا۔
ضروری ہے کہ انسان برے خیالات پر پریشان ہونے کی بجائے ان کا علاج کرے۔ اپنے دیکھنے سننے اور پڑھنے کی چیزوں کو پاکیزہ بنائے اس لیے کہ اللہ رب العزت دل میں چھپی اور ظاہر کی جانے والی چیزوں کا حساب لے گا۔ اس بات کا پختہ یقین رکھنے والا شخص یقینا دنیا و آخرت میں کامیاب انسان شمار ہو گا اور معاشرے میں ایک تندرست ذہن رکھنے والا انسان شمار ہو گا۔