احساسِ ذمہ داری

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


’’ذمہ داری پوری نہ کرنے والے شخص پراللہ تعالیٰ جنت کی خوشبو حرام فرما دیتے ہیں‘‘(صحیح مسلم) دینی، معاشرتی اور گھریلو ذمہ داریاں شرعی اصولوں کی روشنی میں مسلمان حاکم کی ذمہ داریاں باقی لوگوں کی نسبت زیادہ ہیںمرد اپنے گھر والوں (بیوی ، بچوں)کا نگران اور ذمہ دار ہےعورت سے خاوند کے گھر اور اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس ذات نے ہمیں کھانے کے لیے خوراک، پینے کے لیے مشروبات دیے اور رہنے کے لیے مکانات دیے۔ ہمارے گھروں میں رہنے والے لوگ ہماری رعایا ہیں ان کی صحیح تربیت کے بارے ہم سے پوچھ تاچھ ہو گی۔

ہر شخص کی ذمہ دارانہ حیثیت

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھو کہ تم میں سے ہر ایک شخص کسی نا کسی اپنے ماتحت کا نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے متعلقہ ذمہ داری و نگرانی کے بارے پوچھا جائے گا۔ حاکم وقت لوگوں کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں (بیوی اور بچوں وغیرہ)کا نگران اور ذمہ ہے جن کے بارے اس سے سوال کیا جائے گا، اسی طرح عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران و ذمہ دار ہے اس سے ان کے  بارے میں پوچھا جائے گا، اسی طرح غلام اپنے آقاکے مال کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے بھی اس بارے سوال کیا جائے گا، (آخر میں پھر تاکید کے ساتھ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ )  یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تم میں سے ہر ایک شخص کسی نا کسی اپنے ماتحت کا نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے متعلقہ ذمہ داری و نگرانی کے بارے پوچھا جائے گا۔(صحیح مسلم:4751)

ذمہ داریاں پوری نہ کرنیوالے کی سزا

حضرت معقل بن یساراؓفرماتے ہیں:میں نے اللہ کے رسول ﷺکو یہ فرماتے ہوئے خود سنا کہ کوئی بھی ذمہ دار شخص جسے اللہ نے کسی کی ذمہ داری سونپی تھی اگر وہ اپنے ماتحت لوگوں کے بارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے بلکہ ان کو دھوکہ دے کر یہ جہان چھوڑ جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو تک حرام فرما دیتے ہیں۔(صحیح مسلم،رقم الحدیث:4757)

 حاکم کی ذمہ دارانہ حیثیت

حدیث مبارک میں حاکم وقت کواس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’حاکم وقت لوگوں کا نگران اور ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے پوچھا جائے گا‘‘ (صحیح مسلم:4751)۔

 جو جتنے لوگوں کا نگران و ذمہ دار بنتا ہے اس کی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی اسی قدر وسیع ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہا ایک مسلمان حاکم کی ذمہ داریاں باقی لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: 

(1)دینی اقدار کے احیاء کی ممکنہ کوشش کرنا۔

(2)ہر حال میں امن و امان کو قائم کرنا۔

(3)معاشرتی جرائم کا جڑ سے خاتمہ کرنا۔

(4)عوام کی مکمل دیکھ بھال کرنا۔

( 5) روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنا۔ 

(6)دشمنوں سے حفاظت کا بندوبست کرنا۔ 

(7)انصاف قائم کرنا اور اسے بحال رکھنا۔

(8)عوام کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا۔

مرد کی ذمہ دارانہ حیثیت 

حدیث مبارک میں مرد کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’مرد اپنے گھر والوں (بیوی اور بچوں وغیرہ)کا نگران اور ذمہ دار ہے جن کے بارے اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ایک ذمہ دار حیثیت کے مالک ہونے کے ناطے مرد کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی اچھی تربیت کرے۔

خاوند کے ذمہ بیوی کے حقوق

(1)حق مہر ادا کرنا۔ 

(2)معاشی طور پر تحفظ فراہم کرنا۔ 

 (3)بنیادی ضروریات زندگی رہائش اور خوراک فراہم کرنا۔

(4)بیوی کے عقائد واعمال اور اخلاق ومعاشرت کی اصلاح کرنا۔

(5)اگر بیویاں ایک سے زائد ہوں تو ان کے درمیان عدل و انصاف کرنا۔ 

(6) حسن معاشرت ( نرمی کا برتاؤ کرنا)۔ 

(7)بیوی کے قریبی رشتہ داروں کا احترام کرنا۔ 

(8)لوگوں کی موجودگی میں بیوی کو عزت دینا ۔

(9)بیوی کے عیوب کسی کو نہ بتلانا۔ 

(10)پریشانیوں سے بچانا۔ 

(11)پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا۔ 

(12)بیوی کے نامناسب رویوں کو برداشت کرنا اور سمجھاتے رہنا۔

(13)گناہ کی باتوں اور کاموں سے روکنا۔

(14)لباس میں اسلامی تہذیب کا پابند بنانا۔

(15)پردے کا پابند بنانا۔ 

(16)تفریح کے جائز مواقع فراہم کرنا۔

(17)گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا۔

باپ کے ذمہ اولاد کے حقوق

(1)اولاد کیلئے نیک اور شریف ماں کا انتخاب کرنا۔ 

(2)نیک و صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا۔

(3)ایک کان میں اذان دوسرے میں اقامت کہنا۔

(4)گھٹی دینا۔(5)اچھے نام کا انتخاب کرنا۔ 

( 6)ختنہ کرانا۔ (7)عقیقہ کرنا۔ 

(8)دودھ اور غذا کا بندوبست کرنا۔

 (9)اولاد کے درمیان انصاف کرنا۔

 (10) اولاد کو نیک لوگوں کی صحبت میں لانا۔

(11)اولاد کی اچھی تربیت کرنا۔

 (12)دین اور دنیا کی بہتر تعلیم دینا۔ 

(13)برے دوستوں سے اسے دور رکھنا۔ 

(14)بری عادات سے روکنا۔

 (15)بچوں کو چست رکھنا۔

(16)اپنی حیثیت کے مطابق ان پر خرچ کرنا۔

(17)ان کو روزگار کے قابل بنانا۔ 

(18)مناسب جگہ پر شادی کرانا۔ 

19)ہمیشہ ان کے حق میں دعائیں کرنا۔

عورت کی ذمہ دارانہ حیثیت

حدیث مبارک میں عورت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران و ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ بیوی کے ذمہ خاوند کے حقوق درج ذیل ہیں۔ 

(1)حلال امور میں خاوند کی اطاعت کرے َ

( 2)حرام امور میں خاوند کی اطاعت نہ کرے۔ 

(3)خاوند کے جنسی تقاضے کی تکمیل کرے۔ 

(4)خاوند کی نسل کی بقاء کا ذریعہ بنے۔ 

(5)گھریلو معاملات کو سمجھ داری سے چلائے۔ 

(6)خاوند کا راز کسی کو نہ بتلائے۔ 

( 7) خاوند کے عیوب کا تذکرہ نہ کرے۔ 

( 8)خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔

(9)فضول خرچی سے بچے۔ 

(10) خاوند پر زائد بوجھ نہ ڈالے۔

(11) بچوں کی تربیت میں خاوند کا ساتھ دے۔ 

(12)خاوند کے رشتہ داروں کااحترام کرے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سترہویں پارے کا خلاصہ

سورۂ انبیاء سورۂ انبیا میں فرمایاگیا ہے: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور وہ غفلت کا شکار ہیں، دین کی باتوں سے رو گردانی کر رہے ہیں اور جب بھی نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو توجہ سے نہیں سنتے‘ بس کھیل تماشے کے انداز سے سنتے ہیں اور نبی کریم کو اپنے جیسا بشر قرار دیتے ہیں‘ قرآن کو جادو‘ خوابِ پریشاں‘ شاعری اور خود ساختہ کلام قرار دیتے ہیں۔

سترہویں پارے کا خلاصہ

سورۂ انبیاءسترہویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔

سولہویں پارے کا خلاصہ

واقعہ موسیٰ علیہ السلامسولہویں پارے میں حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السّلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جا رہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں، اُن کے بارے میں آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔

سولہویں پارے کا خلاصہ

موسیٰ و خضر علیہ السلامسولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کی جنابِ خضر علیہ السّلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جنابِ موسیٰ علیہ السّلام حضرت خضر علیہ السّلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورۂ بنی اسرائیل: پندرھویں پارے کا آغاز سورۂ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔