نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم!

تحریر : مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی


’’نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کیلئے با ادب کھڑ ے رہا کرو‘‘(سورۃالبقرہ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جائوں(جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں‘‘ (بخاری و مسلم)

اسلام ایک جامع دین ہے، جو نہ صرف انسان کی انفرادی اصلاح کرتا ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے بھی بہترین اصول وضع کرتا ہے۔ اس میں عبادات کو نہ صرف انفرادی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ انہیں اجتماعی طور پر ادا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ نماز جو دین کا ستون ہے، اگر باجماعت ادا کی جائے تو اس کے روحانی، اجتماعی اور اخلاقی اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ باجماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اسے نہ صرف فرض نمازوں کی بہترین ادائیگی قرار دیا بلکہ اس کے ذریعے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کی بھی خوشخبری دی۔ احادیثِ مبارکہ میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ باجماعت نماز میں شریک ہونے والے شخص کے پچھلے گناہوں کی بخشش کی جاتی ہے اور اس کا مقام اللہ کے نزدیک بلند کر دیا جاتا ہے۔ یہ عبادت نہ صرف گناہوں کا کفارہ بنتی ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد، محبت اور بھائی چارے کو بھی مضبوط کرتی ہے۔

با جماعت نماز کی اہمیت

قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اور سیکڑوں احادیث میں نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور پابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کیلئے با ادب کھڑ ے رہا کرو‘‘ (سورۃ البقرہ: 238)، دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ (البقرہ: 43)۔ یہ آیات نمازِ باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں۔ اگر مقصود صرف نماز قائم کرنا ہی ہوتا تو آیت کے آخر میںاور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو کے الفاظ نہ ہوتے، جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔

میدانِ جنگ میں با جماعت نماز

اللہ تعالیٰ نے میدانِ جنگ میں بھی نماز  باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالت امن میں بالاولی نماز باجماعت فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’جب تم ان میں ہو اور ان کیلئے نماز کھڑی کروتو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچائواور اپنے ہتھیار لئے رہیں‘‘ (النساء: 102)۔

اگر کسی کو نمازباجماعت نہ ادا کرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کیلئے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جائوں(جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں‘‘ (صحیح بخاری: 2420، صحیح مسلم: 651)

نابینا شخص اور با جماعت نماز

نابینا شخص کیلئے بھی جماعت سے غیر حاضری کی اجازت نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ  بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسولﷺمدینہ میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں، (کیا میں گھر میں نماز پڑھ لیا کرؤں) آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تم حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تو مسجد آ، اور آپﷺ نے انہیں جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہیں دی ( صحیح النسائی: 850)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں جب صرف وہی شخص نماز سے پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا یا بیمار ہو۔ اور(بسا اوقات) بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے سے چل کر آ جاتا یہاں تک کہ نماز میں شامل ہو جاتا۔ انہوں نے مزید کہا: رسول اللہ ﷺنے ہمیں ہدایت کے طریقوں کی تعلیم دی اور ہدایت کے طریقوں میں سے ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی ہے جس میں اذان دی جاتی ہو(صحیح مسلم: 1487) لہٰذا کسی مسلمان کیلئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔

با جماعت نماز مغفرت کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ نے انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کیلئے ایسے نیک اعمال کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سے انسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کیلئے اپنی زندگی میں اللہ تعالی کی مغفرت اور رحمت کے حصول کے ذرائع اور اسباب اختیار کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ با جماعت نماز کی اہمیت اور گناہوں کی مغفرت کے حوالے سے چند احادیث پیش کی جا رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو باجماعت نماز ادا کرنے میں رغبت و دلچسپی ہو اور باجماعت نماز میں کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔

 وضو اور نماز کی تیاری

وضو کرکے نماز کی تیاری کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان  ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جس نے وضو کیا اور خوب اچھی طرح وضو کیا، تو اس کے جسم سے اس کے گناہ خارج ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں‘‘(صحیح مسلم : 578)۔

 با جماعت نمازکا اہتمام کرنا

حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ !میں حد (سزا) کا مرتکب ہوا ہوں، مجھ پر حد قائم فرمائیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تو نے آتے وقت وضو کیا تھا؟ اس نے کہا: جی ہاں! آپﷺ نے پوچھا: کیا تو نے ہمارے ساتھ  نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں!آپ ﷺنے فرمایا: جائو اللہ نے تجھے معاف کر دیا ہے۔ (صحیح مسلم: 2765)

 نیت بھی باعثِ ثواب

باجماعت نماز کی نیت بھی باعثِ ثواب ہے۔ کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی نیت کے ساتھ مسجد آیا لیکن پھر بھی جماعت نہ مل سکی تو اس کی نیت اور کوشش کی وجہ سے اسے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب ملے گا۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا۔(النسائی: 854)

 خشوع و خضوع

نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ سیدنا عثمان بن عفانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی بھی مسلمان فرض نماز کا وقت پائے، پھراچھی طرح وضو کرے، اچھی طرح خشوع سے اسے ادا کرے اور احسن انداز سے رکوع کرے، تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گی جب تک وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور یہ عمل ہمیشہ کیلئے ہے‘‘(صحیح مسلم: 228)

 نماز کیلئے چل کر جانا

با جماعت نماز کیلئے چل کر جانے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ حضرت عثمان ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے نماز کیلئے وضو کیا اور وضو کی تکمیل کی، پھر فرض نماز کیلئے چل کر گیا اور با جماعت نماز ادا کی یا مسجد میں نماز پڑھی، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا (صحیح مسلم: 232)

 نماز کے لئے مسجد کی طرف چل کر جانا جس طرح باعثِ مغفرت و کارِ ثواب ہے، اسی طرح مسجد سے واپسی بھی باعثِ مغفرت اور کارِ ثواب ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جماعت کی نماز کیلئے مسجد جاتا ہے، اس کا ایک قدم اس کا گناہ مٹاتا ہے اور دوسرا قدم اس کیلئے نیکی لکھتا ہے، یہ اجر مسجد جاتے اور مسجد سے واپس آتے دونوں وقت حاصل ہوتا ہے۔(صحیح الترغیب: 299)

 مسجد سے واپسی بھی کارِ ثواب

مسجد میں باجماعت نماز کیلئے انتظار کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے کیونکہ زیادہ دیر بیٹھنے اور انتظار کے دوران فرشتے انتظار کرنے والے کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر کے اندر یا بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ  مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کیلئے رحمتِ خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ!اس کو بخش دے، اے اللہ!اس پر رحم کر۔ فرشتے دعا کرتے رہتے ہیںجب تک وہ بے وضو نہ ہو جائے۔(بخاری: 651، مسلم: 662)

اجر و ثواب کے لحاظ سے 

سب سے بڑا انسان

با جماعت نماز ادا کرنے والا اجر و ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا انسان ہے۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا وہ شخص ہوتا ہے، جو (مسجد میں نماز کے لیے)زیادہ سے زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو(پہلے ہی)پڑھ کر سو جائے۔(بخاری: 651، مسلم: 662)

قارئین کرام!احادیثِ مبارکہ سے نمازِ باجماعت کی اہمیت اور فوائد معلوم ہوگئے، لہٰذا ہمیں با جماعت نماز سے غائب رہنے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں اور جن لوگوں کی ذمہ داری ہم پر ہے، ان کی بھی اس بارے میں تربیت کرنی چاہیے، کیونکہ ہم ان کے بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

نیز اللہ پاک کا پیارا بننے کیلئے، درجات کی بلندی کو پانے کیلئے، جنت میں داخلے کیلئے، جہنم سے آزادی کیلئے، منافقت سے نجات پانے کیلئے، شیطان سے حفاظت کیلئے اور اسی طرح اللہ پاک کی رحمت، مغفرت اور بہت سے فوائد حاصل کرنے کیلئے نمازِ باجماعت کی پابندی کیجئے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دے کر باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلایئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کونمازِ باجماعت کا پابند بنائے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔(آمین یا رب العالمین)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سترہویں پارے کا خلاصہ

سورۂ انبیاء سورۂ انبیا میں فرمایاگیا ہے: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور وہ غفلت کا شکار ہیں، دین کی باتوں سے رو گردانی کر رہے ہیں اور جب بھی نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو توجہ سے نہیں سنتے‘ بس کھیل تماشے کے انداز سے سنتے ہیں اور نبی کریم کو اپنے جیسا بشر قرار دیتے ہیں‘ قرآن کو جادو‘ خوابِ پریشاں‘ شاعری اور خود ساختہ کلام قرار دیتے ہیں۔

سترہویں پارے کا خلاصہ

سورۂ انبیاءسترہویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔

سولہویں پارے کا خلاصہ

واقعہ موسیٰ علیہ السلامسولہویں پارے میں حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السّلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جا رہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں، اُن کے بارے میں آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔

سولہویں پارے کا خلاصہ

موسیٰ و خضر علیہ السلامسولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کی جنابِ خضر علیہ السّلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جنابِ موسیٰ علیہ السّلام حضرت خضر علیہ السّلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورۂ بنی اسرائیل: پندرھویں پارے کا آغاز سورۂ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔